مصنوعی ذہانت کے مثبت اثرات

شکیل احمد تحسین  جمعرات 27 اپريل 2023
مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

موجودہ دور کو اگر مصنوعی ذہانت کا دور کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔

ہماری زندگیوں میں اس کا عمل دخل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب اس کے بغیر دنیا کا تصور کرنا ممکن نہیں۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ صحت سے کے کر تعلیم تک، ٹیکنالوجی سے لے کر توانائی تک، آفس منیجمنٹ سے لے کر مضمون نویسی تک، تحقیق سے کر سائنس تک، کاروبار سے لے کر خریداری تک کوئی ایسا شعبہ ہمیں نظر نہیں آتا کہ جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال نہ ہو رہا ہو۔ ذیل میں ہم ان چند بڑے شعبہ جات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت کا اہم کردار ہے۔

صحت عامہ

صحت عامہ ایک اہم شعبہ ہے جس میں مصنوعی ذہانت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان جیسا ملک جہاں عام لوگوں کے لیے صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ متعدی اور غیر متعدی بیماریاں عام ہیں۔ بہت سی بیماریوں کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے با آسانی بڑے پیمانے پر بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج ہو سکتا ہے۔

AI کی مدد سے چلنے والے آلات ایکس ریز اور ایم آر آئی رپورٹس کو سکین اور ان کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ مریض کے ڈیٹا کا تجزیہ کر کے ڈاکٹرز کسی بھی طرح کے ممکنہ خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کا تدارک صحیح وقت کر سکتے ہیں۔ اس طرح بیماری کے جڑ پکڑنے سے قبل ہی اس کا علاج کر لیا جاتا ہے۔

تعلیم

مصنوعی ذہانت تعلیم کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ اسکولز کا تعلیمی معیار بھی قابل رشک نہیں۔ آج بھی ہمارا تعلیمی نظام فرسودہ اور صرف نقالی پر مبنی ہے جو کہ دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد گریجوایٹس نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کومحدود وسائل، عدم مساوات اور قابل اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ان سب مسائل کو ہم باآسانی حل کر سکتے ہیں۔ مثال کی طور پر اے آئی کی مدد سے چلنے والے ٹولز ہر طالب علم کی انفرادی طور پر سیکھنے کی صلاحیت اور طریقہ کار کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور پھر اس کی قابلیت اور مہارت کے مطابق اس کے لیے کورسز اور اساتذہ تجویز کرتے ہیں۔ اس طرح ہر طالب علم اپنی اسپیڈ سے سیکھ سکتا ہے اور کسی بڑی کلاس کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کسی بھی طرح کا دباؤ بھی نہیں ہوتا۔

طلباء کی کارکردگی کا فوری اور جامع تجزیہ اور بروقت فیڈ بیک اور اساتذہ کا تبصرہ ہمیں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کا بھی موقع دیتا ہے۔ تعلیمی میدان میں مصنوعی ذہانت کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک موبائل یا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی مدد سے گھر بیٹھے آپ دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں اور ماہرین سے کسی بھی مضمون کو سیکھ سکتے ہیں۔

معیشت/ کاروبار

معاشی میدان میں اے آئی ایم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ ایسا ہے جو ابھی تک بینکنگ سیکٹر اور ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ جس کی وجہ بینکنگ کے بارے آگاہی کی کمی یا روایتی بینکنگ تک رسائی نہ ہونا ہے۔ ڈیجیٹل والٹ اور موبائل بینکنگ کی مدد سے آبادی کا بڑا حصہ پہلے ہی کافی حد تک اس سے منسلک ہو چکا ہے جبکہ ابھی مزید استعداد بھی اس میں موجود ہے۔

اے آئی چیٹ بوٹس صارفین کو 24 گھنٹے کسٹمر سروس اور سپورٹ فراہم کرتے ہیں جس کے باعث ان میں بینکنگ سے متعلق آگاہی اور اس کا رحجان بڑھتا ہے۔ مزید برآں یہ آسان اور سستا ذریعہ بھی ہے جس کے باعث یہ صارفین میں کافی مقبول ہے۔

اے آئی کا بہت زیادہ استعمال ای کامرس یا آن لائن خریداری میں بھی ہے جہاں ہر صارف کو اس کی پسند کے مطابق مزید تجاویز مل رہی ہوتی ہیں۔ یہ ٹولز ہر صارف کا انفرادی تجزیہ کر کے اس کی پسند اور رحجان کے مطابق اس کو نئی مصنوعات تجویز کرتے ہیں۔

آپ میں سے اکثر لوگوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ جب ہم کسی ای کامرس پلیٹ فارم پر ایک چیز خریدنے جاتے ہیں، ان کے الگورتھم اس حد تک آپ سے مانوس یا آپ کی پسند کو جان چکے ہوتے ہیں کہ وہ جو تجویز کرتے جاتے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ یہ تو میری ہی ضرورت ہے اور جب آپ اس مارکیٹ پلیس سے باہر آتے ہیں تو ایک کے بجائے دس چیزوں کا آرڈر دے چکے ہوتے ہیں۔

ٹرانسپورٹیشن

پاکستان میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہت حد تک خراب ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہ ہونا ہے۔ ہمیں آئے روز مختلف سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک بلاک یا پھر حادثات کی خبریں ملتی ہیں۔ لیکن اگر ٹریفک مینیجمینٹ میں اے آئی کا استعمال کیا جائے تو اس کی مدد سے ہم ٹریفک سگنلز اور اس کے پیٹرن کا تجزیہ کر کے باآسانی اس کو اپنی ضرورت سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ نہ تو اس کی وجہ سے ہمیں بند سڑکیں دیکھنے کو ملیں گی اور نہ ہی اتنے زیادہ حادثات۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں کسی بھی ٹیکنالوجی کو بہت بعد میں جا کر اپنایا جاتا ہے، جب ایک چیز باقی دنیا میں متروک ہو چکی ہوتی ہے، ہمارے ہاں اس کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اس بات کو سمجھ لیں کہ مستقبل مصنوعی ذہانت کا ہے اور ترقی وہی اقوام کریں گی جو اس کو جتنا جلدی اپنا لیں۔ جس طرح بجلی اور انٹرنیٹ نے پوری دنیا کی سمت بدل ڈالی تھی بالکل اسی طرح مصنوعی ذہانت بھی آنے والے کچھ برسوں میں گیم چینجر ثابت ہوگی۔

انسان کو شروع سے اس بات کا خطرہ رہا ہے کہ کہیں اس کی اپنی تخلیق مصنوعی ذہانت یا اے آئی جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، مستقبل میں وہ اسی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ اسی لیے مارچ میں ایلون مسک سمیت دنیا کے چار سو بڑے کاروباری افراد نے مل کر مختلف حکومتوں کو خط لکھا اور انہیں مصنوعی ذہانت کے تمام منصوبوں پر فی الفور کام روکنے کا مشورہ دیا۔ ان ماہرین کے خیال میں اے آئی انسان کو ریپلیس کر دے گی یعنی انسان کا متبادل بن جائے گی۔

گزشتہ دنوں اٹلی کی حکومت نے اوپن اے آئی کے چیٹ بوٹ جی پی ٹی پر پابندی لگا دی تھی جبکہ دیگر یورپی ممالک بھی اس حوالے سے قانون سازی پر غور کر رہے ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے نقصانات بھی ہیں، لیکن جب ہم اے آئی کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اے آئی کے فوائد اس کے نقصانات پر غالب ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔