- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
منفی بات کا جواب مثبت سے دیجیے!
پشاور: عام طور پر انسان کی زندگی اور بالخصوص خواتین کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والی سب سے بڑی چیز باہمی رویے ہیں۔ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ رویوں کو محسوس کرتی ہیں اور اسی بنیاد پر پھر آگے بات کرتی ہیں۔
اچھے رویے جہاں ہمیں کام یابی کے زینے چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، وہیں برے رویے زندہ درگور کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ تمام ذہنی بیماریاں اور اخلاقی برائیاں اسی کے نتیجے میں آتی ہے۔ ہر طبقے کے افراد اس سے متاثر ہے۔ آج کل کے دور میں میں ان برے رویوں کی وجہ سے اختلافات اور ذہنی انتشار بے حد بڑھنے لگے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ہر چھوٹا بڑا اپنی جگہ احساس کم تری کا شکار ہے۔ وہ سکون جو دلوں میں ہوا کرتا تھا، آج الجھن کی جگہ لے چکا ہے وہ خوشیاں جو مل جل کر بیٹھنے سے ملتی تھیں آج کینہ، حسد اور بغض وعناد اسکی جگہ لے چکا ہے۔ بہت سی خواتین میں یہ رقابت زیادہ تر پہناوے اور سجنے سنورنے کے مقابلے سے شروع ہوتی ہے اور پھر گھر اور بچوں کی کام یابیوں وغیرہ تک بڑھتی چلی جاتی ہے۔
دراصل ہم اپنوں سے محبت کے بہ جائے مادی چیزوں سے پیار کرنے لگے ہیں۔ اپنے خیر خواہوں سے اعتبار اٹھ کر دوستوں کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ رفیق، حریف اور رقیب کی جگہ پر کھڑا ہے۔ انسانیت خودی اور احساس جیسی خوبیاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو جتنا ظالم ہے اتنا ہے اس کا راج ہے۔
والدین اور بچوں کے رشتے کو دیکھا جائے تو اعتراضات اور اختلافات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ازواجی زندگی تو اجیرن بن چکی ہے دوست بھی کچھ خاص اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ مختصر یہ کہ ہر رشتہ مفاد پرستی پر قائم ہے، جہاں پر مفاد ختم وہاں پیار محبت احساس اور رشتے سب کچھ ختم۔
ہمارے ان بدلتے رویوں کے مختلف اسباب ہیں، لیکن سب سے بڑا سبب ’سوشل میڈیا‘ کا منفی استعمال ہے۔ ہمیں ’سوشل میڈیا‘ سے فائدے کے بہ جائے نقصانات زیادہ ملنے لگے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ٹی وی ڈرامے انسانیت کا سبق دینے سے زیادہ جھگڑوں تلخیوں اور اختلافات میں گرے خاندانوں کے قصے سنانے اور دکھانے میں مصروف ہیں۔ کہیں پر حل نہیں دکھایا جا رہا، نہ اس کے سدباب کا کوئی طریقہ بتایا جا رہا ہے۔
نتیجتاً خواتین اور نوعمر لڑکیوں میں بھی ڈپریشن، ٹینشن، احساس کمتری وغیرہ جیسے مسائل بڑھنے لگے ہیں۔ آج ضرورت اس کی ہے کہ ہم سب کی خوشی میں خوش ہوں، کسی کی منفی بات کو نظرانداز کردیں، نہ کہ اس کا انتقام لینے کے لیے موقع ڈھونڈیں۔ اس سے یقیناً بہت سے منفی ذہن کے لوگ یا تو اپنی اصلاح کرلیں گے، یا پھر تھک کے بیٹھ جائیں گے۔ رشتے اہم ہیں لہذا رشتوں کا احساس کریں ان کا خیال رکھیں۔ یہی آپ کی زندگی کا سرمایہ ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔