ایک آمر شہنشاہ کائنات کے دربار میں پیش

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 9 فروری 2023
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

سابق آرمی چیف اورآمر جنرل پرویز مشرف دار فانی سے کوچ کرگئے اور تمام جہانوں کے شہنشاہ کی عدالت میں پیش ہوچکے ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تھے جہاں ایک خطرناک بیماری نے انھیں آن جکڑا اوروہ اسی بیماری سے لڑتے لڑتے 79 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

جنرل مشرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کے متنازع ترین کردار رہے ہیں، ان کا دور بے شمار حوالوں سے تنازعات سے بھرا پڑا ہے۔ جس وقت ان کا انتقال ہوا وہ پاکستانی عدالتوں کو مطلوب بھی تھے۔

وہ آئین کو اپنے پاؤں تلے روند کر اقتدار تک پہنچے اور ایک منتخب وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا۔ انھوں نے دو بار آئین توڑا جس پر انھیں آئین شکن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کے دور اقتدار کے دوران ہی نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ امریکا اس خود ساختہ واقعہ کے ذمے داروں کی تلاش میں اس خطے میں آن پہنچا۔

اس کا ہدف افغانستان میں موجودملا عمر کی سربراہی میں طالبان کی حکومت تھی۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکا نے ایک آزاد ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان سے تعاون مانگا تو جنرل مشرف اس حکم کے آگے ڈھیر ہوگئے اور پرائی جنگ کو کھینچ کر پاک سرزمین تک لے کر آئے۔

مشرف کے تعاون سے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا وہاں کی حکومت کو ختم کیا اور اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ بیس سال تک وہ نیٹو کی چھتری تلے افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا رہا۔

اس جنگ میں امریکا نے ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کیے اور لاکھوں افغان مسلمان اس میں شہید ہوئے۔ جب یہ لڑائی پاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچی تو ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بھی نگل گئی اور اب تک یہ جنگ جاری ہے۔

عافیہ صدیقی سمیت نجانے کتنے پاکستانیوں کو مشرف نے امریکا کے حوالے کیا۔ یہ جنرل پرویزمشرف ہی کا تحفہ ہے جو آج بھی قوم کے گلے میں دہشت گردی کی صورت پڑا ہوا ہے۔

جنرل مشرف نے اپنے اہداف کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو طاقت کے ذریعے ہٹایا۔ پروپاکستان بلوچ لیڈر نواب اکبر بگٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے لیڈر ان ہی کے دور میں شہید ہوئے اور ان کے خون کی چھینٹیں ان کے دامن پر گریں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری کومعزول کردیا، اس فیصلے کے خلاف وکلاء تحریک چلی اور ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا تاہم جنرل مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل کر دیا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر مارچ 2014 میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی،17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی، جسے بعد میں ختم کر دیا گیا اور فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف ایک آزاد خیالات کے مالک تھے اور آزاد معاشرہ ان کی خواہش تھی اس مقصد کے لیے انھوں نے نصاب بدلے۔ میراتھن ریس کے نام پر مردوں اور عورتوں کی مخلوط دوڑ کا بندوبست کرایا جاتا رہا۔ پاکستان کے اسلام پسند طبقات کے لیے یہ سب کچھ ناقابل قبول تھا۔ جب گوجرانوالہ میں ایسی ہی مخلوط ریس کا اہتمام کیا گیا تو علماء میدان میں آگئے۔

اس وقت جے یوآئی کے گوجرانوالہ سے ایم این اے قاضی حمیداللہ رحمہ اللہ نے بڑھ کر اس ریس کو روکا، اس لڑائی میں ان کے ایک بیٹے کی آنکھ بھی ضایع ہوئی۔ مشرف کی ان پالیسیوں پر مذہبی طبقہ دل گرفتہ تھا خصوصاً علماء اضطراب کا شکار تھے۔

لال مسجد کے علماء اور طلباء ایسے ہی اقدامات کے خلاف میدان میں آگئے جن کے خلاف طاقت کا بدترین استعمال کیا گیا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن پاکستان کی تاریخ کا دل دہلادینے والا سانحہ ہے۔

مشرف کی وفات پر سب سے سخت ردعمل لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے آنے کی توقع تھی کیونکہ اس آپریشن میں سب سے زیادہ وہ متاثر ہوئے تھے لیکن ان کا جو بیان سامنے آیا عقل دنگ رہ گئی۔ مولانا کا بیان من و عن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ بعد از حمد و ثنا مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ ’’آج تقریباً نودس بجے کے قریب اطلاع ملی کہ جنرل پرویز مشرف صاحب فوت ہوگئے حالانکہ ہماری ان کے ساتھ بہت سخت جنگ رہی، وہ ہمارے بڑے مخالف تھے۔ سانحہ لال مسجد پوری دنیا کے سامنے ہے‘ انھوں نے بڑا ظلم کیا۔

میرے اکلوتے بھائی علامہ غازی عبد الرشید اس سانحہ میں شہید ہوئے، میری والدہ شہید ہوئیں، میرے اکلوتے بیٹے مولانا حسان غازی شہید ہوئے۔ جامعہ حفصہ شہید ہوا، بچے بچیاں شہید ہوئیں۔ لیکن اسلام ہمیں اعلیٰ جذبہ سکھاتا ہے اور اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اور صفات اپناؤ۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ معاف کرنے والا ہے۔ ہمیں بھی وہ جذبے اختیار کرنے چاہئیں۔

جب یہ سانحہ ہوا، اس وقت میں جیل میں تھا تو میں نے جیل میں ہی کہہ دیا تھا کہ میں نے معاف کردیا۔ جب واپس آیا اور پہلا جمعہ پڑھایا اس وقت بھی میں نے کہا کہ میں نے معاف کردیا۔ حضرت والد صاحب مولانا عبداللہ رحمہ اللہ جب شہید ہوئے، پہلا جمعہ میں نے پڑھایا تو میں نے کہا کہ میں نے قاتل کو معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ اس چیز کو پسند کرتا ہے اور اسلام میں معاف کرنے کے بہت فضائل ہیں۔

میں بہت سے کمنٹس پڑھ رہا تھا کہ جہنم رسید ہوگیا، فرعون اور نمرود کے پاس پہنچ گیا۔ ہمیں ایسی چیزوں سے بچنا چاہیے۔ میںیہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جنگ جنرل پرویز مشرف سے نہیں ہے۔ اس نظام سے ہے اور رہے گی جو جنرل پرویز مشرف جیسی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ لیکن الحمد للہ ، اللہ نے ہمیں حوصلہ دیا ہے۔ پہلے بھی حوصلے سے رہے۔

آج بھی حوصلے میں ہیں۔ جب مجھے اس کی وفات کی اطلاع ملی تو میں نے کمرے میں بیٹھ کر اس کے لیے دعا کی کہ یا اللہ میں نے معاف کر دیا، آپ بھی معاف کردیں۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں، بس ہمارا حوصلہ ہونا چاہیے۔ جتنا دکھ مجھے ہوا میں جانتا ہوں، جیلیں کاٹیں، تکلیفیں کاٹیں۔ ہمارا حوصلہ وہ ہونا چاہیے جو محمد عربیﷺ کا حوصلہ ہے۔

ہمارا نظریاتی اختلاف آج بھی اْن سب سے ہے جو جنرل پرویز مشرف کی سوچ رکھتے ہیں۔ ہم اس زمین پر اللہ کا قانون چاہتے ہیں، رب کی زمین پر رب کا نظام چاہتے ہیں۔ باقی ان سے غلطیاں بہت ہوئی ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے معافی کی دعا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور اس ملک میں قرآن و سنت کی بہاریں نصیب فرمائے۔ ان کے لیے بہت سے سبق دے دیے آج جامعہ حفصہ پہلے سے لاکھوں گنا بہتر ہے، پورے ملک میں بے شمار شاخیں قائم ہوچکی ہیں، مشرف کی سوچ اور فکر محدود ہوتی جارہی ہے۔

مولانا نے کمال اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے وہ اپنے خزانوں سے جسے جو عطا کردے۔ سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کو جب چیئرمین سینیٹ نے ترکیہ اور شام کے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کا کہا تو اس کے ساتھ پرویز مشرف کے لیے بھی آوازیں آنے لگی جس پر مشتاق احمد خان نے کہا کہ شام اور ترکیہ کے مسلمانوں کے لیے دعا ضرور ہوگی مگر پرویز مشرف کے لیے بالکل دعائے مغفرت نہیں ہوگی۔ ویسے بھی شرعی طور پر اجتماعی ظلم کے لیے کوئی معافی نہیں ہوسکتی کیوں کہ معاف صرف وہ کرسکتا ہے جس پر ظلم ہوا۔

یہ اللہ رب العزت نے اسی بندے کا استحقاق رکھا ہے کسی اورکا نہیں، مولانا عبدالعزیز صاحب بھی ان کے وہ ظلم معاف کرسکتے ہیں جو ان پر خود ہوا اور یا ان پر جن کے وہ بااختیار اکلوتے وارث ہیں، مگر مولانا کے حوصلے کو داد دینا پڑے گی کہ وہ پرویز مشرف کو معاف کرچکے ہیں۔

صرف لال مسجد آپریشن میں جو ظلم ہوا‘ اس کے متاثرین ہزاروں میںہونگے۔ وہ لاکھوں ڈالر جو انھوں نے طالبان اور القاعدہ کے مجاہدین کو امریکا کے حوالے کرنے کے معاوضے کے طور پر وصول کیے یقین کریں کفن کی جیب میں نہیں لے کر گئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔