طبقات ابن سعد میں یہ واقعہ آتا ہے کہ زید بن حارثہؓ قبیلہ بنو کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ ابھی ان کی عمر آٹھ سال کی تھی، وہ اپنی والدہ کے ساتھ سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں قبیلہ بنی قین کے لوگوں نے حملہ کرکے لوٹ مار کی اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جن میں زید بن حارثہؓ بھی شامل تھے۔
زید بن حارثہؓ کو عکاظ کے میلے میں حکیم بن حزام کے ہاتھ بیچ دیا گیا جو کہ سیّدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بھتیجے تھے۔ انہوں نے یہ غلام مکہ میں لاکر اپنی پھوپھی صاحبہ کے حوالے کردیا۔ سیّدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی جب نبی کریم ﷺ سے شادی ہوئی تو انہوں نے یہ غلام آپ ﷺ کو تحفے میں دے دیا۔
زید بن حارثہؓ کے گھر والے ان کے فراق میں غم سے نڈھال ہو رہے تھے۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ بنو کلب کے چند افراد حج کے ارادے سے مکہ آئے تو انہوں نے زید بن حارثہؓ کو پہچان لیا۔ اس طرح زید بن حارثہؓ کے گھر والوں کو ان کی خبر لگ گئی۔
چناں چہ زید کے والد حارثہ، چچا کعب بھاگے ہوئے مکہ پہنچے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ ﷺ زید کو معاوضہ لے کر ہمارے حوالے کر دیجیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں بچے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے یا آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔ اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ لیے بغیر اسے آپ کے حوالے کردوں گا۔
آپ ﷺ کی یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ چناں چہ زید بن حارثہؓ کو بلایا گیا اور ان کے باپ اور چچا کے سامنے ان کے ساتھ بات کی گئی اور دونوں صورتیں ان کے سامنے پیش کی گئیں۔ زید بن حارثہؓ نے جواب دیا کہ میں نبی کریم ﷺ پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ حارثہ یہ سن کر بہت بے چین ہوئے اور کہنے لگے: زید! کس قدر افسوس ہے کہ تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے ساتھ رہنا چاہتے ہو۔
والد کی بات سن کر زید نے جواب دیا کہ اس ہستی کے ساتھ رہ کر میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کے بعد دنیا و مافیہا کو اس کے سامنے ہیچ سمجھتا ہوں۔ زید بن حارثہؓ کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا بہ خوشی راضی ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے اسی وقت زید بن حارثہؓ کو آزاد کردیا اور حرم میں جاکر قریش کے مجمع عام میں اعلان کرادیا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں، آج سے زید میرا بیٹا ہے، میں اس کا وارث ہوں۔
حارثہ نے یہ سنا تو اور بھی خوش ہوا۔ باپ اور چچا دونوں مطمئن ہوکر واپس چلے گئے۔ چوں کہ زید بن حارثہؓ کو نبی کریم ﷺ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا، اس لیے لوگ اب آپ کو زید بن محمد پکارنے لگے تھے۔ بعد میں جب قرآن کریم میں منہ بولا بیٹا بنانے سے منع کیا گیا تو انہیں پھر سے زید بن حارثہؓ کہا جانے لگا۔
(طبقات ابن سعد)
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیّدنا زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو نبی کریم ﷺ کی کیا ادا پسند آئی کہ انہوں نے اپنے والدین کے پاس واپس جانے کے مقابلے میں نبی کریم ﷺ کے پاس رکنا بہتر سمجھا۔ اس وقت تک نبی کریم ﷺ نے بہ طور رسول مبعوث ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا تھا۔
پھر وہ کیا خوبی تھی جسے دیکھ کر سیّدنا زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ اتنی محبت ہوئی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی غلامی میں زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ماں باپ کو تو چھوڑنے کے لیے تیار تھے مگر نبی کریم ﷺ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سوچیں! وہ کیا صفت تھی جس نے اس بچے کو اتنا بڑا فیصلہ لینے پر مجبور کیا تھا ؟ وہ صرف نبی کریم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق تھے، ان کی شفقت اور محبّت تھی۔
نبی کریم ﷺ نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کے نام سے معروف تھے۔ صداقت و امانت انسان کے بہترین کردار کی عکاسی اور اس کے حسن اخلاق کی نشانی ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے، آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ! تم میں سے زیادہ عزیز مجھے وہ شخص ہے جس کی عادات و اخلاق تمام لوگوں سے عمدہ ہوں۔ (بخاری)
آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔'' (بخاری)
یہاں پر تھوڑا سا رک کر سوچیں کہ ہمارے اخلاق کیسے ہیں۔۔۔؟
کیا آج ہم میں کوئی ایسا مسلمان ہے جس کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر کوئی بچہ یا کوئی شخص اپنے والدین، اپنے گھر والوں اور اپنی تمام چیزوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔۔۔ ؟ یا کم از کم اتنا کہ جب ہم میں سے کوئی اپنا محلہ چھوڑ رہا ہو تو لوگ اس کو روکنے پر اصرار کریں۔ جیسا کہ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو ہجرت حبشہ کے وقت روکا گیا تھا۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا، مفہوم: ''میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والدین کو دین حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام دونوں وقت رسول اﷲ ﷺ ہمارے پاس نہ آتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو سخت اذیت دی جانے لگی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیّت سے (مکہ سے) نکلے۔
جب آپؓ برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو انہیں ابن دغنہ ملا جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابوبکر! کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر و سیاحت کروں اور اپنے رب کی یک سوئی سے عبادت کروں۔
ابن دغنہ کہنے لگے: تمہارے جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے کیوں کہ ضرورت مند محتاج لوگوں کے پاس جو چیز نہیں ہوتی تم انہیں مہیا کرتے ہو، رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو، ناداروں کی کفالت اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہو اور راہ حق میں اگر کسی کو مصیبت آئے تو تم اس کی مدد کرتے ہو، لہذا میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم (مکہ) لوٹ چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔
چناں چہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ابن دغنہ کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ (بخاری) یا ہمارے پڑوسی ہمارے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے پر تیار نہ ہوں۔ پھر اگر انہیں گھر فروخت کرنا بھی پڑے تو وہ اچھے پڑوس کی وجہ سے دگنا دام طلب کریں۔ جیسا کہ عبداﷲ بن مبارکؒ کے یہودی پڑوسی نے اپنا گھر فروخت کرتے وقت دگنی قیمت لگائی تھی اور اس کی وجہ عبداﷲ بن مبارکؒ کا بہترین پڑوسی ہونا بتایا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ عبداﷲ بن مبارکؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا، ایک آدمی نے پوچھا: کتنے میں فروخت کروگے ؟ وہ کہنے لگا: میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا۔ اس خریدار نے کہا: اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے۔ یہودی کہنے لگا: ہاں! ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداﷲ بن مبارکؒ کے پڑوس کی قیمت ہے۔
(کتاب عبداﷲ بن مبارک الامام القدوۃ)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کی ان ہی اوصاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اور بے شک آپ ﷺ اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔''
نبی کریم ﷺ کا ایک فرمان ہے: ''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔'' (بخاری)
اس حدیث میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ اگر دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب ہے تو ہماری یہ ذمے داری ہے کہ یہ تمام لوگ ہماری زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔ چہ جائے کہ کوئی شخص ہمارے ہی محلے میں رہتا ہو، وہ ہمارا رشتے دار ہو، ہمارا دوست ہو یا پھر وہ ہمارے گھر والے ہوں، ان سب کے ساتھ ہمارے اچھے اخلاق کی کتنی اہمیت ہوگی۔
دنیا بھر کہ مسلمان اگر ہماری زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہیں تو ہم مسلمان ہیں، تو سوچیں کہ جو لوگ ہمارے گھروں میں، محلوں میں میں رہتے ہیں یا جو ہمارے رشتے دار ہیں اﷲ تعالیٰ کے ہاں ان کے ساتھ ہمارے اچھے اخلاق کی کتنی اہمیت ہوگی۔
اس لیے اگر ہم بہت نمازیں پڑھنے والے، بہت سارے نفلی روزے رکھنے والے، بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے بن جائیں، ہمارا لباس اور ہماری وضع و قطع شریعت کے عین مطابق ہوجائے پھر بھی ہم مکمل مومن نہیں ہوسکتے جب تک ہمارا اخلاق اچھا نہ ہو۔
کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: ''مومنین میں سے کمال ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں۔'' (ابو داؤد)
اخلاق حسنہ سے کیا مراد ہے؟
اخلاق حسنہ سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان نرمی، محبت اور مسکراہٹ سے بات کرے۔ کسی کی غیبت نہ کرے، کسی پر تہمت نہ لگائے، کسی کی چغلی نہ کھائے۔ اسی طرح وہ لوگوں کے پیچھے ان کی عزت کا دفاع کرے، لوگوں کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرے، گالم گلوچ سے بچے، بدتمیزی سے بچے اور غصہ نہ کرے۔ یہ ساری باتیں اچھے اخلاق میں آتی ہیں۔
یہ سارے وہ اچھے اخلاق ہیں جنہیں عموماً ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں حالاں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی۔'' (ترمذی)
ایک مومن کا دوسرے مومن پر پہلا تاثر اس کا اچھا اخلاق ہی ہوتا ہے۔ چوں کہ ہم نماز اپنے لیے پڑھتے ہیں، روزہ اپنے لیے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت اپنے لیے کرتے ہیں، حج و عمرہ اپنے لیے کرتے ہیں، کیوں کہ ان سب کا تعلق حقوق اﷲ کے ساتھ ہوتا ہے البتہ اچھے اخلاق کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ''کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟'' صحابہؓ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) کسی کو گالی دی ہوگی۔
کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے ان مثاثرین کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمے ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔'' (مسلم)
اس لیے اگر ہم قیامت کے دن کی مفلسی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنے معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آنا ہوگا اور لوگوں کی پیٹھ پیچھے بات کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اچھے اخلاق اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔