’’آئی لو یو احمد شہزاد‘‘

سلیم خالق  پير 27 مارچ 2023
احسان مانی اور رمیز راجہ کے دور میں میرے ساتھ ایکریڈیشن کا کئی بار مسئلہ ہوا۔ فوٹو: فائل

احسان مانی اور رمیز راجہ کے دور میں میرے ساتھ ایکریڈیشن کا کئی بار مسئلہ ہوا۔ فوٹو: فائل

’’میں ہفتے کو دبئی آ رہا ہوں، آپ میرا میڈیا ایکریڈیٹیشن کارڈ وصول کر لیجیے گا،میں نے فارم بھر دیا تھا‘‘

میں نے یو اے ای روانگی سے قبل دبئی کے اپنے صحافی دوست عبدالرحمان رضا کو فون پر یہ کہا تو اگلے دن ان کا پیغام آ گیا کہ آپ کا تو کارڈ ہی نہیں بنا،میں نے لسٹ دیکھی اس میں نام بھی نہیں ہے،یہ سن کر میں مسکرایا اور کہا چلیں کوئی بات نہیں، شاید پی سی بی سے منظوری نہیں آئی ہوگی،اتفاق سے اسی شب میری نجم سیٹھی صاحب سے فون پر بات ہوئی تو میں نے ان سے یہ تذکرہ کیا۔

یہ سن کر وہ کہنے لگے کہ کوئی جتنا بھی خلاف لکھے یا بولے کم از کم میرے دور میں کسی صحافی کو صرف تنقید کی وجہ سے کوئی میچ کور کرنے سے نہیں روکا جائے گا،خیر اگلے دن عبدالرحمان رضا کا میسیج آیا کہ انھیں میرا کارڈ مل گیا ہے۔

احسان مانی اور رمیز راجہ کے دور میں میرے ساتھ ایکریڈیشن کا کئی بار مسئلہ ہوا مگر نجم سیٹھی کے آنے سے یہ فرق آیا کہ ہوم سیریز اور پی ایس ایل کا کارڈ بن گیا، ان تینوں ادوار میں ایک ہی صاحب ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کامن ہیں،خیر اب تو نجم سیٹھی خود میڈیا کو ہینڈل کر رہے ہیں تو بہتری آئی ہے۔

چونکہ ایمرٹس کے ٹکٹس اب بے انتہا مہنگے ہو چکے اس لیے دبئی آنے کیلیے پی آئی اے کا انتخاب کرنا پڑا،ساڑھے تین بجے دوپہر کی فلائٹ پہلے رات 8 بجے ری شیڈول ہوئی اور آخر کار 9 بجے اڑان بھری، یعنی ساڑھے5 گھنٹے کی تاخیر ہوئی،اگلے دن عبدالرحمان رضا کے ساتھ ہی شارجہ اسٹیڈیم پہنچا، باہر افغان شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی جو وہیں روزہ افطارکرنے کی تیاریوں میں مگن تھے۔

ان سے بات ہوئی تو لہجے میں تلخی نمایاں تھی، وہ پاکستان سے میچ کو اس طرح سمجھتے ہیں جیسے ہم بھارت سے مقابلے کو اہمیت دیتے ہیں، ایک موقع پر مجھے غصہ آنے لگا اور سوچا کہ جواب دوں لیکن جب افغانیوں کی بڑی تعداد اور تیوردیکھے تو عافیت اسی میں سمجھی کہ آگے بڑھا جائے،جب اسٹیڈیم میں داخل ہوا تو شاداب خان اور راشد خان کی بڑی تصاویر نظر آئیں،اسی وقت اذان بھی ہونے لگی تھی۔

عبدالرحمان رضا اپنے گھر سے افطاری بھی بنوا کر لائے تھے ،ہم نے اسی میں سے ایک،ایک پکوڑہ کھایا پھر میڈیا ڈائننگ ایریا میں آ گئے وہاں یو اے ای میں مقیم کئی پاکستانی صحافیوں سے ملاقات ہوئی،کھانے میں افغان ڈشز پلاؤ، کباب وغیرہ کا اہتمام تھا، شارجہ کا اسٹیڈیم اپ گریڈ تو ہوا لیکن میڈیا کیلیے اب بھی اوپن ایئر بیٹھنے کا انتظام ہے۔

ابھی تو خیر موسم خوشگوارہے اس لیے مسئلہ نہیں،گرمی میں اگر میچز ہوں تو صحافیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں،یو اے ای میں پاکستان سے میچز کے دوران افغان شائقین کا رویہ اچھا نہیں ہوتا تھا،اسی لیے پی سی بی نے پہلے ہی اس حوالے سے بات کر لی تھی،منتظمین نے بہترین انتظامات بھی کیے، سب سے اچھا کام دونوں ممالک کے شائقین کو الگ اسٹینڈز میں بٹھانا ہے،آن لائن ٹکٹ خریدتے ہوئے ہی آپشن دیا گیا کہ پاکستان یا افغانستان کس کے انکلوژر میں بیٹھنا ہے۔

البتہ فیملیز کو ساتھ بیٹھنے کی اجازت تھی، جب میں اپنی نشست پر بیٹھ گیا تو عقب سے اپنا نام پکارے جانے پرمتوجہ ہوا وہاں ایک افغان لڑکا گارڈ سے میڈیا گیلری میں آنے کی اجازت طلب کر رہا تھا جو اسے ملی نہیں، میں وہاں گیا تو اس نے بتایا کہ وہ بڑے شوق سے کرکٹ پاکستان پر انٹرویوز وغیرہ دیکھتا ہے، پاکستان ٹیم کا بڑا پرستار ہے،اس نے مجھے کہا کہ احمد شہزاد تک میرا پیغام پہنچا دے گا کہ ’’آئی لو یو احمد شہزاد‘‘ میں نے اسی وقت احمد کو واٹس ایپ پر وائس میسیج بھیج دیا۔

تب مجھے احساس ہوا کہ سارے افغان ایک جیسے نہیں اور اب بھی پاکستان ٹیم کو پسند کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، میچ سے پہلے ٹیمیں جب گراؤنڈ میں پریکٹس کر رہی تھی تو روایتی لباس پہنے افغان بچے بھی گراؤنڈ میں نظر آئے جو قومی ترانے کے وقت کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

انکلوژرز کے اوپر کھلاڑیوں کی تصاویر والے بڑے بورڈز بھی لگائے گئے ہیں، مقامی صحافیوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سلیکٹرز نے اتنی زیادہ تبدیلیاں کر کے درست نہیں کیا، افغانستان نے پہلا میچ جیتنے کے بعد اسٹیڈیم کے باہر بڑی خوشیاں منائی تھیں، ویسے میں بھی اس تاثر سے متفق ہوں کہ  ہمیں ہول سیل تبدیلیوں کے بجائے بتدریج نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے چاہیے تھے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت جذباتی لوگ ہیں،پی ایس ایل میچز چونکہ ٹی وی پر براہ راست نشر ہوتے اور شائقین بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں،اس لیے کھلاڑی راتوں رات اسٹار بن جاتے ہیں، پورے ڈومیسٹک سیزن میں پرفارم کرنے والے موقع کے انتظار میں رہتے اور2،3 اچھی اننگز یا بولنگ اسپیل کرنے والے پی ایس ایل کی کارکردگی پرپاکستان ٹیم میں شامل ہو جاتے ہیں، ہمیں کسی میں سعید انور کی جھلک نظر آتی ہے تو کوئی عبدالرزاق جیسا لگتا ہے۔

یہ بیچارے انٹرنیشنل کرکٹ میں مختلف پچز پر کھیلتے ہوئے ناکام ہوں تو کیریئر ہی ختم ہو جاتے ہیں،خیر آج دوسرے میچ کا آغاز بھی پاکستان کیلیے اتنا اچھا نہ ہوا اور پہلے ہی اوور میں دو وکٹیں گر گئیں۔

اسٹیڈیم مکمل بھرا ہوا تو نہیں لیکن افغان انکلوژر میں کافی لوگ ہیں، وکٹیں گرنے پر انھوں نے خوب شور مچایا، جیوے جیوے پاکستان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے اس بات کی بھی گواہی دے رہے ہیں کہ پاکستانی بھی کم نہیں ہیں،اگر رمضان میں میچز نہیں ہو رہے ہوتے تو شاید تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی مگر انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ لیگز کی بھرمار نے اب شیڈول میں خالی جگہ نہیں چھوڑی،اس لیے جہاں ونڈو ملے میچز رکھ لیے جاتے ہیں، میں پہلی بار رمضان میں یو اے ای آیا ہوں، یہ بھی ایک منفرد تجربہ ہے، اگلے کالم میں آپ کو کرکٹ کے ساتھ یہاں رمضان کے اہتمام کا بھی بتاؤں گا،ابھی تھوڑا میچ سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔