ایران، احتجاج چوتھے مہینے میں داخل ہو گیا

عبید اللہ عابد  اتوار 18 دسمبر 2022
ایک طرف احتجاجی مظاہرین سے’گشت ارشاد‘ ختم کرنے اورحجاب کی پالیسی پرنظرثانی کے وعدے،دوسری طرف گرفتارمظاہرین کوپھانسیاں! فوٹو : فائل

ایک طرف احتجاجی مظاہرین سے’گشت ارشاد‘ ختم کرنے اورحجاب کی پالیسی پرنظرثانی کے وعدے،دوسری طرف گرفتارمظاہرین کوپھانسیاں! فوٹو : فائل

ایران میں بائیس سالہ کرد لڑکی مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی تحریک میں حصہ لینے والوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ پر خبر دی گئی کہ انقلابی عدالت نے23 سالہ ’ محسن شکاری‘ نامی نوجوان کو ’ خدا کے خلاف جنگ‘ کرنے، تہران کی ایک سٹرک بند کرنے اور ایک ایرانی سکیورٹی اہلکار کو چاقو سے زخمی کرنے کے الزامات کے تحت 20 نومبر2022ء کو سزائے موت سنائی تھی۔

محسن نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تاہم ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انقلابی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ یوں اسے آٹھ دسمبر بروز جمعرات پھانسی دیدی گئی۔

’محسن شکاری‘ کو25 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل مھسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ یاد رہے کہ ایران کی’گشت ارشاد‘ (اخلاقی پولیس یا morality police ) کے اہلکاروں نے13ستمبر کے روز مھسا امینی کو تہران میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر الزام عائد کیا کہ اس نے مناسب انداز میں حجاب کا اہتمام نہیں کیا تھا۔

بعض عینی شاہدین کے مطابق گرفتاری کے فوراً بعد جب مھسا امینی کو گاڑی میں بٹھایا گیا تو اس کے سر پر کسی چیز سے ضرب لگائی گئی، نتیجتاً وہ بے ہوش ہوئی، بعدازاں کوما میں چلی گئی اور پھر 16ستمبر کو اسی حالت میں انتقال کر گئی۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مھسا امینی کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا۔ تاہم لڑکی کے گھر والے سرکاری موقف نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مھسا امینی پر پولیس حکام نے تشدد کیا۔

’ محسن شکاری ‘ کے خلاف مقدمہ شروع ہونے سے پھانسی تک کا مرحلہ اس قدر تیزی سے طے کیا گیا کہ لوگ ششدر ہیں۔ مقدمہ میں اس کی پہلی پیشی، انقلابی عدالت سے سزا، سپریم کورٹ کا اپیل پر فیصلہ اور پھر پھانسی پر عمل درآمد، یہ سب کچھ محض ایک مہینہ کے اندر ہی مکمل ہوا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ محسن نے اپنے اقدامات سے دہشت اور خوف پھیلایا، لوگوں کو آزادی اور تحفظ سے محروم کیا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘ کا کہنا ہے کہ ایران میں مزید 28 افراد کو پھانسی دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایرانی حکام مقبول عوامی تحریک کو دبانے کے لئے پھانسیوں کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ایرانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس غلام حسین محسنی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ’ فساد فی الارض ‘ پھیلانے اور ’ خدا کے خلاف جنگ ‘ کرنے والے بعض افراد کی سزائے موت برقرار رکھی گئی ہے، اور ان پر بہت جلد عمل درآمد ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق ایران میں امسال (2022ئ) ، اب تک 500 افراد کو پھانسیاں دی جا چکی ہیں جو گزشتہ برس دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔یاد رہے کہ سن 2021ء میں 333افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔

 انسانی حقوق کے علمبردار متفکر

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ’سازمانِ حقوق بشر ایران‘ نے مظاہرین کو پھانسی کی سزائیں دینے کو انسانی حقوق کے تمام قوانین اور معیارات کے منافی قرار دیا اور بین الاقوامی برادری سے کہا کہ وہ اس پر مناسب ردعمل کا مظاہرہ کرے ۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلقہ ادارے نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قیدیوں کو سزائے موت دینا بند کرے۔ تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ غیرملکی طاقتوں بالخصوص امریکا کی سازش کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ حالیہ احتجاجی مظاہروں کے پیچھے امریکا، اسرائیل ، یورپی قوتوں اور سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے گزشتہ ماہ ایران میں احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے اقدامات سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ایران نے مشن کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ مشن کی تشکیل کے پیچھے’’سیاسی‘‘ عوامل کارفرما ہیں۔

 احتجاج تیسرے ماہ بھی جاری

سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز کے مطابق دارالحکومت تہران سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے مسلسل ہو رہے ہیں۔ خواتین بغیر سر ڈھانپے مظاہروں میں شریک ہو رہی ہیں۔ بعض خواتین اپنے دوپٹے ، سکارف جلا رہی ہیں، بعض اپنے سر کے بال کاٹ کر پھینک رہی ہیں اور نعرے لگا رہی ہیں : ’’زن، زندگی، آزادی‘‘ ۔

جبکہ کاروباری طبقہ بھی شٹرڈاؤن ہڑتالیں کر رہا ہے۔ احتجاج صرف ایران کے اندر ہی نہیں ہے بلکہ بیرونی ممالک میں مقیم ایرانی بھی سڑکوں پر نکلتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔ ایران کو سب سے زیادہ خفت کا سامنا تب کرنا پڑا جب فٹ بال ورلڈکپ (منعقدہ قطر ) میں ایرانی فٹ بال ٹیم نے اپنا قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ کپتان احسان حاج صفی نے کہا کہ وہ مھسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔

دل دہلا دینے والی خبریں اور اعدادوشمار

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سیکورٹی فورسز احتجاجی مظاہروں میں شریک خواتین اور طالبات کو چہرے، چھاتیوں اور زیر ناف حصے پر گولیاں برساتے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں میں زخمی ہونے والوں کا خفیہ علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں نے برطانوی اخبار ’ گارڈین ‘ کے نمائندے کو بتایا کہ مردوں کو ٹانگوں، کمر اور کولہوں پر گولیاں ماری جاتی ہیں۔

ڈاکٹروں نے ثبوت کے طور پر زخموں کی تصاویر اور ایکسریز دکھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے مرد ، خواتین اور بچے بھی علاج کے لئے لائے گئے جن کی آنکھوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی معالجین کا کہنا ہے کہ متعدد زخمی ہمیشہ کے لئے معذور ہو سکتے ہیں۔

’سازمانِ حقوق بشر ایران‘ کے مطابق مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاج کے دوران ، (سات دسمبر تک) 458 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں63 بچے اور 29 خواتین بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں کردستان(53) اور مغربی آذربائیجان (53) میں ہوئیں۔ دارالحکومت تہران میں ہلاک ہونے کی تعداد46 ہے۔ خبر رساں ایجنسی’ اے پی‘ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران میں 18 ہزار سے زائد مظاہرین گرفتار ہو چکے ہیں۔

اب ایرانی حکومت کسی قدر احتجاج سے متاثر نظر آرہی ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ: ’’مظاہرین کی آواز کو ہر حال میں سننا چاہیے اور طلبا کی بات سننے کے لیے ہم ہمیشہ تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احتجاج اور ہنگامے میں فرق ہوتا ہے۔

احتجاج سے معاملات سدھرتے ہیں جبکہ ہنگامے اور توڑ پھوڑ نا امیدی کا باعث بنتے ہیں۔ ایرانی صدرکا کہنا ہے کہ امریکہ ایران میں تخریب کاری اور ہنگامے کرانا چاہتا ہے، وہ طاقتور ایران کے بجائے ایک تباہ حال ایران دیکھنا چاہتا ہے اور ایران کو شام، افغانستان بنانا چاہتا ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ ایرانی قوم کے تعلیم یافتہ مرد و زن اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔

واضح رہے کہ صدر ابراہیم رئیسی اس بات کا اعادہ بھی کر چکے ہیں کہ قانونِ حجاب کے نفاذ کے معاملے میں لچک دکھائی جا سکتی ہے۔ تاہم انھوں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔

احتجاج کے غیر معمولی اثرات

ایرانی صدر کے بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے اندر اور باہر احتجاج غیرمعمولی طور پر شدید ہے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکومت اس کے زیر اثر آچکی ہے اور اس نے ’ گشت ارشاد ‘ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ چار دسمبر 2022ء کو ملک کے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے ’معروف شہر ’ قم‘ میں مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’ گشتِ ارشاد ‘ کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تاہم انھوں نے ساتھ ہی اشارہ دیا کہ ایرانی عدلیہ اخلاقی ضابطے نافذ کرنے والی پولیس کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایرانی پارلیمان اور عدلیہ ، دونوں حجاب کے معاملے پر غور و خوض کر رہی ہیں۔

ایرانی مظاہرین مذکورہ بالا حکومتی اعلانات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں ، ان کا خیال ہے کہ یہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان اعلانات کے بعد حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ حکومتی ذمہ داران میں سے کسی نے بھی حجاب کے حوالے سے قوانین میں کسی تبدیلی کی واضح بات نہیں کی۔ یاد رہے کہ ایران کی انقلابی حکومت1979ء کے بعد سے اب تک حجاب سے متعلق قوانین کے نفاذ میں سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئی ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔

’’کریک ڈاؤن نہیں، مذاکرات‘‘

عرب دنیا کے معروف ٹی وی چینل ’ الجزیرہ ‘ کی نمائندہ برائے تہران ’دورسہ جباری ‘ کا کہنا ہے: ’’ میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ مجھے اپنے 20 سالہ صحافتی کیرئیر کے دوران میں ایسی مشکل صورت حال کی کوریج کرنا پڑے گی۔ ( مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد ) پہلا عوامی ردعمل مکمل طور پر حیران کن تھا۔ لوگ ایسا شدید ردعمل بھی دیں گے، یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ 2022 ء میں کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے، جو بعدازاں جذبات کے ایک طوفان میں بدل جائے گا۔

یہ کیفیت صرف میری ہی نہیں تھی بلکہ تہران میں ہر اُس خاتون کی تھی جس سے میری گفتگو ہوئی۔ عام خواتین چیخ پڑیں اور کہنے لگیں کہ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ رونے اور غم و غصہ کے اظہار کے سوا کیا کریں۔ یہ خواتین خوفزدہ ہیں کہ انھیں بھی مھسا امینی کی طرح نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ ایران کے اندر اور باہر خواتین کی طرف سے ایسے شدید ردعمل کا سبب یہ ہے کہ حجاب ایرانی خواتین کے لئے ہمیشہ سے ایک نازک مسئلہ بنا رہا ہے۔ جس تجربہ سے مھسا امینی کو گزرنا پڑا، اس سے ہر ایرانی خاتون کو گزرنا پڑتا ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے۔

اسے کہیں بھی اور کسی بھی وقت روکا جا سکتا ہے۔آپ چاہے ایرانی ہیں یا غیر ملکی، مسلمان ہیں یا غیر مسلم ، ’گشت ارشاد‘ آپ کو کہیں بھی روک سکتی ہے اور حجاب کے اہتمام پر مجبور کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر خاتون کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی مھسا امینی کی طرح ہلاک کر دی جائے گی‘‘۔

اس تناظر میں خواتین اس قدر زیادہ غم و غصہ سے بھری پڑی ہیں کہ وہ صاف اور واضح انداز میں کہہ رہی ہیں کہ انھیں ’’ اسلامی جمہوریہ ‘‘ نہیں چاہیے۔ بعض جگہوں پر ان خواتین مظاہرین کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن وہ اس کم تعداد کو بھی کافی سمجھتی ہیں۔

انھیں گرفتاری کا بھی کوئی ڈر نہیں ہوتا، ایسے میں ’دورسہ جباری‘ جیسے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ان نعرے لگانے والی خواتین اور دیگر مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں، مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے حقوق پر مکالمہ کرنے کی ضرورت اس سے پہلے ، اس قدر زیادہ کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔