پاکستانی آسٹریلوی ماہرین نے خردبینی پلاسٹک جذب کرنے والا مقناطیسی پاؤڈر بنالیا

سہیل یوسف  ہفتہ 17 دسمبر 2022
(بائیں سے دائیں) ڈاکٹر ناصر محمود، محمد حارث اور پروفیسر نِکی اشتیاگی پانی کے نمونے کے ساتھ جسے مائیکروپلاسٹک ختم کرنے والے پاؤڈر سے صاف کیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ: آرایم آئی ٹی یونیورسٹی

(بائیں سے دائیں) ڈاکٹر ناصر محمود، محمد حارث اور پروفیسر نِکی اشتیاگی پانی کے نمونے کے ساتھ جسے مائیکروپلاسٹک ختم کرنے والے پاؤڈر سے صاف کیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ: آرایم آئی ٹی یونیورسٹی

  کراچی: پاکستانی اور آسٹریلوی ماہر کی ٹیم نے ایک مقناطیسی پاؤڈر ڈیزائن کیا ہے جو بہت کم وقت میں نہ صرف پانی میں آلودگی کو نکال باہر کرتا ہے بلکہ آبی ذخائر میں موجود دنیا کے سب سے بڑا چیلنج حل کرتا ہے جو پلاسٹک کے خردبینی ذرات (مائیکروپلاسٹک) کی صورت میں ایک عالمی مسئلے کی صورت میں موجود ہے۔

یہ مٹیریئل دیکھنے میں عام پاؤڈر جیسا ہی ہے لیکن حقیقت میں خاص اجزا سے تیار کیا گیا جو خردبینی ہیں اور ان پر فیرومیگنیٹک (فولادمقناطیسی) ساخت کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ بہت باریک ستون کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان ستونوں کو دو بعادی (ٹو ڈائمینشنل) پرتوں پر لگایا گیا ہے جنہیں میٹل آرگینک فریم ورک (ایم اوایف) کہا جاتا ہے۔ ہر پرت کے درمیان ایک باریک جھری یا جہاں آئرن آکسائیڈ کے نینو ستون کھڑے کئے گئے ہیں۔ ایم او ایف کی دونوں چادروں کے درمیان پانی گزرتا ہے تو اس کی آلودہ ذرات اور پلاسٹک اس میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

ماہرین نے بہت غوروفکر کے بعد سفوف کے ذرات کچھ اس طرح ڈیزائن کئے ہیں کہ فی گرام پاؤڈر کا اندرونی رقبہ حیرت انگیز طور پر 749.7 مربع میٹر تک جاپہنچا ہے۔ اس کے اندر ستونوں کی صورت میں لاتعداد شکنجے موجود ہیں جہاں آلودگی کے ذرات قید ہوجاتے ہیں۔

مائیکروپلاسٹک کھینچ نکالنے والی مروجہ ٹیکنالوجی میں کئی دن لگتے ہین، جبکہ ہماری کم خرچ اور ماحول دوست ایجاد یہی کام ایک گھنٹے میں کرتی ہے،‘  تحقیق کی سربراہ ، پروفیسر نِکی اشتیاگی نے آرایم آئی ٹی یونیورسٹی کی پریس ریلیز میں بتایا۔ وہ اسی جامعہ کے کیمیکل انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔

واضح رہے کہ جدید ترین فلٹر پلانٹ اور آلات چند ملی میٹر پلاسٹک ذرات ہی گرفت میں لے سکتے ہیں جبکہ انقلابی پاؤڈر اس سے بھی 1000 درجے باریک ذرات کو قید کرسکتےہیں۔ آرایم آئی ٹی یونیورسٹی سے وابستہ محقق ڈاکٹر ناصر محمود نے کہا کہ ان کا ڈیزائن کردہ نظام پورے عمل کے دوران کسی قسم کی ذیلی آلودگی اور زہریلے مرکبات پیدا نہیں کرتا۔

جامعہ میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم، محمد حارث نے میٹل آرگینک فریم ورک اور نینوستون والے ذرات پر بنیادی کام کیا ہے اور انہوں نے اسے ڈیزائننگ سے عملی صورت دی ہے۔ محمد حارث نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب سفوف آلودہ پانی میں ملایا جاتا ہے تو یہ ایک باریک فوم کی طرح آلودگی کے ذرات جذب کرلیتا ہے۔ اگلے مرحلے میں ایک عام مقناطیس کو پانی میں گھمایا جائے تو پاؤڈر کے ذرات اس سے چپک جاتے ہیں کیونکہ ستون درحقیقت آئرن آکسائیڈ سے بنے ہوئے ہیں۔ یوں ذرات آلودگی سمیت مقناطیس سے چپک جاتے ہیں۔

پاکستانی اور آسٹریلوی سائنسدانوں کے مشترکہ کام کی تفصیلات کیمیکل انجینیئرنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

پلاسٹک آلودگی اور جادوئی سفوف

اگر اس پاؤڈر کو خردبینی پیمانے پر دیکھا جائے تو اس کا ہرذرہ دو ابعادی (ٹوڈی) میٹل آرگینک فریم ورک (ایم ایف او) پرت پر مشتمل ہے جو گویا ڈبل روٹی کی سلائس کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن محمد حارث نے اس پرباریک نینو ستون ایستادہ کئے ہیں اور اس کے اوپر دوسری پرت گویا اس طرح رکھی ہے جیسے ایک بڑے کمرے کے فرش کے ستون چھت کو سنبھالتے ہیں۔ لیکن یہ اتنا سادہ نہیں کیونکہ ماہرین نے کثیرالمنزلہ پارکنگ کی طرح اسے ڈیزائن کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باریک ساخت کے باوجود ان کے اندر کا رقبہ خاصا وسیع ہے جہاں پانی بہتا ہے اور آلودگی پھنس کر رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پلاسٹک کے دکھائی نہ دینے والے خردبینی ذرات بھی اس میں جذب ہوجاتے ہیں۔

پلاسٹک آلودگی ہمارے در پر ایک عرصے سے دستک دے رہی ہے۔ ہم انسانوں نے ’استعمال کرو اور پھینکو‘ کی عادتِ بد اپنالی ہے جس سے کرہِ ارض کو پلاسٹک سیارے میں بدل دیا ہے۔ نظر آنے والا بڑا پلاسٹک سمندر وں میں وھیل اور کچھووں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ اب قیمتی زرعی اراضی میں پلاسٹک مل کر اسے ویران کررہے ہیں۔ لیکن پلاسٹک کا ایک پہلو وہ خردبینی ذرات ہیں جو بڑے ٹکڑوں سے جھڑتے رہتے ہیں۔ ۔

محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 48 لاکھ سے سواکروڑ ٹن مائیکروپلاسٹک سمندر میں گھل رہا ہے جو سمندری حیات کے لیے یکساں تباہ کن ہے۔ انٹارکٹیکا سے لے کر بعید ترین ریگستانوں میں بھی مائیکروپلاسٹک ملا ہے اور مچھلیوں کے گوشت سے لے کر انسانی دودھ میں یہ ذرات دریافت ہوچکے ہیں۔ تاہم اس کے جسمانی منفی اثرات پر تاحال تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔ اسی تناظر میں نینوستون والے ذرات کا پاؤڈر ایک بہت امید افزا خبربھی ہے۔  کیونکہ اگر پلاسٹک کو قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے تو اسے ازخود تلف ہونے میں سینکڑوں برس درکار ہوتے ہیں۔

’ ہم نے آلودہ پانی کے نمونوں پر جب اسے آزمایا تو صرف 60 منٹ میں اس نے مائیکروپلاسٹک کے 100 فیصد ذرات جذب کرلیے جنہیں بعد ازاں ایک مقناطیس سے الگ کرلیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان ذرات کو صاف کرکے چھ مرتبہ استعمال کیا جاسکتا ہے، ‘ محمد حارث نے ایکسپریس نیوز سے کہا۔

دوسری جانب ماہرین نے عام آلودگی کو ظاہر کرنے کےلیے میتھائلین بلیو ملایا تھا جس کی 100 فیصد مقدار پاؤڈر نے جذب کرلی جو ایک اہم سنگِ میل بھی ہے۔

’ اگر ایک لیٹر میں ایک گرام مائیکروپلاسٹک گھلا ہے تو اسے صاف کرنے کے لیے ہم تین گرام پاؤڈر استعمال کرتے ہیں،‘ سائنسدانوں نےبتایا۔ اس کی افادیت جانچنے کے لیے انہوں نے جدید مائیکرواسکوپی سمیت کئی ٹیکنالوجی استعمال کی ہیں۔

محمد حارث کے مطابق اس تحقیق کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کا کام مال خود حیاتیاتی کچرا ہی ہے ۔ آر ایم آئی ٹی کی ٹیم نے ٹیکنالوجی کے پیٹنٹ کی درخواست دیدی ہے جبکہ اگلےمرحلے میں اس کا دائرہ بڑھا کر اسے تجارتی (کمرشل) سطح پر لے جانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔