سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں سے مقابلے کی صلاحیت ہی نہیں، رپورٹ میں انکشاف

خالد محمود  پير 19 دسمبر 2022
ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے تین اور خیبرپختونخوا میں 300 واقعات رونما ہوئے، قومی اداروں کی رپورٹ (فوٹو : فائل)

ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے تین اور خیبرپختونخوا میں 300 واقعات رونما ہوئے، قومی اداروں کی رپورٹ (فوٹو : فائل)

 اسلام آباد: خیبرپختونخوا میں نو سال سے برسر اقتدار پی ٹی آئی حکومت کے زیر انتظام دہشت گردی کے خاتمے اور مقابلے کے لیے قائم محکمے سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ) میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت، افرادی قوت اور وسائل نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ انکشاف ایک اعلی سطح تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کو روکنا ممکن نہیں، قومی اداروں نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی ہنگامی بنیادوں پر تنظیم نو، وسائل کی فراہمی اور تربیت کے اقدامات کی سفارش کردی۔

قومی اداروں کی تیار کردہ اس تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک برس کے دوران صوبہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے تین واقعات ہوئے جبکہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے 300 واقعات رونما ہوئے جس میں بھاری جانی نقصان ہوا۔

یہ پڑھیں : بنوں میں سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز پر زیرحراست دہشتگردوں کا قبضہ

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا اور عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران متعدد مرتبہ قومی اداروں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی تنظیم نو کی جائے، تربیت کے اقدامات کیے جائیں، ہنگامی بنیادوں پر مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں لیکن باربار کی یقین دہانیوں کے باوجود اس ضمن میں کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔

رپورٹ میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انسداد دہشت گردی محکموں کے درمیان ایک تقابلی جائزہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے پاس 15 سے 18 ایس ایس پی رینک کے افسران موجود ہیں جبکہ دو ڈی آئی جی سطح کے افسران فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اس کے مقابلے میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ’پی ایس پی‘ رینک کے سینئر افسران کی شدید کمی ہے، جس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے صوبے میں ’ایس ایس پی‘ رینک کا صرف ایک افسر تعینات ہے جو ڈی آئی جی کے طور پر کام کررہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی پنجاب کے پاس ’ریوارڈ فنڈ‘ (زرتلافی فنڈ) میں 276 (27 کروڑ60لاکھ روپے) کی رقم موجود ہے جبکہ خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی کے پاس 25 ملین کی رقم ہے، سی ٹی ڈی شہداء پیکیج پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 150 فیصد کا فرق ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما سی ٹی ڈی کو کوئی مراعات حاصل نہیں اور شہداء پیکیج کے لیے بھی مناسب رقوم دستیاب نہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی پنجاب اور سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کی تنخواہوں میں 70 فیصد کا فرق ہے، خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کے اہل کاروں کی رہائش کا بھی کوئی بندوبست نہیں، صوبائی حکومت کی درخواست پر بعض افسران کے لیے کینٹ کے علاقے میں رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی کے برعکس صوبے کے تمام سیکریٹریوں کی رہائش کا کینٹ میں انتظام کیا گیا ہے حتی کہ صوبائی سیکریٹریٹ کے ملازمین سی ٹی ڈی کے اہل کاروں کی بہ نسبت 70 فیصد زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔

رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کے لیے کوئی ہیڈ کوارٹر ہی موجود نہیں، یہ دفترایک منزلہ کرایے کے گھر میں قائم ہے جس کا بیسمنٹ خیبرپختونخوا پولیس کے اسلحہ خانے کے لیے استعمال ہورہا ہے اور سی ٹی ڈی کا عملہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر کام کرتا ہے۔

یہ پڑھیں : شمالی وزیرستان میں فورسز کی گاڑی پر خودکش حملہ، 2 افراد جاں بحق

 رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے دفتر میں اسلحہ خانہ کی موجودگی کو خطرناک قرار دیاگیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کے لیے کوئی ٹریننگ اسکول ہی موجود نہیں، سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا تربیت کے لیے سی ٹی ڈی پنجاب کی خدمات حاصل کررہا ہے جو لاگت اور پیشہ ورانہ ضرویات کے لحاظ سے قابل عمل نہیں۔

رپورٹ کے مطابق مختلف قسم کے تربیتی کورسز پر آنے والی فیس کی ادائیگی کے لیے بھی سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کے پاس پیسے دستیاب نہیں ہوتے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے موثر مقابلے کے لیے سی ٹی ڈی کی تنظیم نو کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے، اس کے لیے ایک ہنگامی جامع پلان ترتیب دیا جائے جس میں تربیت، افرادی قوت کی کمی دور کرنے اور وسائل کی فراہمی شامل ہو تاکہ دہشت گردی کا موثر انداز میں قلع قمع ممکن ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔