پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل غیریقینی ہے

سید بابر علی  اتوار 4 مئ 2014
پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل تاب ناک نہیں بلکہ غیریقینی ہے، مسعود احمد برکاتی ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل تاب ناک نہیں بلکہ غیریقینی ہے، مسعود احمد برکاتی ۔ فوٹو : فائل

 بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے یا لکھنے کے عمل کو ہمارے ہاں عمومی طور پر کارزیاں سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ننھے منے ذہنوں کو علم وآگہی کے چراغوں سے منور کرنے کے لیے پوری عمر لگادی۔

پاکستان کے ایسے قلم کاروں میں مسعود احمدبرکاتی سرفہرست ہیں، جو گذشتہ چھے دہائیوں سے نونہالوں کا مستقبل سنوارنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ یہ سادہ مزاج، وضع دار اور کم گو تخلیق کار، نسلوں کی آب یاری کا ذمہ کاندھوں پر لیے، اپنے نوکِ قلم سے علمی جہاد میں مصروف ہے۔ اگر اُن کی خدمات کا تخمینہ لگایا جائے، اعدادوشمار کے عدسے سے جائزہ لیا جائے، اور حقیقی کُلیوں کا اطلاق کیا جائے، تو برکاتی صاحب کا سینہ نشان سپاس سے بھر جائے گا۔ بہ طور مدیر ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے ذریعے بچوں کی تہذیبی، اخلاقی اور لسانی تربیت اور اُنھیں ایک اچھا شہری بنانے کی سعی مسلسل کے حوالے سے ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے، تاہم یہ فقیر منش، درویش صفت شخص، ماضی کی طرح آج بھی ستایش سے بے نیاز نظر آتا ہے۔

مسعوداحمد برکاتی کو 1996 میں اے پی این ایس کی جانب سے پاکستان کے ’’سینیر ترین پروفیشنل ایڈیٹر‘‘ کا نشانِ سپاس دیاگیا۔ ان کی چھے دہائیوں پر پھیلی خدمات، افکار اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے ان کے ساتھ ایک نشست کی، جس کی تفصیل قارئین کے لیے پیش ہے۔
………..
ایکسپریس: پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
مسعود احمد برکاتی: پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل تاب ناک نہیں بلکہ غیریقینی ہے۔ کئی اسباب ہیں جو ناامید کرتے ہیں۔ ہمارے حکم رانوں کو ذرا احساس نہیں ہے۔ حکم رانوں میں وہ دانشور اور اہل قلم اورایسے اداروں کے سربراہ بھی شامل ہیں جو علم و ادب اور قومی زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے ہی قائم کیے گئے ہیں، اُن کو بھی ذرا احساس نہیں ہے۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نہیں کی گئی تو آئندہ بچوں کے لیے لکھنے والے کیسے پیدا ہوں گے۔ آپ بتائیے کہ آج تک بچوں کے لیے سال ہا سال سے لکھنے والے کسی ادیب کو کوئی اعزاز دیا گیا، جب کہ بچپن میں بچوں کے رسائل اور تحریریں پڑھنے والوں میں نواز شریف صاحب اور کئی وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔ کئی بڑی جماعتوں کے سربراہ اور کئی وائس چانسلر صاحبان بھی بچوں کے رسائل پڑھتے تھے۔ ان حالات میں بچوں کے ادب کا مستقبل تاب ناک نہیں کہا جاسکتا۔

ایکسپریس: بچوں کے رسالوں کی تعداد دن بہ دن کم ہونے کی وجوہات؟
مسعود احمد برکاتی: بچوں کے رسائل کی مقبولیت میں کمی ہونے کی وجوہ میں الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی سہولتوں کا عام ہونا بھی ہے۔ انٹرنیٹ ا س دور کی ایک نہایت مفید پیش رفت ہے۔ اس کا اثر بھی بہرحال رسائل و کتب کے مطالعے کی جگہ لے رہا ہے۔

ایکسپریس: بچوں کے ادیبوں کو حکومتی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کا سبب کیا ہے؟
مسعود احمد برکاتی: بچوں کے ادیبوں کو حکومتی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر حکم رانوں کا وقتی مسائل میں کھوجانا ہے۔ بچوں کے ادیبوں کو عملاً ادیب ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آج تک بچوں کے کسی ادیب کو کوئی بڑا ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ بچوں کے کسی ادیب کو صدر یا وزیراعظم کے ساتھ بیرونی دوروں پر نہیں لے جایا جاتا۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، البتہ اِن ادیبوں کی تحریریں پڑھنے والے قارئین اپنی محبت سے اِس بے نیازی کی بڑی حد تک تلافی کر دیتے ہیں۔ مطالعے کے رجحان میں آنے والی کمی اور الیکٹرانک میڈیا کا زور بھی لوگوں کو کتابوں سے دور کر رہا ہے۔ عام طور سے ادیبوں کو اُن کی تخلیقات کا معاوضہ نہیں ملتا، حکومت ایسی تدابیر اختیار کرے، جس سے قلم کاروں کو معاوضہ ملنے کی صورت نکلے۔ اپنی کتابیں خود شایع کرنے والے ادیبوں کو رعایتی نرخ پر کاغذ مہیا کیا جائے۔ حکومت علمی، ادبی اور بچوں کے رسائل کو، قطع نظر اُن کی تعدادِ اشاعت کے، زیادہ سے زیادہ اشتہارات دے۔ ادیبوں، شاعروں اور بچوں کے ادیبوں کو مختلف ایوارڈز دیے جائیں۔

ایکسپریس: ہمدرد کے ساتھ چھے دہائیوں پر محیط سفر طے کرنے کے بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
مسعود احمد برکاتی: ہمدرد کے ساتھ چھے سے زاید دہائیوں تک علمی، ادبی فلاحی اور سماجی خدمات انجام دینے سے مجھے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی غلط راہوں میں ضائع نہیں کی اور کوشش کی کہ اپنی بہترین ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے شہید حکیم محمدسعید کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل میں حصہ لوں اور یکسوئی کے ساتھ اپنے قلم کی طاقت کو تعمیر ملت اور فروغ علم واخلاق میں صرف کروں۔ الحمدﷲ میں ناکام نہیں رہا۔

ایکسپریس: دوسرے اخبارات یا رسائل کے لیے کام کرنے میں کیا رکاوٹ حائل رہی؟
مسعود احمد برکاتی: دوسرے رسائل واخبارات کے لیے نہ کام کرنے میں ہمدرد کی خدمات یکسوئی سے کرنے کا سبب بھی ہے، لیکن ممکنہ حد تک میں نے صحافی دوستوں سے تعاون کیا ہے۔

ایکسپریس: ادب کی طرف لگاؤ گھریلو ماحول کی وجہ سے ہے؟
مسعود احمد برکاتی: ادب سے لگاؤ خاندان سے ورثے میں ملا ہے۔ ہمارے گھر وسیع و عریض تھے۔ گھر میں والد، دادا کی لائبریری تھی جس میں جمع کی ہوئی ہزاروں کتابیں تھیں، جن میں زیادہ تر کتابیں قدیم موضوعات خصوصاً دین، فلسفہ اور تاریخ پر تھیں، لیکن ادبی موضوعات پر بھی جدید ادیبوں کی تصانیف تھیں۔ میں اس وقت صرف مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا ذکر کروں گا، جو میں نے بہت نوعمری میں پڑھا اور مولانا آزاد کی مشکل زبان کے باوجود میرے ذہن پر ان کا ’’لہجہ‘‘ اور انداز بیان چھاگیا۔ کچھ پیرے کے پیرے یاد ہوگئے۔ بہرحال میں نے کتابوں کے ماحول میں ذہنی نشوونما پائی۔

ایکسپریس: آپ کہاں پیدا ہوئے؟ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے۔
مسعود احمد برکاتی: میری تاریخ پیدائش10اگست1933 لکھی جارہی ہے، لیکن صحیح نہیں ہے۔ اصلی تاریخ مجھے یاد نہیں، لیکن وہ اس سے چند سال پہلے کی ہے۔ معلوم نہیں یہ غلط تاریخ کیسے عام ہوگئی۔ میں ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوا۔ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد ہوں جس نے انگریزی سیکھی اور پڑھی۔ میری والدہ محترمہ بشیرالنساء بیگم کی یہ دوربینی اور بصیرت تھی کہ انھوں نے مولویوں کی شدید مخالفت کے باوجود گھر پر استاد (ٹیوٹر) رکھ کر انگریزی پڑھوائی۔ اس وقت ہمارے خاندان میں دینی تعلیم ضروری تھی۔ عربی، فارسی ضروری تھی۔ جاگیردار گھرانا ہونے کی وجہ سے تعلیم صرف علم کے لیے دی جاتی تھی۔ کسی سند کی ضرورت اور اہمیت نہیں تھی، لیکن علم میں گہرائی اور وسعت ہونی ضروری تھی۔ کھیل کود تھا، مگر بہت کم، میں نے کرکٹ کھیلی مگر زیادہ دن نہیں۔

ایکسپریس: ٹونک سے وابستہ کچھ یادیں ہمارے قارئین سے شیئر کریں۔
مسعود احمد برکاتی: ٹونک کے بارے میں بتانے کے لیے تو وقت چاہیے۔ ٹونک صوبہ راجستھان کی اٹھارہ ریاستوں میں سے واحد مسلمان ریاست تھی۔ پڑوس میں ریاست جے پور اور شہر اجمیر تھا، جو خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اجمیر کوئی ریاست نہیں تھا، بلکہ مرکزی حکومت ہند کے تحت تھا۔ خواجہ صاحب کا عرس ہوتا ہے تو پورے ملک سے لوگ آتے ہیں اور مہینہ بھر بڑی گہماگہمی رہتی ہے۔ ٹونک بڑا علم وعالم دوست شہر تھا۔ وہاں شعروشاعری کا بہت چرچا تھا۔ شعرا کی کثرت اور بڑی قدر تھی۔ میرے بڑے بھائی مولانا حکیم محمودبرکاتی شہید بہت اچھے شاعر تھے۔ اسی طرح حفظِ قرآن کی تعلیم تھی۔ ٹونک کا ہر تیسرا آدمی حافظ قرآن تھا۔ میرے دادا علامہ حکیم سید برکات احمد صاحب بہت بڑے عالم اور طبیب تھے۔ ہندوستان سے باہر اسلامی ملکوں کے طالب علم ان سے استفادہ کرنے آتے تھے۔ ان کے قائم کردہ ’’دارالعلوم خلیلیہ‘‘ میں بھی کئی اہم علما درس دیتے تھے۔ ہزاروں طلبہ تھے۔ ان کی وجہ سے شہر کا ماحول دینی اور علمی تھا۔ مختصر یہ کہ ٹونک صنعتی اور تجارتی نہیں بلکہ علم دوست شہر تھا۔ زیادہ پیسے والے لوگ بھی نہیں رہتے تھے۔

ایکسپریس: اب تک کتنی کتابیں اور سفرنامے لکھ چکے ہیں؟
مسعود احمد برکاتی: اب تک لکھا تو بہت ہے۔ بڑوں کے لیے لکھنا شروع کیا تھا۔ نفسیاتی مضامین لکھے۔ متفرق موضوعات پر بھی لکھا، 1951 میں ماہنامہ ’’معاشیات‘‘ کراچی میں ’’اشتراکیت‘‘، ’’کارل مارکس‘‘، ’’تاریخ کی مادی تعبیر‘‘، ’’طباقی نزاع‘‘، ’’اشتراکیت‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کے عنوانات سے علمی اور غیرسیاسی مضامین لکھے۔ رسالہ ’’معاشیات‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو ، پاکستان سے جاری کیا تھا۔ جناب محمداحمدسبزواری اس کے ایڈیٹر تھے۔
1953 میں شہید حکیم محمدسعید نے بچوں کا ماہنامہ ہمدرد نونہال میرے سپرد کیا۔ مجھے بچوں کے لیے لکھنا پڑا۔ مسلسل 62 سال سے بچوں کے لیے لکھ رہاہوں۔ ہر سال اس کا ایک ضخیم خاص نمبر نکالتا ہوں۔ حکیم صاحب بچوں کے مستقبل کو قوم کا مستقبل سمجھتے تھے اور ہمدرد نونہال کی ترقی اور وسعت کے لیے ہر تجویز اور تدبیر سے خوش ہوتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ حکیم صاحب کی شہادت کو 15 سال سے زاید کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ اﷲ کی عنایت سے ہمدرد نونہال اسی باقاعدگی اور پابندی سے نکل رہا ہے۔ محترمہ سعدیہ راشد (صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان) بھی حکیم صاحب کی طرح دل چسپی لیتی ہیں۔ میری قابل ذکر تصانیف، تالیفات اور تراجم میں’’جوہرقابل‘‘ (مولانا محمدعلی جوہر کی کہانی اور کارنامے) ، ’’صحت کی الف بے‘‘،’’حکیم محمدسعید کے طبی مشورے‘‘،’’دو مسافر دو ملک‘‘ (اردو میں بچوں کا پہلا سفرنامہ)،’’مونٹی کرسٹو کا نواب‘‘ (الیگزینڈر ڈوما کے ناول کا ترجمہ)،’’پیاری سی پہاڑی لڑکی‘‘ (ترجمہ ناول)، ’’ایک کھُلاراز‘‘ (مجموعہ مضامین)، ’’وہ بھی کیا دن تھے‘‘ (ترتیب)، ’’ہزاروں خواہشیں‘‘ (چارلس ڈکنس کے ناول کا ترجمہ)، ’’صحت کے 99 نکتے‘‘، ’’فرہنگ اصطلاحات طب‘‘ (نظرثانی)، ’’چورپکڑو‘‘ (مجموعہ مضامین)، ’’تین بندوقچی‘‘ (تھری مسکیٹئرز کا ترجمہ) شامل ہیں۔
حکیم صاحب کی سوانح حیات ’’پروفائل آف اے ہیومینیٹیرین‘‘ مسز ڈی سلوا کے ساتھ شریک مصنف بھی رہا۔ ان کے علاوہ 20 سے 25 کتابیں وہ ہیں جو میں نے شہید حکیم محمدسعید کی تحریروں سے مرتب کیں، ان کی تفصیل حافظے سے بتانا مشکل ہے۔

ایکسپریس: بچوں کے لیے سفر نامہ ’’دو مسافر، دو ملک‘‘ کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی، اسے لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
مسعود احمد برکاتی: 1982 میں ماہنامہ ’’یونیسکوپیامی‘‘ (یونیسکو کوریئر) کی میٹنگ میں شرکت کے لیے ہمیں (شہید حکیم محمدسعید اور مجھے) پیرس جانا تھا۔ اس میٹنگ میں تمام دنیا سے رسالہ ’’یونیسکو کوریئر‘‘ کے مدیران آئے تھے۔ پیرس سے پہلے ہم لندن بھی گئے۔ پیرس کی میٹنگ بہت مفید اور کام یاب رہی۔ اس میں خاص طور پر چین اور ہندوستان کے مدیروں سے علیحدہ بھی ملاقاتیں رہیں۔ یہ دل چسپ اور مفید سفر خود اس بات کے متقاضی تھے کہ ان کو لکھا جائے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس سفرنامے کو اس طرح لکھا جائے کہ بچوں کے لیے بھی سبق آموز ہو۔ چناں چہ ’’دو مسافر دو ملک‘‘ کے نام سے اس سفر کے حالات ہمدردنونہال میں قسط وار لکھنے شروع کردیے جو بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی معلومات افزا ثابت ہوئے اور پھر ان کو کتابی صورت میں شائع کرنا ضروری لگا۔

ایکسپریس: آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیے۔
مسعود احمد برکاتی: میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کسی زبان پر عبور حاصل ہے۔ البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی اور روسی زبان پڑھی ہے۔ ان میں عربی اور روسی استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے فراموش ہوتی جارہی ہیں۔ عربی تو پھر بھی ثقافتی تعلق کی وجہ سے اور اردو ادب پر اپنے اثرات کی وجہ سے آس پاس رہتی ہے، لیکن روسی زبان تو میں نے بڑے شوق سے سیکھی تھی اور اس کے لیے روز انہ فرینڈشپ ہاؤس جاتا تھا۔ وہاں ڈاکٹر شریف صاحب روسی پڑھاتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور پڑھانے کے پُرخلوص انداز کی وجہ سے مجھ جیسے طالب علم کی دل چسپی اور لگن بڑھتی جاتی تھی۔ ڈاکٹر شریف صاحب نے ماسکو جاکر روسی زبان سیکھی تھی اور پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ اس لیے میرا اتنا لحاظ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ احترام کرتے تھے کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔ کیا بات تھی اُن کی علم دوستی کی، شاگرد کی حیثیت سے میں پریشان ہوجاتا تھا۔ افسوس کہ ڈاکٹر شریف صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ ایک نادر انسان تھے۔ فارسی سے ذہنی ربط زیادہ ہے۔ بچپن میں ’’کریما‘‘،’’ گلستان‘‘، ’’بوستان‘‘ پڑھنے اور اس کے بعد شبلی کی ’’شعرالعجم‘‘ کا مطالعہ فارسی سے قُرب پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فارسی اشعار خود بہ خود یاد ہوجاتے تھے۔ اردو تو زندگی کا حصہ ہے، روزانہ سیکھتا ہوں اور احساس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ میر کا یہ شعر آپ کو یاد ہوگا:
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا، ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم

ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی بچوں کو کتابوں سے دور کررہی ہے۔ اس صورت حا ل کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہییں؟
مسعود احمد برکاتی: جدید ٹیکنالوجی یا کہیے کہ سائنس کا عملی پہلو، اس دور میں سائنس اپنے عروج پر ہے۔ سائنس بھی اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا علم ہے۔ کلام پاک میں ہے؛
عَلّم الاِنسانَ مالَم یَعلَم (سورۂ علق آیت نمبر4)
یعنی،’’اﷲ نے انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘
اور یہ اﷲتعالیٰ کا دیا ہوا علم ہی ہے جس کی بدولت آج انسان کو دنیا کی ہر نعمت، ہر راحت، ہر سہولت میسر ہے۔ سائنس بھی اﷲ کے دیے ہوئے علم کا حصہ ہے۔ علم کی بدولت انسان پہلے خلا میں اور پھر چاند پر پہنچا۔ سرکاردوعالم رسول اللہ ﷺ کی معراج سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے جو علامہ اقبال کے الفاظ میں کچھ یوں ہے؛
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ ؐ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو برا نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ زمانہ گیا کہ مولوی صاحبان ریڈیو کو برا سمجھتے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اب یہ سب ایجادات انسان کو سہولتیں پہنچارہی ہیں اور انسان آگے بڑھ رہا ہے۔ بے شک کتابوں سے بچوں کی رغبت کم ہوگئی ہے، لیکن کتاب کی اہمیت ہے اور باقی رہے گی۔ کتاب سے دل چسپی برقرار رکھنے میں ماں باپ اور استاد بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے طباعت واشاعت کی سہولتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اب کتاب چھپنا پہلے کی طرح مشکل نہیں رہا۔ پہلے کتابت بھی ایک سخت مرحلہ تھا۔ اب کمپوزنگ اور نوری نستعلیق کی ایجاد نے طباعت و اشاعت کو بہت آسان کردیا ہے۔ اب بچوں کی کتابوں کو بہت باتصویر، پرکشش اور خوب صورت بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سائنسی پیش رفت ہے کہ بچوں کے لیے کتابیں پُرکشش بنائی جائیں۔

ایکسپریس: ہمدرد نونہال کی کام یابی کا سہر ا کس کے سر جاتا ہے؟
مسعود احمد برکاتی: بڑا مشکل سوال ہے۔ ہمدرد نونہال کی کام یابی کا سہرا سب سے پہلے تو نونہالوں یعنی رسالے کے قارئین کے سر بندھتا ہے۔ رسالے کو پسند کرکے انھوں نے ہمیں ہمت دی۔ شہید حکیم محمدسعید کو بچوں سے بڑا پیار تھا اور ان کی تعلیم و تربیت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ہمدردنونہال کے بانی وہی تھے اور نہ صرف بانی بل کہ اس کے معمار بھی وہی تھے۔ مجھے بچوں کے لیے لکھنے پر آمادہ بھی انھوں نے ہی کیا۔ پھر اُن سب ادیبوں اور شاعروں کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے جنھوں نے اس (نونہال) کے لیے لکھا اور اپنی تحریروں سے اس کو دل چسپ اور مفید بنایا، لیکن میرے لیے ان سب کا نام لکھنا مشکل ہے، جو نام ذہن میں آرہے ہیں وہ بتاتا ہوں:
’’حامداﷲ افسر‘‘، ’’علی ناصر زیدی‘‘ ،’’محشربدایونی‘‘،’’مسلم ضیائی‘‘،’’اشرف صبوحی‘‘،’’علی اسد‘‘،’’عشرت رحمانی‘‘،’’پروفیسر حبیب اﷲ رشدی‘‘، ’’مرزاظفربیگ‘‘، ’’محمدحسین حسان‘‘ ، ’’تسلیم الٰہی زلفی‘‘،’’قمر ہاشمی‘‘، ’’شاعرلکھنوی‘‘، ’’عبداﷲ خاور‘‘ ،’’غلام مصطفیٰ صوفی تبسم‘‘، ’’سید ابولانشا‘‘،’’وحیدہ نسیم‘‘،’’ماہرالقادری‘‘،’’ساقی فاروقی‘‘،’’عبدالحمید نظامی‘‘،’’عارف حجازی‘‘، ’’الطاف فاطمہ‘‘، ’’ایم اسلم‘‘، ’’کوثرچاندپوری‘‘، ’’سحرانصاری‘‘، ’’مناظر صدیقی‘‘، ’’حسن ذکی کاظمی‘‘،’’سلطان جمیل نسیم‘‘، ’’رفیع الزماں زبیری‘‘،’’طالب ہاشمی‘‘، ’’تنویر پھول‘‘ ، ’’سلیم فرخی‘‘، ’’پروفیسر انجم اعظمی‘‘،’’فتح علی انوری‘‘، ’’ڈاکٹر اسلم فرخی‘‘،’’غلام حسین میمن‘‘،’’ادیب سمیع چمن‘‘،’’حکیم ابراہیم شاہ‘‘، ’’اشتیاق احمد‘‘،’’ضیاء الحسن ضیاء‘‘،’’وقار محسن‘‘،’’نذیر انبالوی‘‘،’’ذکیہ بلگرامی‘‘،’’عباس العزم‘‘، ’’شان الحق حقی‘‘،’’ثاقبہ رحیم الدین‘‘، ’’ڈاکٹر اسد اریب‘‘،’’خانزادہ سمیع الوری‘‘، ’’حمیرا سید‘‘، ’’امان اﷲ نیر شوکت‘‘، ’’ناصرزیدی‘‘، ’’انور آس محمد‘‘، ’’نسرین شاہین‘‘،’’انورفرہاد‘‘،’’حکیم خاں حکیم‘‘،’’معراج (خواجہ محمد عارف)‘‘، ’’وقارمحسن‘‘،’’عصمت علی پٹیل‘‘،’’انورشعور‘‘، ’’فیض لدھیانوی‘‘،’’عبدالغنی شمس کھتری‘‘،’’عفت گل اعزاز‘‘ ،’’سرور بجنوری‘‘،’’احمدخاں خلیل‘‘، ’’احمدہمدانی‘‘، ’’سیدرشیدالدین احمد‘‘،’’ابرارمحسن‘‘،’’جمیل جالبی‘‘، اور ان کے علاوہ بہت سے نام ایسے ہیں جو اب حافظے میں نہیں ہیں۔

ایکسپریس: تقسیم سے قبل آپ نے اپنا ایک پرچہ بھی نکالا تھا۔ کیا دوبارہ کبھی اپنا پرچہ نکالنے کا خیال آیا؟
مسعود احمد برکاتی: میں نے اپنے دادا علامہ حکیم سیدبرکات احمدؒ کے نام پر ایک قلمی (ہاتھ سے لکھا گیا) رسالہ نکالا تھا، اسے میں کاتب صاحب سے لکھواکر شہر کی 2 بڑی پبلک لائبریریوں میں 10,10 دن کے لیے رکھوادیتا تھا۔ اس طرح پورا شہر اس کو پڑھ سکتا تھا۔ اُس زمانے میں طباعت بہت مشکل مسئلہ تھا۔ اس لیے ’’البرکات‘‘ قلمی ہی شائع ہوتا رہا۔

ایکسپریس: زمانۂ طالب علمی میں آپ کا شمار ذہین طلبا میں کیا جاتا تھا یا اوسط طالب علم تھے؟
مسعود احمد برکاتی: زمانۂ طالب علمی میں مجھے صرف ذہین نہیں بلکہ بہت ذہین کہا جاتا تھا اور شاید اس کی وجہ میرا لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ ورنہ دنیاوی اعتبار یا عام معیار سے دیکھا جائے تو مجھے ’’بہت ذہین‘‘ کہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

ایکسپریس: کس ادیب کو سب سے زیادہ پڑھا؟
مسعود احمد برکاتی: اُس زمانے کے تمام ہی مشہور ومقبول ادیبوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کو پڑھا۔ مطالعے کا شوق بچپن ہی سے ساتھ ہے۔ گھر میں باپ دادا کا کُتب خانہ تھا، باتیں بھی کتابوں، مصنفوں اور ادیبوں کی ہوتیں۔ اردو کے ادبی رسائل کے ساتھ ساتھ منٹو، کرشن چندر، بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانے بھی پڑھے۔ ’’مولانا ابوالکلام آزاد‘‘، ’’پروفیسر رشید احمد صدیقی‘‘،’’پروفیسر آل احمد سرور‘‘،’’حامد حسن قادری‘‘ کو بھی پڑھا۔ جدید مزاج کے ادیبوں میں احسن فاروقی اور محمد حسن عسکری کی تحریروں کا جستہ جستہ مطالعہ کیا۔ لیکن کسی ادیب کا نام اس لحاظ سے نہیں لے سکتا کہ میں نے اس کو سب سے زیادہ پڑھا۔

ایکسپریس: حکیم سعید شہید کی شخصیت کو آپ نے کیسا پایا؟
مسعود احمد برکاتی: حکیم محمدسعید ایک غیرمعمولی انسان تھے۔ کئی اعتبار سے وہ منفرد تھے۔ نہایت ذہین، مجسم عمل، متحرک، کام کرنے والوں کے قدر داں، نئی باتیں سوچنے والے، نئی باتوں کو خوشی سے قبول کرنے والے، وقت کے بے مثال قدرداں، ہمیشہ آگے دیکھنے والے، سادہ مزاج ، سادہ زندگی گزارنے والے تھے۔ انہوں نے کبھی سرمایہ جمع کرنے کی خواہش نہیں کی۔ کراچی میں ایک مکان تھا، اسی میں زندگی شروع کی اور آخری سانس تک اسی میں رہے۔ کوئی اور مکان یا جائیداد نہیں بنائی، جب کہ ہمدرد ادارے کے لیے کراچی اور پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں لاکھوں کروڑوں کی عمارتیں بنائیں۔ ہمدرد یونی ورسٹی کی تمام عمارتیں اور ہمدرد اسکول کی عمارتیں خود اپنی نگرانی میں بنوائیں، مگر ان میں سے کوئی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔ آخر تک اپنے لیے بس ایک کار رکھی۔

ایکسپریس: سعدیہ راشد صاحبہ حکیم سے کس طرح مختلف ہیں؟
مسعود احمد برکاتی: سعدیہ راشد صاحبہ حکیم صاحب سے بہت مختلف ہیں، لیکن انھی کی تربیت یافتہ ہیں۔ اسی انداز سے سوچنا، ویسے ہی اخلاق ، انکسار، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، سادہ مزاج، سادہ لباس، محنت کی عادی ، ممکنہ حد تک سوشل روابط کی پاس دار، ہمدرد فاؤنڈیشن کے نظام کو قائم رکھنے میں اور اس کے فلاحی کاموں کو جاری رکھنے میں کوشاں۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کی مطبوعات کو جاری رکھتی ہیں۔ ہمدرد صحت اور ہمدردنونہال کی بہتری و ترقی سے خوش ہوتی ہیں اور ان کی ترقی اور وسعت کی تدابیر خوشی سے قبول کرتی ہیں۔

ایکسپریس: نونہال اور ہمدردصحت دو الگ الگ میڈیم ہیں۔ دونوں کی زبان اور انداز ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ ایک ہی وقت میں دو الگ محاذوں پر کس طرح لڑتے ہیں؟
مسعود احمد برکاتی: بے شک دونوں رسالوں کے میدان اور دائرہ موضوعات بالکل مختلف ہیں۔ ہمدرد صحت اور ہمدرد نونہال کی زبان اور لفظیات میں بہت فرق ہے، لیکن عادت پڑگئی ہے۔ جب ایک رسالہ مکمل کرکے پریس بھیج دیتا ہوں تو دوسرا شروع کرتا ہوں اور اس کی تحریروترتیب میں اپنی ٹیم کے ساتھ ہمہ تن مصروف ہوجاتا ہوں۔ شوق اور محنت، یہ دونوں خصوصیات انسان سے بڑے بڑے مشکل کام کرواتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تم ہر مہینے دو بچے پیدا کرتے ہو۔ میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان بچوں کی پیدایش اور پرورش کے علاوہ دیگر انتظامی اور دفتری کام بھی ہیں۔ خط و کتابت ہے۔ ’’فون صاحب‘‘ بھی اپنی اہمیت منواتے ہیں۔ ملنا جلنا ہے۔ مشاورت کی میٹنگیں بھی ہوتی ہیں۔ غرض بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

ایکسپریس: کیا اپنے بچوں کو اپنا ورثہ منتقل کیا ہے؟
مسعود احمد برکاتی: جی نہیں، نہ ادب اور نہ دولت۔ دولت بس حسب ضرورت حاصل کی اور باعزت زندگی گزاری۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، لیکن ان کے مزاج اور میدان مختلف رہے۔ بس شریفانہ زندگی گزار رہے ہیں اور یہ بڑی بات ہے۔ میں نے اپنی زندگی خود بنائی۔ اگرچہ جاگیردار اور دولت مند گھرانے میں پیدا ہوا، لیکن آزادی اور ملک کی تقسیم نے سب کایا پلٹ دی، لیکن میری ماں کی تربیت ایسی ہے کہ اﷲ کا شکر ہے کہ غلط راستے پر نہیں گیا اور رزق حلال کے لیے کسی کام کو بُرا نہ سمجھا، نہ شرمایا۔ نہ ماضی کا ماتم کیا۔ چھے روُپے مہینے کی ایک ٹیوشن پڑھاکر اپنی معاشی زندگی شروع کی اور قدم جماکر چلا۔ کسی سے مدد نہیں لی اور ایک شریفانہ درمیانہ زندگی بسر کی۔

ایکسپریس: نئے ادیبوں کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گے؟
مسعود احمد برکاتی: نئے ادیبوں کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ جس ادیب کا اسلوب پسند ہو اس کی تحریروں کو اپنے ہاتھ سے نقل کریں، مگر عقل کے ساتھ!۔ زیادہ سے زیادہ لکھیں۔ اپنی تحریر پر پوری توجہ سے نظرثانی کریں۔
میں ایک بار ہمدرد نونہال میں ’’خوب نقل کرو‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں یہ باتیں لکھ چکا ہوں۔ ابتدا میں شائع ہونے نہ ہونے کی اتنی فکر نہ کریں اور لکھے جائیں۔ مطالعہ بھی ترک نہ کریں۔

ایکسپریس: آپ نے تراجم زیادہ کیے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟
مسعود احمد برکاتی: میں نے تراجم کیے ہیں، مگر زیادہ نہیں، اپنی تحریریں زیادہ لکھی ہیں۔ البتہ انگریزی کے بعض کلاسیکی ناولوں کو اردو میں ڈھالا ہے۔ ورنہ مزاجاً اپنی تخلیق زیادہ پسند آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔