ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمبلی تحلیل کے حوالے سے پی ٹی آئی نے نئی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت صوبائی اسمبلی کو چار سے چھ دن تاخیز سے تحلیل کیا جائے گا اور 18 سے 20 جنوری کے درمیان گورنر کو خط ارسال کیا جائے گا۔
پارلیمانی پارٹی اجلاس میں تمام تر صورت حال کاجائزہ لیتے ہوئے اسمبلی تحلیل کے لیے گورنر کوایڈوائس بھجوانے کاحتمی فیصلہ کیاجائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی سطح پر کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے اسمبلی تحلیل کا فیصلہ آئندہ چند روز کیلیے ملتوی کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے مسائل توپیدا نہ کیے گئے توکے پی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ محمود خان نے کے پی اسمبلی تحلیل کے لیے سمری ہفتہ 14 جنوری کوگورنرکواسال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ بطور وزیر اعلیٰ آج آخری خطاب کررہا ہوں۔ اپنے خطاب میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے کہا کہ پوری کابینہ اور اراکین گورننگ باڈی کو مبارک باد دیتا ہوں، ہارجیت الیکشن کا حصہ ہوتا ہے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے، آج آخری بار وزیر اعلی کے طور پر خطاب کر رہا ہوں، آج ہم کے پی اسمبلی کو تحلیل کردیں گے، آئندہ ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر پورے ملک میں دو تہائی اکثریت لیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ پشاور سربند دہشت گردی کا واقعہ قابل مذمت ہے، پولیس نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ مسخرہ ہے، یہ خود ماڈل ٹاؤن کا قاتل ہے، کے پی ہاتھ سے نکلا تو یہ پنجاب اور سندھ میں بھی نہیں رہ پائیں گے، مرکز نے غیر آئینی طور پر ضم اضلاع کے بارے میں اعلامیہ جاری کیا، گورنر تو کٹھ پتلی ہے، بجٹ ہم نے پاس کیا تو وہاں کے ارکان کو فنڈز گورنر کیسے دے سکتا ہے؟
محمود خان نے کہا تھا کہ یہ جنیوا میں بھیک مانگتے ہیں اسی لیے لوگ ان پر اعتماد نہیں کرتے، ہم یہ اعلامیہ عدالت میں چیلنج کریں گے، انہوں نے عجیب حالات پیدا کیے ہیں، یہ ضم اضلاع کے لیے پورے فنڈز دیں نہ کہ مداخلت کریں یا پھر آئینی ترمیم کرتے ہوئے واپس لے لیں۔ افغانستان جانے والے آٹے کے ٹرک ورلڈ فوڈ پروگرام کے ہیں، پیٹ پر اینٹیں باندھنے والا مسخرہ اب کہاں غائب ہوگیا ہے؟ مہنگائی کو کٹرول کرنا مرکز کا کام ہے، کیونکہ ڈالر مہنگا ہونے سے سب مہنگا ہوجاتا ہے، ہم نے فلور ملوں کے لیے کوٹا بڑھایا تاکہ عوام کو آٹا ملے، مرکز ہمیں 200 ارب روپے دے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف فوڈ کارڈ پر پیسہ نہ ہونے سے عمل درآمد نہیں ہوسکا، گندم پر ہم 35 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں، مرکز پاک ڈبلیو پی کے ذریعے ایم این ایز کو فنڈزدے رہے ہیں، اگر ان میں صلاحیت نہیں تھی تو کیوں حکومت لی؟ یہ لوگ اپنے کیس ختم کرنے آئے تھے اور اب سب کیس ختم ہوگئے ہیں۔
محمود خان نے مزید کہا تھا کہ جب خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری بھیجوں گا تو سب کو بتاؤں گا، عمران خان مزید مشاورت نہیں کریں گے، میں ان کا ادنی ورکر ہوں جب اشارہ ہوگا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیج دوں گا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔