خالد بنؓ ولید مارشل لاء نہ لگا سکا
اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے اور افسانوی قسم کے سپہ سالار کی یہ بات ہم مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا ایک حصہ ہے۔۔۔
کوئی چودہ سو برس سے اوپر کا وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کی حکومت دنیا کی سپر پاور تھی اس حکومت کا سربراہ عمر بن خطابؓ تھا اور اس کی فوج کا سربراہ خالد بن ولیدؓ تھا۔ تاریخ میں اس کے بعد نہ کوئی ایسا حکمران آیا اور نہ کوئی ایسا سپہ سالار۔ زمین ان کے سجدوں سے کانپتی تھی اور میدان جنگ ان کی تلواروں سے گونجتا تھا۔ ان کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ مورخ متفق ہیں کہ عمر اگر دس برس مزید زندہ رہ جاتا تو آج کی دنیا کچھ اور ہوتی اور اگر خالد برطرف نہ کیا جاتا تو جہاں اس کی سپاہ کے گھوڑوں کے قدم پڑتے وہ جگہ ان کی ملکیت میں آ جاتی لیکن عمر ایک منفرد انسان تھا۔ اپنے اللہ سے اس شخص کا تعلق ویسا ہی تھا جیسا اس کے پیغمبر کو مطلوب تھا۔
سپہ سالار خالد بن ولید کی فتوحات ان کے لشکر کے خیال میں فتح و نصرت کا واحد سبب تھیں۔ پیغمبر کے لب مبارک سے اس فوجی کے لیے 'اللہ کی تلوار' کا خطاب اور لقب عطا ہوا تھا لیکن اس سب کے باوجود اس کا حکمران اور حاکم اس سے کہیں زیادہ عظیم تھا اور زیادہ طاقت ور اس تک اسلامی سپاہ کا یہ تاثر کسی طرح پہنچ گیا کہ ان کی فتوحات اللہ تبارک تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہیں خالد کی وجہ سے ہیں۔ یہ بہت ہی بڑی بات تھی اور خالد بن ولید جیسے مقبول جرنیل سے متعلق تھی۔ اس کی بار بار مختلف ذرایع سے بار بار تحقیق کی گئی جو درست ثابت ہوئی۔ خلیفہ وقت نے خالد کی برطرفی کا فیصلہ کر لیا لیکن سپاہ کے ذہنوں اور دلوں کا کوئی تاثر دنیا داری میں قابل تعزیر جرم نہیں تھا جب تحقیق و تفتیش شروع ہوئی تو سپہ سالار کی زندگی کی بعض دوسری باتیں بھی سامنے آگئیں جو قابل تعزیر تھیں۔
چنانچہ حضرت ابو عبیدہؓ جیسا شخص جرم کی سزا پر متعین کیا گیا جو حضرت خالد کی برابر کی شخصیت تھی۔ خلیفہ وقت نے حکم دیا کہ ابو عبیدہ تم خالد کو اس کی سپاہ کے سامنے کسی اونچی جگہ پر کھڑا کر دینا اس کی پگڑی اتار کر اس سے اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دینا اور اس حالت میں پوچھنا کہ فلاں شاعر کو اپنے لیے مدحیہ قصیدہ کہنے کا معاوضہ کہاں سے ادا کیا گیا۔ اگر خالد یہ کہے کہ بیت المال سے تو یہ کھلی خیانت ہے اور اگر کہے کہ ذاتی طور پر تو یہ فضول خرچی اور ایک نامناسب عمل ہے۔ دونوں صورتوں میں خلیفہ کا حکم ہے کہ آپ کو فارغ کیا جاتا ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ اللہ کی تلوار خالد بن ولید فتوحات کا سرنامہ سپہ سالاری کی طویل تاریخ کا اعزاز رکھنے والا فن حرب و ضرب کا منفرد ماہر اور اپنی سپاہ کے دلوں کو کسی غیر معمولی جرنیل کا تصور دینے والا کوئی آسمانی مخلوق جیسا اور پتہ نہیں کیا کیا دُور مدینہ میں بیٹھے ہوئے حکمران کے ایک ایلچی کے حکم پر سر جھکا کر اپنی تلوار ایلچی کے سپرد کر دینے والا اور رخت سفر باندھ کر واپس روانہ ہونے والا۔ ڈسپلن کی ایک تاریخی مثال۔ دمشق سے مدینہ تک کا سفر طویل تھا راستے میں کسی سرائے میں قیام کرنا پڑا تو وہاں ایک سپاہی بھی حالت سفر میں موجود تھا حضرت خالد کے دل میں رنج تھا تلخی تھی اور ان کی باتوں میں شکوہ تھا۔ یہ سن کر اس سپاہی نے کہا کہ امیر آپ کی باتوں سے بغاوت کی بو آ رہی ہے۔ بتاتے ہیں کہ خالد اٹھ کر بیٹھ گئے اور اس جرات مند سپاہی سے کہا کہ میرے بھائی عمر کی خلافت میں بغاوت نہیں ہو سکتی اور جب تک عمر زندہ ہے کوئی گستاخی نہیں ہو سکتی۔
اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے اور افسانوی قسم کے سپہ سالار کی یہ بات ہم مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا ایک حصہ ہے جب ہم دنیا میں سب سے طاقت ور تھے سپر پاور تھے ہمارے سامنے بڑے بڑے حکمران سر جھکا کر کھڑے ہوتے تھے اور یہ سب اس لیے تھا کہ ہمارا خدا پر یقین تھا صرف اسے ہی سب کچھ سمجھتے تھے اور اس کی مدد اور کرم کے طالب ہوا کرتے تھے ہماری تلواروں کے پیچھے ایمان کی طاقت تھی اور ان کی ضرب کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا اور ہماری اس طاقت کا سرچشمہ ہمارا سویلین حکمران تھا جو خدا کی زمین پر عدل و انصاف کا ایک نمونہ تھا۔ ایک بار زلزلہ آ گیا تو خلیفہ عمر نے زمین پر کوڑا مار کر کہا کہ میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم گستاخی کی جرات کرتی ہو۔
ہمارے ان حکمرانوں نے انصاف اور امن کو نئے معنی دیے اور عوام کے دلوں میں گھر کر لیا اس طرح اتنی مضبوط حکومت قائم ہوئی کہ خالد بن ولید نے کہا کہ جب تک عمر زندہ ہے بغاوت نہیں ہو سکتی حالانکہ بظاہر عمر کی طاقت خود یہ خالد بن ولید تھا سپہ سالار لیکن اس کو معلوم تھا کہ اصل طاقت میں نہیں وہ عوام ہیں جو عمر کی اطاعت کرتے ہیں اور فوج محض اس ریاست کا ایک حصہ ہے جو غازی اور شہید کہلاتی ہے اور مسلمان عوام کے دلوں میں بستی ہے اسی خالد بن ولید نے اپنی وفات کے وقت کہا تھا کہ جسم کا کوئی حصہ نہیں جس پر کسی ضرب کا نشان نہیں۔ سو سے زیادہ جنگوں میں حصہ لیا ہے مگر شہادت نصیب میں نہ تھی اور آج بستر پر جان دے رہا ہوں۔
ہمارے یہاں ان دنوں ایک بار پھر مارشل لاء کا خطرہ سامنے ہے اور کوئی سپہ سالار یہ کہنے والا نہیں کہ جب تک سویلین حکمران زندہ ہے فوجی بغاوت (مارشل لاء) نہیں ہو سکتی۔