ٹیم کے معاملات کو زیادہ نہ چھیڑیں

سلیم خالق  بدھ 25 جنوری 2023
قابل بھروسہ سے زیادہ قابل افراد کو ملازمتیں دیں آپ کو کام بھی تو لینا ہے،اسی صورت کامیابی ملے گی (فوٹو: ٹوئٹر)

قابل بھروسہ سے زیادہ قابل افراد کو ملازمتیں دیں آپ کو کام بھی تو لینا ہے،اسی صورت کامیابی ملے گی (فوٹو: ٹوئٹر)

’’ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن خود ہیں، ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں‘‘ وسیم اکرم نے یہ تاریخی الفاظ دبئی میں کہے جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

میں چند روز کیلیے یواے ای اور سعودی عرب گیا تھا، دبئی میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے کچھ میچز دیکھے، وسیم بھائی وہاں کمنٹری کیلیے آئے ہوئے تھے،جب کبھی وہ فارغ ہوتے تو ساتھ آ کر بیٹھ جاتے، مجھے وہاں ان سے کئی آف دی ریکارڈز باتیں جاننے کا بھی موقع ملا، ان کا انٹرویو بھی کیا جو آپ ’’کرکٹ پاکستان‘‘ ویب سائٹ پر دیکھ چکے ہوں گے۔

وہ بابر اعظم کے خلاف ہونے والی باتوں سے سخت ناخوش تھے جس پر انھوں نے یہ ’’دشمن‘‘ والی بات کہی، ویسے واقعی ایسا ہی تو ہے، بابر اعظم جیسا کھلاڑی کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا لیکن ہم اسے مسلسل دباؤ کا شکار کر رہے ہیں۔

گوکہ بابر کے لاکھوں پرستار بھی موجود ہیں البتہ بعض لوگوں کو ان کی کامیابیاں ہضم نہیں ہوتیں، وہ انھیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں، بیٹنگ میں ایسا نہ ہوا تو کپتانی پر سوال اٹھنے لگے، یقینا بابر نمبر ون کپتان نہیں مگر ہمارے پاس آپشنز کتنے موجود ہیں؟ نیوزی لینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز سے قبل پی سی بی نے شان مسعود کو نائب کپتان بنا کر بابر اور ان کے دوستوں کو پیغام دیا کہ آگے کا وقت ان کیلیے اتنا اچھا نہیں ہوگا۔

کھلاڑی بدنام ہیں کہ دوستی یاری نبھاتے ہیں مگر بورڈ حکام بھی پیچھے نہیں ہیں، شان اچھے کھلاڑی ہیں مگر انھیں نائب کپتان بنانے کی وجہ ’’دوستی‘‘ ہی تو تھی، ایک ایسا پلیئر جو ٹیم میں ہی فٹ نہ ہوتا ہو اسے اہم ذمہ داری سونپ کر پی سی بی نے خود ٹیم کے حالات کشیدہ کر دیے،نہ صرف بابر اور سینئر کرکٹرز بلکہ اس وقت کے چیف سلیکٹر شاہد آفریدی نے بھی اس کی مخالفت کی،کھلاڑیوں کو تو پتا ہی نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔

ایسے میں شان کو کھلانے پر بھی زور دیا گیا لیکن ٹیم مینجمنٹ نے بات نہ مانی،تیسرے میچ میں امام الحق کی انجری کے سبب مجبوری میں کھلانا پڑا، میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر شان کو پہلا یا دوسرا ون ڈے کھلانے پر زور دیا جاتا تو شاید بابر ہی وہ میچز نہ کھیلتے، بہرحال بورڈ میں یہ سوچ موجود ہے کہ بابر اعظم کچھ زیادہ ہی طاقتور ہو گئے ہیں،کئی سینئر کھلاڑی بھی ان کے ساتھ ہیں لہذا اس پلیئرز پاور کو ختم کرنا چاہیے۔

اسی لیے تین الگ کپتانوں کی تجویز سامنے آئی مگر کھلاڑیوں کے سخت ردعمل نے معاملہ وقتی طور پر ٹھنڈا کر دیا، ویسے بھی ابھی کون سی سیریز ہونی ہے جو جلد بازی کا مظاہرہ کیا جائے، پاور کارکردگی سے آتی ہے، بابر ہوں یا رضوان انھوں نے مسلسل اچھا پرفارم کیا اسی لیے ٹیم پر کنٹرول ہے۔

یقینا پلیئرز پاور کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، گروپ میں شامل پلیئرز ہی کھیلتے جبکہ باقی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جیسا کہ سرفراز احمد کے ساتھ ہوا،البتہ اس صورتحال سے بہت سوچ سمجھ کر نمٹنا چاہیے بصورت دیگر کوئی بڑا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے، آپ کسی بڑے کھلاڑی کو ہیڈ کوچ بنا دیں وہ معاملات کو سنبھال لے گا، چیف سلیکٹر بھی کسی تگڑے سابق کرکٹر کو بنانا چاہیے تھا مگر پی سی بی نے 70 سالہ ہارون رشید پر اعتماد کیا۔

وجہ نجم سیٹھی سے قربت بنی، چونکہ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی کو ان پر مکمل بھروسہ تھا اسی لیے عہدہ سونپ دیا،ہارون کی خاص بات یس مین ہونا ہے، نجم سیٹھی کل کو ان سے کہیں کہ جاوید میانداد کو ٹیم میں شامل کر لو تو وہ بغیر کوئی بحث کیے ایسا کر لیں گے مگر کوئی بڑا کھلاڑی یقینا یہ نہیں کرے گا، بہرحال بابر کے نصیب میں عزت افزائی لکھی ہے۔

آج انھیں آئی سی سی نے ون ڈے ٹیم آف دی ایئر کا کپتان مقرر کر دیا، دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی میں بھی بابر کو قیادت سونپنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں، بورڈ کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے،نئی انتظامیہ نے اپنے پرانے لوگوں کو تو واپس لانا شروع کر دیا ہے، نائلہ بھٹی ،نجم سیٹھی کی قابل بھروسہ شخصیت ہیں،سابقہ دور میں ڈائریکٹر مارکیٹنگ سمیت پی ایس ایل کی کرتا دھرتا بھی بنیں، پھر پی سی بی میں تبدیلی آئی تو نجم سیٹھی کی پرائیویٹ کمپنی میں ہی ملازمت کرنے لگیں۔

رمیز راجہ کے دور میں انھوں نے پی ایس ایل کا ڈائریکٹر بننے کیلیے درخواست دی مگر انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا گیا،البتہ اب وہ دوبارہ واپس آ گئیں اور ان کے لیے نئی پوسٹ پی ایس ایل کمشنر تشکیل دی گئی،اسی طرح ایچ آر میں سرینا آغا سے استعفیٰ لے لیا گیا وہ رمیز کی بااعتماد آفیشل تھیں،ان کی جگہ خاموشی سے بغیر کوئی اشتہار دیے خیام قیصر کو عہدہ سونپ دیا گیا، وہ ماضی میں نجم سیٹھی کے مشیر رہ چکے ہیں۔

ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن کرنل (ر) آصف محمود کو گھر بھیج کر دبئی سے کرنل (ر) اعظم خان کو واپس لانے کی تیاریاں ہیں، سابق ڈائریکٹر میڈیا امجد بھٹی بھی آ رہے ہیں، سمیع الحسن برنی نے آدھی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کر کے اعتراف کر لیا کہ وہ اوور پیڈ تھے، امجد بھٹی کے ساتھ ان کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا، کشتیاں جلا کر دبئی سے آنے والے سی ای او فیصل حسنین نے وفاداری ثابت کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے شاید بچ بھی جائیں۔

سی او او سلمان نصیر کے پاس نجانے کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ ہر چیئرمین کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں، ویسے اندر کی خبر یہ ہے کہ بہت سے آفیشلز کو یقین ہے موجودہ انتظامیہ صرف چند ماہ کی مہمان ہے،حکومت کی تبدیلی پر اسے گھر جانا ہوگا پھر ان کی سابقہ تنخواہیں اور مراعات بحال ہو جائیں گی تب تک برداشت کر لیتے ہیں۔

بہرحال سیٹھی صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ ٹیم کے معاملات کو زیادہ نہ چھیڑیں بورڈ کے انتظامی امور پر ہی توجہ دیں،قابل بھروسہ سے زیادہ قابل افراد کو ملازمتیں دیں آپ کو کام بھی تو لینا ہے،اسی صورت کامیابی ملے گی ورنہ یہی کہا جائے گا کہ اچھا خاصا رمیز راجہ کام کر رہا تھا مگر ایک نان کرکٹر کو لا کر پی سی بی کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔