- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
پاکستان اپنے تمام قرضے بروقت ادا کرے گا، گورنر اسٹیٹ بینک
کراچی: گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے تمام قرضے بروقت ادا کرے گا اور اگلے 7 مہینوں کے دوران درحقیقت صرف 4.7 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں، قرضوں کی واپسی کے لیے جو زرمبادلہ اکٹھا کیا جاچکا، وہ ہماری فوری ضرورت سے زیادہ ہے، توقع ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک پوڈکاسٹ سیریز کی تازہ ترین قسط میں گورنر اسٹیٹ بینک نے بین الاقوامی مالی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی ملکی صلاحیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے بیرونی کھاتے کی کمزوریوں کے متعلق خدشات زائل کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح کے اہم چیلنجوں میں یوکرین جنگ، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں تاریخی اضافہ اور مرکزی بینکوں کی سخت زری پالیسی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی مالی منڈیوں سے فنڈز جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ملکی محاذ پر معیشت سیلاب سے متاثر ہوئی، جس نے پاکستان کے لیے خاصے چیلنجز پیدا کیے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ بحیثیت مجموعی صورت حال چیلنجنگ ہے، تاہم اسٹیٹ بینک اور حکومتِ پاکستان صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023ء میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو تقریباً 33 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، جن میں جاری کھاتے کی مد میں 10ارب ڈالر اور قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 23 ارب ڈالر کے قابل ادائیگی بیرونی قرضوں میں سے پاکستان پہلے ہی 6 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے واپس کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ ممالک کے تعاون سے 4 ارب ڈالر کے دو طرفہ قرضوں کو رول اوور کر دیا گیا ہے، مزید 8.3 ارب ڈالر کے میچورنگ واجبات کے بھی رول اوور ہونے کی توقع ہے کیونکہ مذاکرات جاری ہیں۔
جمیل احمد نے کہا کہ مالی سال کی باقی مدت میں قابل ادائیگی واجبات کی مالیت تقریباً 4.7 ارب ڈالر بنتی ہے، ان میں 1.1ارب ڈالر کے کمرشل قرضے بھی شامل ہیں جو بیرونی بینکوں کو ادا کیے جانے ہیں جبکہ باقی 3.6 ارب ڈالر کثیر فریقی قرضوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی زرمبادلہ رقوم (علاوہ مذکورہ 4ارب ڈالر کے رول اوور) کے موصول ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان قرضوں کی بروقت واپسی کرتا رہے گا جبکہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں رقوم کی آمد میں خاصے اضافے کی توقع ہے، کچھ بیرونی واجبات کے رول اوور کے ساتھ توقع ہے کہ آئندہ مہینوں میں پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ ہوجائے گا۔ 28 نومبر تا 02 دسمبر کے ہفتے میں AIIB سے 500ملین ڈالر موصول ہونے کے بعد اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 7.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
جمیل احمد نے کہا کہ اس ہفتے اسٹیٹ بینک نے میچور ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل سکوک اور قرضوں کی کچھ دیگر بیرونی ادائیگیوں کے ضمن میں ایک ہزار ملین ڈالر کی ادائیگی کی، لہٰذا 02 دسمبر 2022ء تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی سطح پر تھے۔ حکومت ایک دوست ملک کے ساتھ بھی 3 ارب ڈالر کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہی ہے جبکہ مزید مالی اعانت کے لیے کثیر فریقی ایجنسیوں سے مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قبل ازیں مرکزی بینک نے مجموعی طور پر 1.2 ارب ڈالر مالیت کے کمرشل قرضے واپس کیے تھے۔ توقع ہے کہ یہ بینک اتنی ہی رقم دوبارہ قرض دیں گے، جس سے ملکی زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ رواں مالی سال کے آغاز پر اسٹیٹ بینک نے پورے مالی سال 23ء کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔
جمیل احمد نے کہا کہ تاہم سیلاب کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 سے 3 ارب ڈالر بڑھنے کی توقع ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی مارکیٹ میں بعض اہم مثبت تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں جن میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی شامل ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بعض پالیسی اقدامات بھی کیے ہیں جن سے رقوم کا اخراج نمایاں طور پر کم ہوگا، جس کے نتیجے میں توقع ہے کہ مالی سال 23ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر سے کم رہے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک کی 10 فیصد سے بھی کم درآمدات اس وقت انتظامی کنٹرول کے تحت ہیں، یہ تمام پابندیاں عارضی ہیں اور بتدریج ختم کر دی جائیں گی۔ پٹرولیم اور دوائیں اسٹیٹ بینک کے ترجیحی شعبوں میں شامل ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات یا دواسازی کے شعبے سے متعلق خام مال کی درآمد پر قطعی کوئی پابندی نہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔