امریکا میں غیر ملکی مداخلت، جیسے کو تیسا

وجیہ احمد صدیقی  اتوار 4 دسمبر 2022

امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ دنیا بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں مداخلت ضرور کرتی ہے، لیکن 2016میں امریکی انتخابات میں روس پر مداخلت کا الزام لگایا گیا کہ انٹرنیٹ پر امریکا کی مخالفت کی اجازت کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ امریکا کے دشمن ان کے انتخابات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

اس معاملے پر امریکا میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جب تک امریکا خود دوسرے ممالک کے انتخابات میں مداخلت کرنا بند نہیں کرتا بلکہ اس کا اعلان بھی کرے کہ اس نے خود بھی غیر ممالک کے انتخابات میں مداخلت کرنا بند کردی ہے، لیکن یہ سلسلہ اس طرح چل نکلا ہے کہ نومبر2020 میں ہونے والے امریکی انتخابات میں امریکا کو یہ شکوہ ہوا کہ ان میں بھی غیر ملکی مداخلت ہو رہی ہے۔

یو ایس نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس اینڈسیکیورٹی سینٹر کے ڈائریکٹرولیم ایوانینا نے پہلے ہی امریکی حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ آنے والے انتخابات میں روس، چین اور ایران بھر پور طریقے سے اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

امریکی مصنف ڈو لیون نے اپنی کتاب ’’ بیلٹ باکس میں مداخلت‘‘میں یہ لکھا کہ سوویت یونین سے لے کر دوبارہ روس بننے تک 1946 سے لے کر 2000 تک روسی حکومتوں نے امریکی انتخابات میں 117 بار مداخلت کی تھی،لیکن امریکا اپنی مداخلتوں کا ذکر نہیں کرتا جو اس نے ترقی پذیر ممالک میں کی ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن امریکا نے اس پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ الیکشن کمیشن پاکستان نے یہ سوال اٹھائے ہیں کہ ’’پی ٹی آئی امریکا، پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن اور پی ٹی آئی پرائیوٹ لمیٹڈ برطانیہ کی جانب سے فنڈز اکٹھے کرنا اور پاکستان میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں بھیجنا ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتا ہے؟‘‘ یہ بھی الزام ہے کہ خالص امریکی شہریوں،امریکی کمپنیوں سے رقوم بٹوری گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکا میں کمپنیوں کے ذریعے امریکی شہریوں اور امریکا میں قائم کمپنیوں سے عطیات اور چندے وصول کرنے کے لیے چندہ مہم چلائی۔کمیشن کے مطابق ان کمپنیوں نے امریکی قانونی تقاضے تو پورے کیے مگر پاکستان میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں سے متعلق پاکستانی قوانین کی پاسداری نہیں کی جس کے تحت کمپنیاں اور غیر ملکی شہری ایسے عطیات نہیں دے سکتے۔

کمیشن کے مطابق امریکا میں قائم پی ٹی آئی امریکا ایل ایل سی 6160 نے کل پانچ لاکھ 49 ہزار امریکی ڈالر منتقل کیے جس میں سے 70 ہزار 960 ڈالر غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے حاصل کیے گئے۔

اسی طرح پی ٹی آئی امریکا ایل ایل سی 5975 نے 13 غیر ملکی شہریوں اور 231 غیر ملکی کمپنیوں سے اندازاً ایک لاکھ 13 ہزار 948 ڈالر کی رقم پی ٹی آئی پاکستان کو منتقل کی۔‘‘ اگر پی ٹی آئی کی جگہ کوئی مذہبی یا اسلامی یا امریکا کی نظریاتی مخالف جماعت وہاں اس طرح فنڈز جمع کرتی تو امریکیوں کو پاکستانی قوانین بھی یادآجاتے۔

امریکا نے پاکستان کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جس سے پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوئے۔امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کی سلامتی کو ہمیشہ داؤ پر لگایا ہے۔پاکستان کے فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان کا 11 جولائی 1961 کو امریکا کے سرکاری دورے پر جو فقید المثال استقبال ہوا تھا تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے کہ کسی پاکستانی سربراہ مملکت کو کبھی امریکا جیسی سپر پاور کی حکومت اور عوام کی طرف سے ایسی شاندار پذیرائی ملی ہویہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا تھا کہ جنرل صاحب، امریکی حکومت اور عوام کے بہت بڑے محسن بن چکے تھے کیونکہ انھوں نے امریکی مفادات کا تحفظ کیا تھا۔

نہ صرف اس وقت کی دوسری سپرپاور سوویت یونین یا روس کے خلاف مختلف فوجی معاہدوں میں شرکت کی تھی بلکہ اپنی سرزمین پر امریکا بہادر کو خفیہ طور پر فوجی اڈے بھی دیے تھے۔ جب ان امریکی فوجی اڈوں کا راز فاش ہوا، تو پاکستان کے لیے جنگی خطرات بڑھ گئے تھے۔ یکم مئی 1960 کو روس یا سوویت یونین نے پشاور کے قریب بڈبیر کے مقام سے امریکی فوجی اڈے سے اڑ کر آنے والے ایک جاسوس طیارے کو اپنی حدود میں مار گرایا تھا۔

اس دراندازی پر پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے دی تھی اور کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا تھا، جس نے امریکا کے کان کھڑے کر دیے تھے۔ یہ استقبال اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔’’ ویسے تو امریکا بہت جمہوریت پسند بنتا ہے لیکن اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے ہمیشہ آمروں کی پشت پناہی کی ہے۔

سب ہی کے امریکا کے ساتھ تعلقات گہرے رہے اور ان کو قوم پر مسلط کرنے میں امریکا نے ان سب کی بھر پور مدد کی ہے۔

یکم مئی 1960کو روس نے اپنی فضاء میں امریکا کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا تھا جو پاکستان سے ایک امریکی فوجی اڈے سے اڑ کر گیا تھا۔امریکی جاسوس طیارے یو ٹوکو روس کے سام لانچرکے ذریعے سے مار گرایا گیا تھا۔امریکی جاسوس طیارے کا روٹ پاکستان کے شہر پشاور کے قریب بڈبیر کے مقام سے روسی سرزمین سے ہوتے ہوئے شمال میں ناروے تک ہوتا تھا اور اتنا اونچا اڑتا تھا کہ امریکیوں کا خیال تھا کہ روس اسے نہیں گرا سکتا تھا۔

یوٹو جاسوسی طیارے کی تباہی کے بعد چند دنوں تک امریکی حکومت دنیا کو گمراہ کرتی رہی کہ ان کا ایک طیارہ شمالی ترکی میں گر کر تباہ ہوچکا ہے سبت پائلٹ فرانسس گیری پاور کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔5 مئی 1960 کو روسی وزیراعظم خروشیف نے یہ انکشاف کرکے امریکا کو دنیا بھر شرمندہ کردیا تھا کہ انھوں نے ایک امریکی جاسوسی طیارہ مارگرایا ہے اور اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کرلیا ہے۔

روس نے اس واقعہ کے بعد پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی اور پشاور کے گرد ایک سرخ دائرہ کھینچ دیا تھا۔ پاکستان میں اس خبر کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔ ویسے بھی کسی عوامی ردعمل کی توقع نہیں تھی کیونکہ ملک میں جنرل ایوب خان کا مارشل لاء نافذ تھا۔ ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی اور میڈیا خاموش کردیا گیا تھا۔

ان حالات میں 6 اکتوبر 1960 کو وزیر قدرتی وسائل ذوالفقار علی بھٹونے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد روسی وزیر اعظم خروشیف سے ایک طویل ملاقات کر کے نہ صرف روسی غصے کو ٹھنڈا کیا تھا بلکہ انھیں پاکستان میں وسیع سرمایہ کاری پرآمادہ بھی کرلیا تھا۔ اس تاریخی ملاقات کا نتیجہ پاکستان میں روزانہ پچاس ہزار بیرل تیل کی پیداوار اور اسٹیل مل کا قیام بھی تھا جو روس کے تعاون سے ہی ممکن ہوا تھا۔یو ٹوجاسوس طیارے کو مارگرانے کا واقعہ رونما نہ ہوتا تو کسی کو کبھی شاید علم تک نہ ہوتا کہ کب سے امریکی جاسوسی طیارے اس وقت کی دوسری بڑی سپرپاور سوویت یونین یا روس کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

ستمبر 1953 میں جب جنرل محمد ایوب خان نے امریکا کا سرکاری دورہ کیا تھا تو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد کے عوض جہاں پاکستان نے سیٹو اور سینٹو جیسے روس مخالف امریکی فوجی معاہدوں میں شرکت کی تھی۔امریکا نے بھارت کے مفادات کا تو تحفظ کیا ہے لیکن پاکستان کے مفادات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔

امریکا نے پہلے پاکستان کی غیر جمہوری حکومتوں کو یرغمال بنایا تھا، اب اس نے پاکستان کی سیاسی حکومتوں اور جماعتوں کو بھی یرغمال بنا لیا ہے اور ان میں وہ فنڈنگ بھی کررہا ہے۔ہمیں اس سے کون نجات دلائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔