سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’مٹھو میاں‘ کو ہماری ’قید‘ راس آگئی تھی!

کیسے کوئی بے زبان جانور یا پرندہ بھی ہمارے گھر ہی کا حصہ بن جاتا ہے، اس کا احساس تب ہوتا ہے، جب ہم جی وجان سے کسی ایسی ’جان‘ سے تعلق پیدا کریں اور اسے نبھائیں۔۔۔ اب بچپن میں نت نئے پرندوں اور پالتو جانوروں کا شوق کس بچے کو نہیں ہوتا۔۔۔ سو ہمیں بھی تھا اور بہت کم سنی میں ہی ایک سرخ چونچ والا سبز توتا ہمارے گھر کا مکین ہوگیا تھا۔۔۔ لیکن ہمارا اس کا ساتھ ایسا ہوگا۔

یہ ظاہر ہے کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔۔۔ خواہش ہماری بھی یہی تھی کہ وہ ’بولنا‘ سیکھے، لیکن چوں کہ جب وہ آیا، تو ’بولنا‘ سیکھنے کی عمر سے نکل چکا تھا، اس لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔۔۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ اپنی کچھ مخصوص بولی میں غیر روایتی اور منفرد سی آوازیں نکالنا ضرور سیکھ چکا تھا۔۔۔

جیسے جب ہم اسے ’مٹھو بیٹے‘ پکارتے تو وہ اپنے دونوں ’بازو‘ قدرے کھول کے خوشی سے گردن اُچکاتا، اور آنکھ کے نارنجی دائرے میں اس کی دونوں پتلیاں آنکھوں کی سفیدی میں سکڑ کر نقطے جیسی ٹمٹمانے سی لگتیں اور پھر وہ دھیمی دھیمی سی ایک مخصوص آواز میں اس کا جواب دیتا تھا۔۔۔ ابتداً اس کے پر قدرے گہرے سے رنگ کے تھے، لیکن پھر اس کا بہت اجلا اجلا سا سبز رنگ نکھر آیا تھا اور اس نکھار کے ساتھ اس کی گردن پر سرخ رنگ کی ’کنٹھی‘ بھی ابھر آئی تھی، جو چونچ کے نیچے سے دونوں جانب پھیلنے والی گہری کالی لکیر کے ساتھ مل کر سر کے پیچھے مکمل سرخ ہو جاتی تھی اور اس کے اوپر سر کی طرف ہلکاہلکا سا آسمانی رنگ اُس کی خوب صورتی کو دوچند کر دیتا تھا۔۔۔

اسی زمانے میں اسکول کی کتاب میں شامل نظم ’’آؤ بچو سنو کہانی‘‘ کے یہ مصرع ہمیں خوب بھاتے تھے ’’نوکر لے کر حلوہ آیا… توتے کا بھی دل للچایا… راجا بین بجاتا جائے… نوکر شور مچاتا جائے… توتا حلوہ کھاتا جائے۔۔۔!‘‘ گھر میں جب کبھی حلوہ بنتا، ہم مٹھو کو حلوہ ڈالتے ہوئے اکثر یہ بول پڑھتے۔۔۔ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ مٹھو میاں اپنا ذکر سن کر ضرور خوش ہو رہے ہیں۔۔۔ یوں وہ صبح سے لے کر رات تک ہمارے ہر کھانے پینے میں ہمارے ’’ساتھ ساتھ‘‘ رہتے تھے۔۔۔

کہنے کو یہ ’مٹھو‘ فقط ہمارے بچپن کا ایک شوق تھا، لیکن غور کیجیے، تو اس کا کردار کتنا اہم تھا کہ اکثر اس کا ’کھانا‘ ہمارے دستر خوان سمیٹنے کے بعد اٹھائے جانے والے اناج کے دانے اور وہ ’بھورے‘ اور سالن وغیرہ ہوتا تھا، جو کھانے کے بعد دسترخوان پر سے سمیٹا جاتا تھا۔

یہ سب ایک روٹی کے نوالے کے ساتھ جمع کر کے پنجرے میں اس کی کٹوری میں ڈال دیتے تھے اور وہ ہمارے دسترخوان کے ہر طرح کے سالن خوب مزے لے کر کھاتا تھا۔۔۔ اس کی یہ عادت ہوگئی تھی کہ اسے روٹی کا ٹکڑا وغیرہ ڈالو، تو وہ چونچ سے اٹھا کر اسے دوسری پانی والی کٹوری میں ڈبو دیتا اور پھر اسے نرم کر کے اپنے سیدھے پنجے میں پکڑ کر کتر کتر کر نوش کرتا۔۔۔ اگرچہ ہم اسے من پسند ہری مرچ بھی کھانے کو دیتے تھے، لیکن زیادہ تر وہ ہمارے دسترخوان سمیٹنے میں ’مددگار‘ ہوتا۔۔۔ اور بزرگوں کے بقول اس طرح رزق کی بے حرمتی ہونے سے بچ جاتی۔۔۔!

ان ’صاحب‘ کا پنجرہ ہمارے پرانے گھر کی انگنائی میں ڈیوڑھی کے بالکل ساتھ الگنی کی دیوار میں گڑے ہوئے ایک لکڑی کے کھونٹے کے ساتھ ٹنگا ہوا ہوتا تھا، جہاں سے وہ گھر میں ہر آنے جانے والے پر ’نظر‘ بھی رکھا کرتے تھے، بلکہ اکثر کسی نئے مہمان یا رات کو آنے والے مہمان پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک مخصوص ’پکار‘ کے ساتھ کیا کرتے، بعضے وقت ایسا ہوتا کہ دائیں سمت کی ڈیوڑھی سے نیا آنے والا مہمان جب بے دھیانی میں آنگنائی کی طرف کو مڑتا، تو ان کے پنجرے سے ٹکرا جاتا، سارا پنجرہ ٹیڑھا سیدھا ہوتا تو اس پر تو وہ اور سخت آواز میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے۔۔۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چھٹیوں کی دوپہر کو جب ہم سب آرام کر رہے ہوتے تھے، تو یہ بھی پنجرے کی مرکزی سلاخ پر ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے، کبھی ایک پاؤں اندر کر لیتے اور اپنے سارے پَر نسبتاً بھربھرے سے کرلیتے۔۔۔ اور پھر نیم وا آنکھوں کے ساتھ دھیمے دھیمے نہ جانے کون سی بولی بڑبڑاتے۔۔۔ یہ ان کی ایک اور مخصوص قسم کی آواز ہوتی تھی۔

جو وہ کبھی سہ پہر کو گھر میں سناٹا دیکھ کر تنہائی کے عالم میں بولا کرتے تھے۔۔۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ شام کے وقت وہ اکثر اپنی چونچ ترچھی کر کے آسمان کی جانب اڑتے ہوئے پنچھیوں کی جانب بھی بہ غور دیکھتے، اور اپنے بند چھوٹے سے پنجرے میں ادھر ادھر دوڑ لگاتے، گویا باہر نکلنے کو بے قرار ہو رہے ہوں۔

بس ایسی ہی کچھ بات رہی ہوگی، جس کے باعث ایک دن ہمارے بڑوں نے ہمیں راضی کر لیا کہ اب ’مٹھو میاں‘ کو اڑا دیا جانا چاہیے۔۔۔ کیوں کہ پرندے آزاد فضا میں ہی اچھے لگتے ہیں، یہ بھی اپنے گھر والوں میں جا کر بہت خوش ہوں گے۔۔۔!

سو، ہم نے دل پر بہت جبر کر کے ایک چُھٹی والے روز اس کا باقاعدہ اہتمام کیا۔۔۔ گھر کی انگنائی کے درمیان ان کا پنجرہ رکھ کر اس کا دروازہ کھول دیا گیا۔۔۔ اور ہم خود انگنائی سے متصل کمرے میں جا کر لگے انتظار کرنے۔۔۔ دل میں عجیب سا احساس تھا کہ جسے ہم خوشی تو نہیں کہہ سکتے، البتہ ہلکا سا درد ضرور کہا جا سکتا ہے، کہ کئی برس کے ساتھی کو ہمیشہ کے لیے خود سے جدا جو کر رہے تھے۔۔۔ ہم سب اندر بیٹھے دیکھ رہے تھے، لیکن جناب بہت دیر گزر گئی، لیکن مٹھو میاں نے کھلے ہوئے پنجرے کی طرف کسی قسم کی دل چسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا؎

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!

بہت دیر انتظار کے بعد بالآخر پنجرہ بند کر کے دوبارہ اپنی جگہ پر ٹانگ دیا گیا اور اس روز ہم پر یہ اچھی طرح آشکار ہوگیا کہ وجہ جو بھی ہو اب ’مٹھو میاں‘ ہمارے ساتھ ہی رہنے میں مطمئن ہیں۔۔۔ تبھی ہمیں یاد آیا کہ شروع میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا تھا کہ ایک دوپہر کو صفائی کرتے ہوئے ہماری امی سے پنجرے کا دروازہ کھل گیا، تو مٹھو میاں پُھدک کر باہر نکل آئے تھے، لیکن آنگنائی سے باہر جانے کے بہ جائے یہ سیدھے ہمارے گھر کے اندر کی طرف اڑے تھے، ورنہ پرانا گھر تو اتنا کھلا ہوا تھا کہ وہاں سے انھیں اڑ جانے میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی، کیا خبر یہ اَمر انھوں نے جان بوجھ کر کیا ہو، تاکہ انھیں پکڑ کر دوبارہ پنجرے میں ڈال دیا جائے، اور پھر بہ آسانی ایسا ہی کر دیا گیا تھا۔

ہمارے ’مٹھو میاں‘ کو ایک عادت کاٹنے کی بھی پڑ گئی تھی، اور یہ ’کاٹنا‘ کیا تھا، بس پنجرے کے پاس ہاتھ لائیے، تو وہ برا مان کر چونچ کھول کر لپکتے اور جیسے ایک ٹھونگ سی مارنے کو ہوتے ہوں، تاہم کچھ عرصے بعد یہ بھی آشکار ہوگیا کہ کم از کم ہمارے لیے ان کا یہ ’کاٹنا‘ صرف دکھاوا تھا، کیوں کہ ہم پنجرے میں ہاتھ ڈال کر بھی ان کی کسی بھی گزند سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ ہمارے لیے بس یہ تھا کہ وہ ہمارے ہاتھ پر خفیف سی چونچ کھولتے اور بس۔۔۔ یہ شاید ان کی انسیت کا کوئی اظہار ہو، کیوں کہ ہمارا پورا بچپن انھی کے سامنے گزرا تھا۔۔۔ البتہ نہ کاٹنے کی یہ ’رعایت‘ گھر کے کسی اور فرد کے لیے بالکل بھی نہیں تھی۔

جب ہم اسکول کی ذرا بڑی کلاسوں میں آئے، تو اپنے ایک ہم جماعت کے کہنے پر ان کے پَر کٹوانے کے لیے انھیں ان کے گھر لے گئے۔۔۔ ان صاحب نے ہمیں بڑا یقین دلایا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاں بھی توتے کے پِر کاٹے ہوئے ہیں، اور وہ آرام سے پنجرے سے باہر گھر میں گھومتا گھامتا رہتا ہے۔ تو ہم بھی اسی شوق میں آگئے، لیکن مٹھو میاں کو پنجرے سے نکال کر اور سختی سے پکڑ کر ان کے پر کاٹنا بہت ہی زیادہ ناگوار گزرا تھا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے اتنے عرصے میں آج تک ایسا نہیں کیا تھا۔

بہرحال پَر کٹوانے کے بعد کچھ دن تو ہم یہ کرتے کہ انھیں کچھ دیر کو پکڑ کر پنجرے سے باہر نکال لیتے تھے، شاید ایک بار اور اسی طرح پر کٹوائے، لیکن پھر مٹھو میاں کو ناخوش دیکھ کر یہ امر مناسب خیال نہیں کیا، کیوں کہ انھیں چھوا جانا اور پھر سختی سے دبوچنا بہت زیادہ برا لگتا تھا۔۔۔ ہمیں بس اتنا حق حاصل تھا کہ ان کی چونچ پر ہاتھ لگا لیا یا کھی سر کے اوپر۔ اس کے علاوہ بازوؤں کو چھونے سے بھی وہ برہم ہو جاتے۔۔۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔ ہم بھی اسکول سے بڑھ کر اب کالج میں آچکے تھے۔۔۔ بس پھر ہمارے ’مٹھو میاں‘ بھی دھیرے دھیرے کمزور ہوتے چلے گئے اور پھر یہ ہوا کہ ایک دن صبح کو وہ اپنے پنجرے میں مردہ پائے گئے۔۔۔!

یوں ہمارے بچپن کا ایک اہم باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔۔۔ دل میں درد کی ایک گہری لہر اٹھ کر رہ گئی، کہنے کو انگنائی کے ایک کونے میں رکھا ہوا پنجرہ ہی خالی ہوا، لیکن اصل میں ہمارے گھر کا آنگن ہی سُونا ہوگیا، ان کی چہچہاٹ کے بغیر اترنے والی شاموں میں ایک غیر محسوس سا ’سناٹا‘ ٹھیر گیا۔۔۔ آج جب بھی ہم کسی کنٹھی والے سبز توتے کو دیکھتے ہیں، ہمیں فوراً اپنے ’مٹھو میاں‘ کی یاد آ جاتی ہے، واقعی وہ ہمارے بچپنے کے ایک ایسے خاموش ساتھی تھے، جو گئے تو اپنے ساتھ گویا سارا بچپن اور بے فکری بھی لے گئے۔

۔۔۔

دس کا بھیس
خالد محمود ناصر
’’اے بھائی، کتنے عرصے سے میں تم ہی سے سبزی خرید رہی ہوں؟‘‘
’’کیوں باجی، کیا ہوا؟‘‘

’’یہ تم دس روپے کی ہری مرچیں دے رہے ہو یا احسان کررہے ہو؟ تین سوکھی سڑی مرچیں ڈال کر حساب پورا کر دیا۔ کہاں دس روپے میں تو کلو آلو آجاتے تھے۔ اب تم لوگوں کی جان جاتی ہے کہ چلو پرانی گاہک سمجھ کر دس روپے کی سبزی بطور ِ اخلاق ہی دے دو۔‘‘
’’باجی کیا کریں… اب تو دس روپے کی گھر میں بھی نہیں پڑتی۔ آپ دس روپے بعد میں آتے جاتے ہوئے دے دینا۔‘‘

’’واہ کیا لحاظ ہے بھئی! تم یہ ساری سبزی واپس رکھ لو، مجھے نہیں چاہیے۔‘‘
’’باجی ناراض نہ ہوں۔ یہ لیں دس روپے کی مرچیں میری طرف سے۔ کیا کریں، مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔ دس کی بھی بس ہوگئی ہے۔‘‘

……………

’’امی اسکول سے دیر ہورہی ہے۔ جلدی کریں۔ ابو نے باہر رکشا اسٹارٹ کر لیا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں بھئی۔ یہ لو بیگ… اور یہ پکڑو دس روپے۔ کینٹین سے کچھ لے کر کھالینا۔ آج لنچ میں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’امی میں بڑی ہوگئی ہوں۔ اب تو یہ نوٹ بھی بڑا کر دیں۔ دس روپے میں دو تین بسکٹ ہی ملتے ہیں مشکل سے… سارے وقت بھوک لگتی رہتی ہے…‘‘

’’میری جان، آج کل تمہارے ابو کو رکشے کی سواریاں زیادہ نہیں مل رہی ہیں، مہنگائی ہوگئی ہے۔ اچھا بسم اللہ پڑھ کر بسکٹ کھانا۔ پیٹ بھرجائے گا…‘‘

……………

’’یار تیز چلتے چلتے سانس تو پھول گیا، مگر شکر ہے مسجد میں جماعت سے نماز مل گئی۔‘‘
’’ہاں۔ الحمدللہ۔‘‘

’’میں نے تو جلدی میں جوتے چندے کے ڈبے کے پاس ہی رکھ دیے تھے، اب مل جائیں… ہاں یہ رہے…‘‘

’’اچھا سنو، دس روپے کھلے ہیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘

’’یار اس چندے کے ڈبے میں ڈالنے ہیں۔‘‘
’’شرم کرو! ابھی چار سو روپے بریانی اور کولڈ ڈرنک میں خرچ کیے ہیں۔ مسجد کے لیے صرف دس روپے؟ کیا کریں گے مسجد والے اس دس روپے سے تمھارے؟‘‘

’’او بھائی، اللہ کے ہاں نیت کا اجر ہے، نوٹ کا نہیں۔ دس روپے دیتے ہو یا پھر چلیں؟ نیت کا ثواب تو مل ہی گیا ہے!‘‘
……………

’’ہاں لڑکا، دو چائے کا کتنا ہوا؟‘‘
’’چالیس روپے کا ایک اور دو کا اسّی‘‘
’’ابے کیا ہوگیا، دس روپے کی چائے کو چالیس کا بتا رہا ہے؟‘‘
’’صاب، دس روپے کا چائے آپ کا چڈی پہننے کی عمر میں ہوگا! اب تودس روپے کا نسوار بھی منہ میں رکھنے کو نہیں ملتا۔ ابھی کل ہی موچی لالہ سے نسوار خریدنے کو گیا، دس روپے دیا تو لیڈیز سینڈل اٹھا کر، اس کا گندا والا سائیڈ دکھا کر بولتا ہے کہ دس روپے میں یہ کھائے گا؟‘‘
……………
’’ٹک، ٹک، ٹک…، بھوک لگی ہے صاحب، کچھ کھانے کو دلادو!‘‘
’’کیا مصیبت ہے یار۔ گاڑی میں بیٹھ کر تو کچھ کھا پی ہی نہیں سکتے۔ جب دیکھو کوئی مانگنے والا شیشہ بجا کر ہاتھ پھیلائے، منہ ٹیڑھا کیے کھڑا ہے۔ یہ پانچ کا سکّہ پڑا ہوا ہے۔ دو اور بھگائو!‘‘
’’یہ لو اور اب نہ خود آنا نہ اور کسی کو مانگنے بھیجنا۔‘‘
’’ٹک، ٹک، ٹک…‘‘
’’بڑا ڈھیٹ ہے بھئی… اب کیا چاہیے تجھے؟‘‘
’’صاحب آپ کی مہربانی ہوگی، پانچ روپے اور دے دو۔‘‘
’’سالا پٹے گا! بھاگ یہاں سے!‘‘
’’صاحب اللہ آپ کو بہت دے گا۔ پانچ روپے اور دے دو، دس روپے ہو جائیں گے میرے پاس۔ وہ سامنے فٹ پاتھ پر چھوٹی بہن بیٹھی ہے۔ دس روپے اس کے پاس ہیں۔ بیس روپے میں ایک روٹی آجائے گی۔ ہم دونوں آدھی آدھی کھالیں گے۔ صاحب اللہ آپ کو بہت دے گا…‘‘

۔۔۔

ایک اور انکار
محمد عثمان جامعی
ڈھلتی شام۔
جاتی آوازوں کے پیچھے بند ہوتا دروازہ۔
میز پر دھری پیالیوں کے پیندوں سے لگی ٹھنڈی چائے۔
پلیٹوں میں بسکٹوں اور چپس کا چُورا۔
ادھ کھائے سموسے۔
بیسن کے اوپر لگے آئینے میں۔۔۔
پینتیسویں سال کا کشش سے محروم بُجھا چہرہ۔
میک اپ دھوتے پانی میں بہتے آنسو۔

۔۔۔

مذہب
کرن صدیقی، کراچی
نہ جانے اس کا اصل نام کیا تھا، لیکن سب اسے لالو کہتے تھے۔ وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ بس اتنا علم تھا کہ وہ کوڑا چُنتا ہے اور انھی گلیوں میں کسی کونے کُھدرے میں کہیں پڑا رہتا ہے۔
’’اے لالو! آج مسجد میں بڑے پِیر صاب کے نام کا لنگر ہے چلے گا؟‘‘
سمیع نے آواز لگا ۔
’’ہاں چلوں گا!‘‘
رات کو دونوں نے خوب مزے لے کے لنگر کی بِریانی کھا ۔
کچھ دن گزرے کرسمس آیا، بڑی سڑک کے پاس بڑا سا گرجا گھر تھا۔ لالو بھی ایک دوست کے ساتھ کرسمس پارٹی میں گھس گیا، نہ صرف پیٹ بھر کے کھایا، بلکہ سب کی نظر بچا کر اپنے پرانے سے میلے کوٹ کی جیبوں میں بھی کھانے پینے کی چیزیں بھر لیں۔
لالو جہاں رہتا تھا وہاں سے کچھ دور ہندوئوں کی آبادی تھی۔ ایک دن وہاں بڑے سادھو جی آئے ۔ مندر میں بھنڈارا تھا۔ لالو بھی خاموشی سے بھجن میں بیٹھا تھا پھر بعد میں اُس نے بھی چنے کے چاول خوب پیٹ بھر کھا ۔ کرشن نے پوچھ لیا۔
’’اے لالو! تو مسجد چرچ ہر جگہ کی نذر نیاز میں جاتا ہے۔ اب تو یہاں مندر کا پرساد بھی کھا رہا ہے۔ تیرا مذہب کیا ہے؟‘‘
’’میرا مذہب۔۔۔ میرا مذہب تو بھوک ہے!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔