تربیتِ اولاد; رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا:

رانا اعجاز حسین چوہان  جمعـء 20 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اولاد کو ﷲ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشو و نما، دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔

اسی لیے فلاح انسانیت کے مذہب اسلام میں جہاں والدین کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور اولاد کو والدین کی فرماں برداری کی ترغیب دی گئی ہے، وہیں والدین کو اولاد کی بہترین تربیت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ماں باپ دونوں کو اولاد سے خواہ وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، بلا تفریق محبت کرتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرنے چاہییں۔

بلکہ ہر معاملے کی طرح اولاد کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں بھی قرآن مجید فرقان حمید کی روشن تعلیمات اور احادیث نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم سے راہ نمائی حاصل کرنا چاہیے ۔ اولاد کی تربیت کے بارے میں حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ و سلم کا مفہوم ہے:

’’کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔‘‘ (سنن الترمزی)

حضرت لقمان نے جو وصیت اپنے بیٹے کو کی تھی ﷲ جل شانہ اسے قرآن کریم میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، مفہوم:

’’اے بیٹے! اﷲ کا شریک نہ ٹھہرانا ، بے شک! شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘

حضرت لقمان نے آگے فرمایا، مفہوم: ’’اے میرے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تب بھی اسے معمولی نہ سمجھنا کہ وہ عمل) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا پھر زمین کے اندر (زمین کی تہہ میں چُھپا ہوا ہو) ﷲ تبارک و تعالیٰ اسے ظاہر فرمائیں گے، بے شک! ﷲ تعالیٰ بڑا باریک بین و باخبر ہے۔

اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو، اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو، اور بُرے کاموں سے منع کیا کرو، اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو، بے شک! یہ (صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ، اور زمین پر تکبّر سے مت چلو، بے شک! ﷲ تعالیٰ کسی متکبّر کو پسند نہیں فرماتے، اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اپنی آواز کو پست رکھو، بے شک! سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان)

اس آیت مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت حکیم لقمان کی دانائی و حکمت والی نصیحتیں جو انہوں نے اپنے فرزند سے کیں انہیں بیان فرما کر چند باتوں کی طرف راہ نمائی فرمائی ہے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا، بلکہ اے میرے بیٹے! کہہ کر پکارا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام لینے سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہوتا، جو ’’اے میرے بیٹے!‘‘ کہنے سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

جس طرح ماں لاشعوری عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرا لعل، میرا چاند، میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القابات سے پکارتی ہے اسی طرح جب بچہ شعوری عمر کو پہنچ جائے تو والدین اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں تو ماں باپ کی بات بچے کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوگی۔

سب سے پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی، وہ توحید باری تعالیٰ سے متعلق تھی کہ ’’میرے بیٹے! ﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔‘‘ اس سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کو سب سے پہلے دینی عقائد و افکار کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بڑا ہوکر وہ ایک اچھا مسلمان بنے، کیوں کہ اس کے عقائد جب صحیح ہوں گے تو اعمال بھی ان شاء ﷲ صحیح ہوں گے، اور اگر عقائد قرآن وسنت سے متصادم ہوئے تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ راست اعمال کرے گا۔

بچوں کا ذہن صاف و شفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط و پائیدار ہوتی ہے، اس لیے سب سے پہلے بچے کو دینی و اخلاقی تعلیم دی جائے۔ قرآن وسنت کی تعلیم دینی امور کے ماہر اساتذہ سے دلوائی جائے۔

آگے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’میرے بیٹے! عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو روزِ محشر ﷲ تعالیٰ اسے تمہارے سامنے لے آئیں گے۔‘‘ یعنی کوئی عمل خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، اسے معمولی مت سمجھنا کہ روزِ محشر تمہیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر عمل صالح ہے تو وہ تمہارے لیے روزِ محشر مفید ثابت ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ جسے تم معمولی سمجھو روزِ محشر وہی تمہاری شفاعت کا سبب بن جائے اور اگر وہ عمل بُرے ہیں، تو تم بہ روزِ محشر اسے چھپا نہ پاؤ گے، ﷲ تعالیٰ اس عمل کو جسے تم معمولی سمجھ رہے ہوگے تمہارے سامنے ظاہر کردیں گے اور وہاں انکار کی گنجائش نہیں ہوگی۔ حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں: ’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو، اور اچھے کاموں کی تلقین کیا کرو اور بُرے کاموں سے منع کیا کرو۔‘‘

حضرت لقمان کے اس فرمان میں تین امر ہیں: پہلا یہ کہ نماز قائم کرو۔ نماز ہر شریعت میں رہی ہے۔

اس کی کیفیت و ہیت میں تبدیلی واقع ہوتی رہی، پھر نماز کے ذریعے ﷲ کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ کی مدد چاہو، نماز اور صبر کے ذریعہ سے۔‘‘ اسی طرح نماز جسم و روح کے لیے باعث سکون و راحت ہے، اور ایک مسلمان نماز کو صرف ﷲ کا حکم سمجھ کر پڑھے تو اس سے مالک حقیقی راضی ہوگا اور جب مالک راضی ہوتا ہے تو بندے پر انعامات کی بارش کرتا ہے۔

دوسرے یہ کہ اچھے کاموں کا حکم کرو۔ ایک شخص دوسرے کو جب اچھائی کا حکم دے گا تو لامحالہ امر ہے کہ اول وہ خود بھی اچھے کام کرے گا۔ اور تیسرا یہ کہ برائی سے منع کرنا۔ بلاشبہ! بُرائی سے منع کرنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب بندہ خود بُرائی سے باز رہے۔

اگر کوئی شخص خود بُرے کام کرے اور دوسروں کو کہے یہ نہ کرو تو اس کا کتنے اثر ہوگا یہ ہر عام و خاص جانتا ہے۔ اور جب ایک شخص اچھے کام کرتا ہے اور اچھائی کا حکم دیتا ہے اور بُرے کاموں سے باز رہتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے تو لامحالہ بہت سے لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔

وہ اسے جانیں نقصان نہ بھی پہنچائیں ذہنی اذیت ضرور دیتے رہتے ہیں، جس پر اسے صبر کرنا ہے اور یہ لمحات بڑے ہمت کے ہوتے ہیں کہ بے وجہ تنقید برداشت کی جائے ، بے وجہ کے طعنے سنے جائیں، اس پر طنز و استہزاء کے تیر برسائیں جائیں اور ان سب کے جواب میں وہ خاموش رہے اس کے لیے بڑی ہمت و بڑا حوصلہ چاہیے اور یہی بات حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی کہ صبر کرنا اور صبر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے۔

اور جن لوگوں سے مزاج نہیں ملتے، ان سے بھی بے رخی سے بات مت کرو، حضرت لقمان نے اپنے لختِ جگر کو اس سے منع فرمایا اور مزید فرمایا کہ متکبّر مت بنے، یعنی بے رخی کا معاملہ تکبّر کے زینے کی پہلی سیڑھی ہے، اس سے بچنا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ بھی متکبّرین کو پسند نہیں فرماتے اس لیے تکبّر سے بچنا۔

اس کے ساتھ ہی حضرت لقمان نے فرمایا کہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، یعنی زمین پر اکڑ کر چلنا بھی تکبّر ہے۔ زمین پر اکڑ کر مت چلو، اعتدال ہر شے میں لائق تعریف و مدح ہوتا ہے اور افراط و تفریط لائق مذمت، اس لیے ان دونوں امور سے بچ بچا کر ایام ہائے حیات بسر کرو۔ آخری بات حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو یہ سکھائی کہ اے میرے بیٹے! اپنی آواز کو پست رکھو۔

یہاں بھی وہی درج بالا امر ہے یعنی عدل و اعتدال۔ یعنی آواز نہ اتنی پست ہو کہ دوسرا سن ہی نہ سکے اور نہ ہی اتنا زور سے بولے کہ دوسروں کی آواز تم نہ سن سکو۔ یاد رکھو کہ گدھا زور سے بولتا ہے، جس کی آواز ساری آوازوں میںسب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔

حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی گئی یہ نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ان کی ذہنی استعداد کا انداز لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفت گُو کریں، ان کے مسائل اور پریشانیوں کو سنیں اور حل کریں، کیوں کہ ڈانٹ ڈپٹ کے دور گزر چکے۔ حضرت انس رضی ﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ دس برس رہے۔

آپ رضی ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان دس برسوں میں کبھی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ ایک واقعہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا۔ میں بچوں کے ساتھ کھیل کھود میں لگ گیا۔

اس کے باوجود بھی نبی کریم محمد صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ فرمان نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم کا مفہوم ہے: ’’اپنی اولاد کے ساتھ نرمی برتو، اور ان کی بہتر تربیت کرو۔‘‘ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اولاد کی بہتر تربیت کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اولاد کی تربیت اگر شعائر اسلام اور طرزِ نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر کی گئی تو ان شاء ﷲ اولاد کی دنیا و آخرت بھی سنوارے گی اور اولاد مطیع فرماں بردار اور خدمت کرنے والی بھی ہوگی۔

والدین کی طرف سے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔