جامعہ کراچی کا نباتاتی باغ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

صفدر رضوی  اتوار 20 نومبر 2022
فوٹو ایکسپریس

فوٹو ایکسپریس

جامعہ کراچی میں گزشتہ 15 برس قبل سائنسی بنیادوں پر قائم کیا گیا پاکستان کا پہلا نباتاتی باغ ”بوٹینیکل گارڈن“حکام کی عدم توجہی اورفنڈز کی شدید قلت کے سبب اپنی سائنسی افادیت کھورہا ہے۔

جامعہ کراچی کے مرکزی داخلی دروازے سے شروع ہوکر کیمپس گیٹ سے کئی ایکڑرقبے پر محیط اس بوٹینیکل گارڈن ’سائنسی پارک‘ کے داخلی اورسامنے کے حصے آرائش کے ساتھ دیکھ بھال کی کوششیں تو جاری رہتی ہیں تاہم گارڈن کاعقبی حصہ بنجر زمین یامستقبل کے کسی جنگل کی ابتدائی شکل پیش کررہاہے۔

واضح رہے کہ یہ بوٹنیکل گارڈن کئی ملین روپے کی مالیت سے قائم کیا گیا۔ اسی طرح پلانٹ کنزرویشن ایریا (plant conservation area) میں اے وی پلانٹ خراب ہونے کے سبب برباد ہوگیا ہے یہاں محفوظ کیے گئے پودے اب مفقود ہیں جبکہ مذکورہ ایریا اوراس کااے سی پلانٹ کھنڈرات کامنظرپیش کررہا ہے۔

اس بات کاانکشاف ’ایکسپریس‘ کی جانب سے بوٹنیکل گارڈن کیے گئے ایک دورے کے موقع پر ہوا۔ جب بوٹینیکل گارڈن کے دفتر جاکراس کی انچارج ڈاکٹرروحی کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ وہ اس وقت موجود نہیں ہیں تاہم روزانہ کچھ وقت کے لیے نباتاتی باغ آتی ضرور ہیں اورضروری ہدایات جاری کرتی ہیں۔

کچھ عرصے قبل جب ان سے فون پر رابطہ کرکے نباتاتی باغ کی موجودہ صورتحال اوراس کے مختلف سیکشن کے بتدریج ختم ہونے کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو ڈاکٹر روحی کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے اسی سال 23 مئی کوجوائنگ دی یہاں فنڈنگ کامسئلہ رہا ہے‘۔  اس حوالے سے انتظامیہ کوایک تفصیلی خط بھی دیا ہے جس میں مسائل کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔

ڈاکٹرروحی نے دعوی کیا تھا کہ انھوں نے آنے کے بعد نرسری ایریا کودوبارہ فعال کیا ہے جواس سے قبل بند پڑی تھی جبکہ ہم مزید میڈیسن پلانٹ لگوارہے ہیں“۔

واضح رہے کہ بوٹنیکل گارڈن کے ایک مخصوص حصے میں ”پلانٹ کنزرویشن ایریا“ قائم کیاگیاتھا جس میں پاکستان کے دوردراز علاقوں سے ایسے پودے لاکریہاں محفوظ کیے گئے تھے جوایک مخصوص درجہ حرارت کے بغیرنشونما نہیں پاسکتے اوراس کے لیے پلانٹ کنزرویشن ایریا میں باقاعدہ طورپر اے سی پلانٹ لگائے اورمتعلقہ پودوں کومخصوص درجہ حرارت پررکھاجاتا تھا۔

KU-PARK-1

سابقہ وائس چانسلرزکے دورمیں اے سی پلانٹ کی ”مرمت“ نہ ہونے کے سبب یہ پلانٹ خراب ہوگیا۔ جس کی وجہ سے اے سی اور جنریٹرز ناکارہ ہوگئے اور کنزرویشن ایریا کوسایا فراہم کرنے والا نٹ بھی تارتارہوکراپنی جگہ چھوڑگیا جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے پودے بھی ختم ہوگئے اب وہاں ناکارہ اے سی پلانٹ اورکنزرویشن ایریا کا ٹوٹا پھوٹا آئرن اسٹریکچراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کبھی وہاں کنزرویشن ایریا موجود تھا۔

اس کنزرویشن ایریاسے آگے بڑھیں توگارڈن یکایک کسی اجاڑیا جنگل کانقشہ پیش کرنے لگتا ہے اورمزید آگے جاکریہ معلوم ہوتا ہے کہ مزید آئرن اسٹریکچراورنیٹ کی چھت کے ساتھ قائم کیے گئے حصے بھی بربادی کاشکارہیں وہاں ماضی میں رکھے گئے پودے موجودنہیں گھاس کی جگہ اب جھاڑیوں نے لے لی ہے۔

یادرہے کہ جامعہ کراچی کے بوٹنیکل گارڈن کاپروجیکٹ ایچ ای سی کی جانب سے سن 2005میں منظورہواتھا اوراس کا باقاعدہ قیام سن 2007میں عمل میں آیاجب ستمبر2007کواس وقت کے گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العبادخان نے اس کاافتتاح کیا۔

یہ پروجیکٹ معروف نباتاتی محقق اورجامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرمحمد قیصر کا اقدام تھا جواس وقت پاکستان کے معروف بوٹنیکل جرنل کے مدیربھی ہیں۔

”ایکسپریس“نے جب اس سلسلے میں بوٹنیکل گارڈن کے قریب ہی واقع ان کے دفترجاکراس سلسلے میں ان سے دریافت کیااورانھیں ”ایکسپریس“کے ہمراہ دورے کی دعوت دی توان کا کہنا تھا کہ اب ان کا اس پروجیکٹ سے تعلق نہیں ہے لہذا وہ گارڈن نہیں جائیں گے۔

گارڈن کے بارے میں معلومات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ اب پرانی باتیں توجوانھیں صحیح طرح سے یاد نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی کانباتاتی باغ ایچ ای سی کی جانب سے ملنے والے تقریباً 3 کروڑروپے کے فنڈزسے قائم کیا گیا تھا جس میں ”سلائن ایریا“ میں نشونما پانے والے پودوں کے ساتھ ساتھ ”الپائن پلانٹس،میڈیسن پلانٹ اورہیلوفائیٹ“ بھی محفوظ کیے گئے تھے جبکہ پھل داردرختوں کیلیے ایک علیحدہ حصہ مختص کیا گیا تھا۔ جس میں آم سمیت دیگرپھل داردرخت موجود تھے جس ختم ہوگئے۔ بتایاجارہاہے کہ آم کے پودوں کی ایک بارپھرکاشت کی گئی ہے۔

ادھر وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ عمومی طور پر سائنسی و تحقیقی منصوبوں کے لیے ہمارے لوگ ایچ ای سی گرانٹ تو لے آتے ہیں جس سے ایک بار منصوبہ شروع ہوجاتا ہے تاہم اسے جاری رکھنے اور مسلسل تحقیق کے لیے علیحدہ گرانٹ کا بھی ہیڈ ہونا چاہیے جسے پی ون میں شامل ہی نہیں کیا جاتا پھر ان منصوبوں کا بوجھ جامعات پر آجاتا ہے جیسا اس منصوبے میں ہوا ہے جبکہ موجودہ مالی صورتحال اور گرانٹ میں توسیع نہ ہونے سے ایسے منصوبے چلانا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔