کرسمس

ایاز مورس  اتوار 25 دسمبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

دُنیا بھر میں منانے جانے والے کرسمس کا پیغام محبت اور اُمید پر مبنی ہے۔

کرسمس کا نام سنتے ہی بچپن کا خوب صورت وقت اور ماحول یاد آجاتا ہے، ویسے تو بچپن کی ہر عید ہی خوب صورت ہوتی ہے لیکن کرسمس کا سماں اور جشن بڑا مختلف ہوتا ہے۔

سردی کا موسم، اسکول کی چھٹیاں، گاؤں کا ماحول ، شادیوں کی رُت، خشک میوہ جات کی آمد اور سب سے بڑھ کر نئے کپڑوں اور چیزوں کی خریداری۔۔۔ کیا دل چسپ اور یادگار دن ہوتے تھے۔ گاؤں میں بچپن کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔

پورا گاؤں کرسمس سے پہلے تیاری کرتا تھا، گلیوں اور گھروں کی صفائی، چرچ کو خوب صورتی سے سجانا، گھروں میں خصوصی سجاوٹ اور کھانوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں کرسمس سے چند دن قبل سے لے کر نئے سال تک میلے کا سماں ہوتا تھا۔ بچوں کے لیے کھلونوں کی دکانیں، جھولے اور کھانے کے خصوصی اسٹال لگائے جاتے تھے۔

اسکول میں کرسمس کے لیے ڈراموں کی تیاری اور ان کا انعقاد ہوتا تھا۔ کرسمس پارٹی کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا تھا۔ کرسمس پر پی ٹی وی سے آنے والے پروگرام اور ڈرامے کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔ یہ خوب صورت پس منظر مجھے ہمیشہ کراچی جیسے شہر میں بہت یاد آتا ہے۔

آج بھی کرسمس پر گاؤں میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے لیکن وہ بات نہیں رہی۔ کراچی میں وہ اپنائیت نہیں نظر آتی جو گاؤں میں تھی۔ سخت سردی میں انگیٹھی میں آگ جلا کر اکھٹے بیٹھنا، باتیں کرنا اور مونگ پھیلی کھانا ایک خوش گوار تجربہ ہوتا تھا۔ گھروں کی صفائی کے دوران لوگ اپنے دلوں اور رویوں کو نفرت، برائی اور حسد سے بھی صاف کردیتے تھے۔

اپنی تیاری سے زیادہ مالی طور پر کم زور اور مستحق لوگوں کی تیاری کی فکر ہوتی تھی۔ جدید دُور اور ترقی نے ہماری اخلاقی اقدار کی اس قدر دھجیاں اُڑادی ہیں کے یقین نہیں ہوتا کہ ہم نے اس قدر پستی کا سفر کتنی جلدی طے کرلیا ہے۔

ہر سال 25دسمبر کو منایا جانے والا کرسمس مسیحیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ عالمی سطح پر یہ ایک کمرشیل اور کارپوریٹ فیسٹول کا روپ دھار چکا، بلکہ یہ ایک پورا سیزن بن گیا ہے۔ پاکستان میں موجود مسیحی اس تہوار کو ’’جشن ولادت المسیح ‘‘ یا ’’بڑا دن‘‘ کہتے ہیں۔

اس تہوار کی مذہبی اور روحانی اہمیت اپنی جگہ ہے جب کہ اس کا سماجی اور ثقافتی پہلو بھی بہت شان دار ہے۔ یہ تہوار ایک خاندان کی شادمانی کا دن ہوتا ہے، جس میں خاندان اکٹھا ہوتا ہے۔ جب دیس اور پردیس میں موجود افراد سال کے بعد سارے خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کر آپس کے اختلافات اور رنجشوں کو ختم کر کے نئی شروعات کر نے کا اعادہ کرتے ہیں۔

کرسمس کی اصل چمک کو چار چاند مشہور برطانوی مصنف چارلس ڈکیز Charles Dickens نے لگائے، جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے کرسمس کو منانے کی نئی روایات قائم کیں، جس پر ادب بھی لکھا گیا، فلمیں بھی بنیں اور امراء کے گھروں پر کرسمس کا جشن منعقد ہونا شروع ہوا۔ کرسمس سے منسوب کئی روایات اور کردار ہیں جو دل چسپ پس منظر کے تحت وجود میں آئے۔ ان سب کا مقصد کرسمس کے موقع پر خوشیاں بانٹنا ہے۔

پاکستان کے مسیحیوں کی اکثریت معاشی، تعلیمی اور سماجی طور پر مستحکم نہیں ہے، لیکن وہ ابھی تک اپنی مذہبی اقدار کو بڑی عقیدت واحترام اور مذہبی لگاؤ سے نبھاتے ہیں۔ ویسے تو اس تہوار کو ہر کوئی اپنے انداز میں مناتا ہے لیکن زیادہ تر اور عام طور پر یہ خاندان کی صورت میں ہی منایا جاتا ہے۔

شہروں میں رہنے والوں کے لیے 24 دسمبر کی رات ’’چاند رات ‘‘ ہوتی ہے جہاں زیادہ تر لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔ 24 دسمبر کی رات تقریباً دس بجے سے عبادات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ رات کی عبادات میں لوگ اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، جہاں کرسمس کیک بھی کاٹا جاتا ہے۔

سانتاکلاز بچوں کو تحفے پیش کرتا ہے۔ عبادت کے دوران کرسمس کے مفہوم اور حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے خصوصی دُعا کی جاتی ہے اور کرسمس کے موقع کی مناسبت سے خصوصی گیت، جنہیں ’’کرسمس کیرل‘‘ کہا جاتا ہے، گائے جاتے ہیں۔ عبادت کے اختتام پر ایک دوسرے کو کرسمس کی برکت اور مبارک باد دی جاتی ہے۔

25دسمبر دن کا آغاز بھی صبح 8 بجے عبادات کے سلسلے کا آغاز ہوجاتا ہے جو دوپہر تک جاری رہتا ہے۔ عبادات میں سب بالخصوص بچے نئے کپڑے اور جیولری پہنتے ہیں۔ عبادات کے بعد ہی بچوں کا سب سے اہم حصہ ’’عیدی‘‘ شروع ہوتا ہے۔

خواتین گھروں میں کھانے بنانے میں معروف ہوجاتی ہیں۔ اس موقع پر پڑوسیوں اور رشتے داروں میں کرسمس کیک، مٹھائی، سویّاں اور کھیر تقسیم کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ تمام رشتے داروں کو مبارک باد دی جائے اور جن سے ناراضی ہے اُن سے بھی صلاح کرلی جائے۔

آج سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ واٹس ایپ پر ایک دوسرے کو امیج بھیج کر تسلی کر لیتے ہیں لیکن ہمیں یاد ہے کہ کرسمس پر گاؤں میں شہر میں رہنے والوں والے عزیزوں کی جانب سے کرسمس کارڈ کا آنا کتنا خوش گوار لمحہ ہوتا تھا۔

کرسمس سے قبل مستحق رشتے داروں کو راشن کو کپڑے دینا ایک بہترین عمل سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی یہ عمل مختلف لوگوں کے ذریعے ہوتا ہے لیکن دکھاوا زیادہ اور سخاوت کم ہوگئی ہے۔ محبت، انسانیت اور اجتماعی ترقی کی جگہ انفرادی خودنمائی نے لے لی ہے۔

کرسمس تو نام ہی سادگی، سخاوت اور مل بانٹنے کا ہے، اپنی نفی اور انکساری اس کی بنیادی صفت ہے۔ حضورالمسیحؑ کی عام جگہ پر پیدائش اس بات کی علامت تھی کہ خُدا انسان کی ظاہر ی شان وشوکت سے نہیں بلکہ اُس کے باطن سے پیار کرتا ہے۔

آج بہت سارے لوگ کرسمس کو ایک ایونٹ ہی سمجھتے ہیں۔ اُن کے نظر میں بڑے ہوٹلوں میں ظاہری سجاوٹ اور اپنے تعلقات قائم کرنے کے لیے کرسمس ڈنر اور پارٹی ہی اصل مقصد ہے جب کہ یہ دن ہمیں دوسرے انسانوں کے ساتھ خُدا کی دی ہوئی نعمتوں کو بانٹے کا درس دیتا ہے بلکہ ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم پست حال، پریشان اور دُکھی لوگوں کو خوداعتمادی، حوصلہ اور ہمت دیں اُنہیں زندگی میں اپنائیت اور محبت کا تجربہ کروائیں۔

کرسمس کے بابرکت موقع پر پوپ فرانسس نے اپنے پیغام میں دُنیا بھر میں امن وسلامتی کے لیے خصوصی دُعا کی اور جنگ زدہ علاقوں میں امن کی بحالی کے لیے بھی زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کرسمس پر ایسے لوگوں کو نہ بھولیں جنہیں ہماری مدد اور شفقت کی اشد ضرورت ہے۔ کرسمس کا وقت ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی محبت کا دوسروں سے عملی اظہار کریں۔

پاکستانی مسیحیوں نے پاکستان کے قیام، تعمیر، ترقی اور دفاع میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ شعبۂ تعلیم، طب، سماجی فلاح کے شعبوں اور افواج پاکستان میں بہترین کام کیا ہے۔

ایسے ہی ایک باوقار اور قابل فخر پاکستانی ڈاکٹر جیمس شیرا نے گذشتہ دنوں لندن میں پاکستانی سفارت خانے کی کرسمس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مسیحیوں نے ہمیشہ ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے کام کیا ہے اور اب بھی جب کہ کبھی ملک میں بھائی چارے، امن، مذہبی ہم آہنگی اور انسانی بہتری کی بات ہوگی، آپ ہمیشہ پاکستانی مسیحیوں کو اس سلسلے میں سب سے آگے پائیں گے، کیوںکہ ہم نے کرسمس کے حقیقی پیغام کو اپنی عملی زندگی میں اپنانا ہے۔

کرسمس کے پُرمسرت موقع پر کیتھولک بشپس کانفرنس پاکستان کے صدر آرچ بشپ ڈاکٹر جوزف ارشد نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ کرسمس امن اور محبت کا درس دیتا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ کرسمس کے موقع پر پاکستان بھر کے چرچز میں پاکستان کی ترقی، خوش حالی اور سلامتی کے لیے خصوصی دُعائیں کی گئی ہیں۔ اس وقت ہمارے ملکی حالات میں کرسمس امن، اتحاد اور صلح پر زور دیتا ہے، نااُمیدی اور مایوسی میں خُدا ہمیں اُمید اور نئی زندگی کا پیغام دیتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف دوسرے کارڈنیل منتخب ہونے والے کارڈنیل جوزف کوٹس نے اپنے کرسمس پیغام میں کہا کہ کرسمس کا پیغام بین المذاہب ہم آہنگی اور معاشرتی بھائی چارہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کرسمس ہمیں اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر باہمی اتحاد اور ترقی کے لیے متحرک کرتا ہے تاکہ دُنیا میں امن قائم ہو اور زندگی کے کلچر کو فروغ ملے۔

کیتھولک آرچ ڈایوسیس کراچی کے آرچ بشپ بینی ٹریوس نے کہا کہ کرسمس شیئرنگ اور کیئرنگ کا نام ہے۔ یہ وقت دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا موقع ہے جب ہم خُدا کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسروں کی بھلائی اور بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کرسمس ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے پس ماندہ لوگوں کی اُمید بنیں اور اُنہیں زندگی کا نیا مقصد دیں۔

کرسمس مسیحی خاندانوں کو ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ سال بھر کے تلخ تجربات، سرد تعلقات اور مدھم پڑ جانے والے رشتوں کو نئی شدت اور توانائی دے سکیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرکے نئی شروعات کرسکیں۔

ماضی کے منفی واقعات اور خدشات کو پس پردہ ڈال کر نئی اُمید اور اُمنگ کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔ اُسی طرح جس طرح خُدا نے انسان کے ماضی سے درگزر کرکے ایک نئے رشتے کا آغاز کیا اور اپنی الہٰی محبت کا عملی اظہار کیا۔ کرسمس انسان کے احساس محرومی اور پست حالی کو دُور کر تا ہے۔ کرسمس انسانیت کو صُلح، امن اور نئی اُمید کا پیغام دیتا ہے۔

یہ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان جس چیز سے محبت رکھتا ہے اُس کے لیے اُسے اپنی اُنا، نام اور مقام چھوڑ کر عاجزی اور انکساری کوا پنانا پڑتا ہے۔

ذرا غور کریں ہم کس قدر بے حس اور سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خاندانی رشتوں اور اقدار کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہمارے لیے ظاہری بناوٹ اور اشیاء کی قدر انسانی احساسات اور جذبات سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔

کرسمس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر یسوع مسیحؑ حلیمی اور فروتنی کو اپناتے ہوئے چرنی میں پیدا ہو سکتے ہیں تو ہم انسانوں کس قدر سادگی کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ کرسمس ہر سال ہمیں یہ موقع اور دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے گھروں اور گرجا گھروں کی چرنی میں نہیں بلکہ اپنے دل کی چرنی میں خُدا کی تلاش کریں، اپنے دل کی چرنی کو، نفرت، برائی، حسد، لالچ اور بے چارگی سے صاف کریں تاکہ خُدا ہمارے دلوں کی چرنی میں قیام پذیر ہو سکے اور خُدا کا نور ہمارے رویوں اور کردار سے ظاہر ہو۔

آئیں، اس کرسمس اپنے اندر ایک نئے انسان کو بیدار ہونے کا موقع دیں جو انسانیت پر یقین رکھتا ہو، جو انسانوں کی خدمت اور بھلائی کو نیکی سمجھتا ہو، جو اپنے افکار اور کردار سے انسانوں کی مدد اور اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر یقین رکھتا ہو۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم مذہب کی تعلیم پر عمل کرنا شروع کردیں تو ہماری دُنیا ایک خوب صورت دُنیا بن جائے گی، ورنہ مذہب کے نام پر لوگ دوسروں سے صرف نفرت کرتے رہیں گے۔

مجھے نہیں معلوم آپ کو کرسمس کے بارے میں کتنی اور کیسی معلومات ہیں، لیکن میرا مشورہ ہے کہ ادھر اُدھر سے سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے، کسی دوست کے ساتھ تجربہ کرلیں، اور صرف کسی کو سوشل میڈیا پر مبارکب اد دینے کے بجائے کسی ایک انسان کے کرسمس کو بڑا دن بنائیں، کسی ایک کو ایسی خوشی دیں جو اُس کے کرسمس کو اُس کی زندگی کا یادگار کرسمس بنا دے اور اُس کی وجہ آپ ہوں۔ میرے دادا کہا کرتے تھے تہوار چھوٹے ہوں یا بڑے دھوم دھام سے منانے چاہییں، ویسے بھی تہوار خوشی اور غم کی طرح سانجھے ہوتے ہیں۔ آپ سب کو کرسمس مبارک ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔