سندھ کا بجٹ اور غربت

سندھ میں غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 37 فیصد ہے اور بے روزگاری کی شرح 23 فیصد ہے۔ غریبوں کی اکثریت دیہاتوں میں آباد ہے۔

کیا سندھ کا 22 کھرب 44ارب روپے کا بجٹ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کچھ کمی کرے گا؟ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ جنھیں بارہویں دفعہ سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے، ان کی بجٹ تقریر میں سب سے اہم سوال کا جواب نظر نہیں آتا۔

وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ تعلیم کے لیے 353ارب روپے، صحت کے لیے 214 روپے، امن و امان کے لیے 60 ارب روپے اورکراچی کے میگا پروجیکٹس کے لیے ساڑھے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سندھ کی حکومت نے وفاق کی پیروی کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا ہے اور غیر سرکاری سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی کم ازکم اجرت 33750 روپے مقررکی ہے۔ ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے مگر سندھ تعلیم کے شعبہ میں پسماندہ ہے۔

ایک تخمینہ کے مطابق سندھ میں 6.5 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ زرعی شعبہ میں کام کرتے ہیں، لڑکیاں گھروں میں کام کرتی ہیں اور بہت سے بچے گاؤں شہروں میں دکانوں اور ورکشاپوں پر محنت کرتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد سڑکوں پر بھیک مانگتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ان بچوں میں وہ بھی شامل ہیں جو افغانستان کے علاوہ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے آکر اپنے والدین کے ساتھ کراچی میں آباد ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی کچھ تعداد دینی مدارس میں پناہ حاصل کرتی ہے۔

اسکول نہ جانے والے بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ سندھ میں بجٹ بنانے والے ماہرین اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسکول نہ جانے والے بچوں اور ان کے والدین کو معاشی فوائد دے کر اسکولوں کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کی مختلف ریاستوں میں خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے بچوں کو یونی فارم، کتابیں، ناشتہ اور دیگر کھانے کی سہولتیں دینے کی اسکیمیں رائج ہوئیں۔

بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں گریجویشن تک ہر لڑکی کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ایک اور ریاست کے وزیر اعلیٰ نے لڑکیوں کو مفت سائیکلیں فراہم کیں، یوں بھارت میں خواندگی کی شرح میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ سندھ میں تعلیم کا شعبہ ہر لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہے۔

ماہی گیروں کی تنظیم فشر فوک فورم کا کہنا ہے کہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد 3 ہزار 217 کے قریب ہے۔

ان اسکولوں میں 65,885 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں مگر ان اسکولوں میں بنیادی سہولتیں پانی کا صاف پانی، بیت الخلائ، چار دیواری اور بجلی تک میسر نہیں۔ ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کے ضلع کیماڑی کے 50 فیصد اسکولوں میں طلبہ کو صاف پانی کی سہولت میسر نہیں ہے، پورے سندھ میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور گرمی کے مہینوں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات منعقد ہوتے ہیں۔

طلبہ شدید گرمی میں بجلی کی عدم فراہمی کے ماحول میں امتحان دیتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ خیرپور میں میٹرک کے امتحان کے دوران شدید گرمی کی بناء پر ایک طالب علم کمرہ امتحان میں بے ہوش ہوا۔ اس طالب علم کو اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کردی۔

محکمہ تعلیم میں رشوت کی شرح پولیس اور دیگر محکموں سے کم نہیں ہے۔ کراچی میں گزشتہ سال بدترین طرزِ حکومت اور مخصوص مفادات کے تحفظ کے کلچر کے سایہ میں کراچی کا قدیم اسلامیہ کالج ختم ہوا۔

محکمہ تعلیم کے افسروں نے اس کالج کو بچانے کے لیے عدالتی کارروائی میں دلچسپی نہیں لی، یوں اس کالج کی عمارت اس کالج کے بانی کے ایک رشتہ دار کو مل گئی۔

حکومت سندھ کی شعبہ صحت میں کارکردگی خاصی بہتر ہے۔ عمومی طور پر جناح اسپتال، قومی ادارہ امراضِ قلب، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن اور گمبٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کا ذکر ہوتا ہے۔

یہ ادارے حکومت سندھ کی گرانٹ سے کام کرتے ہیں مگر ان اداروں کی کامیابی کا سہرا ان اداروں کے بانیوں کے سر جاتا ہے۔ ان صحت کے چار اداروں کے علاوہ باقی اسپتالوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔

ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کا تقرر ہوتا ہے جو ضلع میں شہر کے ان اسپتالوں کے علاوہ نجی اسپتالوں، کلینکس اور لیباریٹریوں کی نگرانی کرتا ہے مگر ڈی ایچ او کا کمزور کردار ہونے کی بناء پر ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایڈز ، ملیریا اور ٹائی فائیڈ جیسی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔

صوبائی حکومت نے کراچی کے میگا پروجیکٹس کے لیے ساڑھے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ حکومت نے بسوں کے لیے بلو لائن کی تعمیر کا عزم کیا ہے، حکومتی اعلانات کے باوجود ریڈ لائن کا ایک ٹریک مکمل نہیں کرسکی۔ ملیر کینٹ سے جیل چورنگی تک آنے اور جانے والے لاکھوں افراد گزشتہ ایک سال سے ٹریفک جام ہونے کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔

ریڈ لائن منصوبہ شروع کرنے والے صاحب عقل افراد نے یونیورسٹی روڈ کا متبادل راستہ نہیں بنایا، جب کہ کام کی رفتار انتہائی سست ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ بلو لائن کا منصوبہ کب شروع ہوگا اور کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

کراچی کے شہری انڈر گراؤنڈ ٹرین ، الیکٹرک ٹرام اور بسوں کے جدید ٹریمینلز کے قیام کو خوابوں میں دیکھتے ہیں۔ ہر سال سندھ کے بجٹ میں اس بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

حکومت نے غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کم از کم اجرت33750 روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک قابلِ رشک فیصلہ ہے مگر ٹریڈ یونینوں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتِ سندھ نے نہ تو ماضی میں کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کیا ہے نا مستقبل میں ایسے آثار نظر آتے ہیں۔

اگرچہ وزیر محنت ایک مزدور رہنما کے صاحبزادے ہیں مگر ان کے محکمہ کے اہلکار کارخانوں میں جا کر مزدور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا فریضہ انجام دینے کے بجائے غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ محکمہ محنت کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہوگا جس سے پتہ چل سکے کہ کس آجر کے خلاف کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کی بناء پر کارروائی کی گئی ہو۔

جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں سوشل سیکیورٹی کارڈ کا ڈپارٹمنٹ قائم ہوا۔ اس ڈپارٹمنٹ کے قیام کا مقصد مزدوروں اور ان کے اہلِ خانہ کو طبی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں اس ڈپارٹمنٹ کو سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دیا گیا۔

سیسی کے نام سے کام کرنے والے ادارہ نے کراچی کے علاوہ حیدرآباد اور سکھر وغیرہ میں اسپتال قائم کیے۔ سیسی کے قانون کے تحت آجر کو اپنے کارکنوں کی تعداد کی بناء پر کچھ رقم سیسی کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس طرح مزدورکی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ رقم منہا کر کے سیسی کو دی جاتی ہے۔

ایک زمانہ میں سیسی کا معیار انتہائی بلند تھا۔ مزدور اور ان کے اہلِ خانہ کو مفت میں مکمل طبی سہولتیں حاصل تھیں مگر گزشتہ 10 سال سے یہ ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ سیسی کی انتظامیہ کی نااہلی سے مزدوروں کی رجسٹریشن میں اضافہ نہیں ہوا۔

اس کے بہت سے آجر سبسکرپشن ادا نہیں کرتے، یوں سیسی کا مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ یہ ادارہ انتظامی بحران کا شکار ہے۔

اصولی طور پر تو سیسی کا دائرہ کار بڑھایا جائے، صرف کارخانوں میں کم کرنے والے مزدور نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں کام کرنے والے ڈرائیور، کنڈیکٹر، اپنا کام کرنے والے راج مستری، مزدور، الیکٹریشن، پلمبر، مکینک اور دیگر مزدوروں کو سیسی کے دائرہ کار میں شامل کرنا چاہیے۔

مزدوروں کے لیے نئے اسپتال قائم ہونے چاہئیں۔ سیسی کی صورتحال دیکھ کر بعض صحافی پریشان ہیں کہ اگر ای او بی آئی کا ادارہ حکومتِ سندھ کے حوالہ کیا گیا تو اس کا کیا حشر ہوگا۔

موجودہ بجٹ کے تنقیدی جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ پندرہ برسوں سے جو بجٹ پیش کرتی ہے، یہ بجٹ بھی ویسا ہی ہے۔ اس بجٹ سے سندھ میں نہ تو غربت ختم ہوگی ، نہ خواندگی کی شرح بڑھے گی اور نہ ہی صنعتی ترقی ہوگی۔