تمباکونوشی میں کمی؛ مہنگائی کا مثبت اثر

زین الاسلام  منگل 9 مئ 2023
رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث پاکستان میں سگریٹوں کی کھپت کم ہوئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث پاکستان میں سگریٹوں کی کھپت کم ہوئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

تمباکو نوشی معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک ایسی سرگرمی ہے، جس کے فوائد تو کچھ بھی نہیں لیکن نقصانات لاکھوں اموات اور اربوں روپے کے ضیاع کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

تمباکو نوشی جیسی سرگرمی جو بڑی عمر کے افراد سے منسوب تھی اور کسی حد تک اس کی حدود و قیود بھی متعین تھیں، اب وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر پھیل چکی ہے کہ نوعمر لڑکے لڑکیاں بغیر کسی قانونی روک ٹوک اور معاشرتی باز پرس کے بے دھڑک سگریٹ استعمال کرتے دیکھے جاتے ہیں۔

ورلڈ اِن ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق 20 ویں صدی میں تمباکو نوشی سے 10 کروڑ سے زائد اموات واقع ہوئیں، جبکہ اس وقت سالانہ لگ بھگ 80 لاکھ افراد تمباکو نوشی کے باعث موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

تمباکو نوشی کے اس بڑھتے رحجان میں ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ کیپیٹل کالنگ نامی تنظیم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث پاکستان میں سگریٹوں کی کھپت کم ہوئی ہے۔ یعنی یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شکریہ مہنگائی!

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہنگائی کے باعث شہریوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے سگریٹ پر اضافی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، جس سے ہر عمر کے افراد بالعموم اور بالخصوص ایسے نوعمروں میں تمباکو نوشی میں کمی واقع ہوئی ہے جو اپنے جیب خرچ سے سگریٹ خریدنے کے عادی ہیں۔

رپورٹ میں سگریٹ پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ حکومت سگریٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ سے حاصل ہونے والی آمدن اکٹھی کرنے کا ایسا طریقہ کار بنائے جس کے ذریعے یہ آمدن براہ راست صحت کے مسائل حل کرنے کےلیے استعمال ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی کے باعث کینسر، ذیابیطس، پھیپڑوں اور دل کی بیماریوں جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں، جن کے علاج پر سرکاری و نجی شعبے میں سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ رقم سگریٹ پر ٹیکسوں کے نفاذ ہی سے اکٹھی کی جائے، نہ کہ ان افراد سے اکٹھا کیا گیا پیسہ اسموکرز کے علاج پر خرچ ہو جو سگریٹ نہیں پیتے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نوعیت کے میکنزم کی دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں مثالیں موجود ہیں اور پاکستانی حکومت باآسانی ایسا نظام مرتب کرسکتی ہے، جس سے نہ صرف تمباکو نوشی کا رحجان کم ہوگا، بلکہ اس سے ہونے والی بیماریوں کا علاج بھی آسان ہوگا۔

تمباکونشی کے رحجان کی حوصلہ شکنی کے سلسلے میں عالمی ادارہ صحت نے بھی حال ہی میں ایسی گائیڈ لائنز جاری کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حکومتیں، ادارے اور عوام مختلف طریقوں سے سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کریں، جس میں حکومت کے پلڑے میں ٹیکسوں کے نفاذ جیسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی حکومت کی جانب سے حال ہی میں سگریٹ پر نافذ کی گئی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے سالانہ 60 ارب روپے اضافی ریونیو جمع ہوگا۔

پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں ٹیکس چھوٹ کے ایسے درجنوں طریقے تلاش کرلیتی ہیں، جس کے باعث انسداد تمباکو نوشی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کےلیے یہ کمپنیاں سگریٹ کی پیداوار کم ظاہر کرتی ہیں اور یوں ایک طرف قومی خزانے کا ٹیکس چوری کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے تو دوسری جانب تمباکو نوشی کے رحجان میں اضافے کے باعث قیمتیں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 21-2020 میں لگ بھگ 4 ارب سگریٹ اسٹک کم رپورٹ کی گئیں۔ سال بہ سال کے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2018-19، 2019-20 اور 2020-21 میں سگریٹ کے استعمال میں بالترتیب 7.8 فیصد، 7.9 فیصد اور 8.6 فیصد کی کمی رپورٹ ہوئی۔ جس سے مجموعی طور پر حکومت کو گزشتہ 3 برسوں میں 23.5 ارب روپے سے زائد کے محصولات کا نقصان ہوا۔

دنیا میں کورونا وبا کے بعد معیشت اور نظام صحت پر اس قدر دباؤ ہے کہ حکومتیں اور ادارے اس بات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ تمباکو نوشی اور اس جیسی دیگر منفی سرگرمیوں اور عادات کے باعث پیدا ہونے والا خودساختہ دباؤ کم کیا جائے، تاکہ وبا اور ایسے امراض جن پر قابو پانا انسانی بس سے باہر ہے، ان پر پوری توجہ مرکوز کی جاسکے۔

اسی فلسفہ کو لیے دنیا کے مختلف کونوں سے تمباکو نوشی کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور رفتہ رفتہ یہ مہم انسانی ہمدردی کی ایک عالمی لہر کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس مہم کےلیے جدوجہد کرتے کارکنوں کا یہی پیغام ہے کہ تمباکو نوشی کے خاتمے کی یہ صدا اس روز سے پہلے سُن لی جائے، جب گھر گھر سے دمہ کے مرض میں مبتلا سگریٹ نوشوں کے کھانسنے کی آواز آنے لگے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔