غزہ اور آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بارے میں چند نکات

صابر کربلائی  اتوار 29 اکتوبر 2023

سات اکتوبرکی صبح غزہ کی سرزمین سے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کے مسلح گروہوں القسام اور القدس بریگیڈ نے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ایک جوابی کارروائی کا آغاز کیا جو مسلسل چار گھنٹوں تک جاری رہی اور سات مختلف شہروں میں یہ آپریشن کیا گیا۔ اس کارروائی کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کی عظیم الشان کارروائی کے بعد بائیس روزگزرچکے ہیں اور غزہ پر صیہونی جارحیت بھی جاری ہے، ہزاروں فلسطینی شہید بھی ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ مسلسل فلسطینی عوام پر صیہونی جارحیت کو نشر بھی کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ تمام تر صیہونی جرائم کی ذمہ داری فلسطینی عوام پر عائد کردی جائے۔

اس کالم میں کوشش کی گئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت اور غزہ کے عوام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا جواب دیا جائے اور زمینی حقائق کے بارے میں آگہی فراہم کی جائے۔ طوفان الاقصیٰ معرکے کا تجزیہ و تحلیل کرتے وقت تنہا ٹی وی رپورٹس پہ ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دنوں جو صورتحال الیکٹرانک میڈیا سے دکھائی جارہی ہے کہ مثلاً صہیونی رجیم کی وحشیانہ بمباری کے اثرات جس میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہریوں کی دلسوز شہادتوں اور تباہ شدہ عمارتوں کا بیان ہوتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں سوائے اشک وآہ و احساس شکست و آوارگی کے مخاطب کے لیے اور کچھ نہیں بچتا اور پھر بارہا یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آیا واقعتا حماس کا یہ آپریشن اتنا قیمتی ہے جس کے لیے اتنی بڑی قیمت ادا کی جا رہی ہے؟

یہ درست ہے کہ غزہ پر توڑے جانے والے مظالم سے آگاہی پھیلائی جائے، لیکن یہی کل داستان نہیں ہے۔ ایک داستان اور بھی ہے۔ حیرت انگیز طوفان الاقصیٰ آپریشن حماس کے دو سال کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے بعد شروع کیا گیا اور قطعی ہے کہ اس کے منصوبہ سازوں نے اچھی طرح اس کے تمام پہلوؤں، احتمالات، مد مقابل کے ممکنہ ردعمل سمیت اس کی بھاری قیمت کی ادائیگی کا لحاظ رکھا ہے۔

محمد ضیف جوکہ اس آپریشن طوفان الاقصیٰ کے مرکزی منصوبہ ساز ہیں، وہ گزشتہ چند سالوں سے اپنی تمام تر توجہ کو تین پہلوؤں پہ مرکوز رکھے ہوئے تھے۔ میزائل و راکٹ، ڈرونز اور غزہ شہر میں زیر زمین سرنگوں کا جال بچھانا۔ کیا یہ باتیں کسی ذرائع ابلاغ یا الیکٹرانک میڈیا پر بتائی جا رہی ہیں؟ غزہ کے زیر زمین بنائی جانے والی سرنگوں کی کل مسافت 500 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔

اذہان جھنجھوڑنے کے لیے بہتر ہے کہ یہ سمجھ لیں، ایران کے دارالحکومت تہران شہر میں میٹرو ریل250 کلومیٹر طویل ہے جبکہ انگلستان جہاں سب سے پہلے سب وے متعارف ہوئیں، وہاں بھی ان کی مسافت صرف400 کلومیٹر ہے۔غزہ کی یہ سرنگیں مکڑی کے جالے کی شکل میں بہت پیچیدہ ٹیکنیکوں کی حامل ہیں اور ان کی 3 بڑی کیٹیگریز ہیں۔

چھوٹی ( مسلح دستوں کی آمد ورفت سے مخصوص)، درمیانی (میزائلوں کو جا بجا کرنے کے لیے) اور بڑی (بھاری بھرکم اور بڑے ٹرکوں اور گاڑیوں کی حمل و نقل کے لیے)۔آپریشن طوفان الاقصیٰ کے پہلے دن سے آج تک روزانہ حماس کے دسیوں کمانڈوز غلاف غزہ اور صہیونیوں کے شہروں کے اندر صہیونی افواج سے نبرد آزما ہیں۔

یہ شہادت طلب جنگجو اسرائیلی فوجی تنصیبات ڈھاتے ہوئے ان کے فوجیوں میں رعب و وحشت پیدا کرتے ہوئے اپنے آپریشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔10فیصد سے زائد صیہونی آباد کار بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ ایک رعب و وحشت پورے اسرائیل پہ چھائی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد مقبوضہ سرزمین کے رہائشی فرار ہونے کے درپے ہیں۔

اسرائیل ابتدائی دنوں ہی سے مجبور ہے کہ ہوائی اور بحری جہازوں کو کرایہ پر حاصل کرے تاکہ ان لوگوں کو دیگر علاقوں میں منتقل کر پائے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان دنوں اسرائیل میں IDPs کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنے کا موضوع بھی گرما گرم ہے۔ اب تک پانچ لاکھ سے زائد ایسے پناہ گزینوں کو بسایا جا چکا ہے۔ ان IDPs کا ایک گروہ ایسے افریقی یہودیوں کا ہے جو ایتھوپیا اور سوڈان جیسے ممالک سے لاکر مقبوضہ سرزمینوں میں بسائے گئے تھے اور اب ان کی واپسی کے دروازے بند ہیں۔

پانچ لاکھ سے زائد امریکی جن کے پاس دہری شہریت ہے اور جو اسرائیل میں زندگی بسرکر رہے ہیں، ان کی اکثریت مقبوضہ علاقوں سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جسے نیتن یاہوکی حکومت نے اعلان کیا ہے۔ حماس نے تاحال کوئی آفیشل تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ ان دنوں اسرائیلیوں کی بھاری بمباری کا ہدف اگلے محاذوں پہ ڈٹے ہوئے حماس کے مجاہدین کے حوصلوں کو توڑنا ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو اسرائیلی فوج کے غزہ میں متوقع زمینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران زیادہ تر بمباری حماس کے رہنماؤں کے قریبی رشتے داروں کے گھروں پر کی گئی ہے اورگزشتہ دو روز قبل بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوئے ہیں۔مزاحمتی فورسز اسرائیل کی دفاعی لائن عبورکرکے اور غزہ کی سرحدوں کے اس پار طوفان الاقصی کے ذریعے عبور، سیکیورٹی کا معمہ بن چکا ہے۔

یہ دفاعی لائن جو 3 میٹر، 6 میٹر اور بعض جگہوں پہ 10 میٹر بلند دیواروں پہ مشتمل ہے اس پر مستزاد خاردار تار بھی لگے تھے کہ جن پہ چھوٹے بڑے ریڈار اور درجہ حرارت کے سنسرز والے کیمرے بھی نصب ہیں، اور یہ سارا نظام ایسے خودکار فائرنگ سسٹم سے اٹیچ ہے جو ذرا سی ہل جل پہ گولیوں کا پورا برسٹ خالی کردیتا ہے۔

الیکٹرانک سینسرز پہ مشتمل الارم، زیرزمین سرنگوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے کھودے گئے ٹینک جن میں معمولی ارتعاش سے بھی فورا باخبر ہوا جاسکتا ہے، زیر زمین بچھائے گئے سلاخوں کے جال، اور دلدلی زمین کہ کم ترین وزن والے موجود کے نشان جس پہ منقش ہوجاتے ہیں، یہ ان دفاعی لائنوں میں سے بعض کا حال ہے، تاہم حماس زمین و ہوا و زیر زمین میں موجود ان تمام رکاوٹوں کو کیسے عبور کرگئی؟

حماس نے اس سیمنٹ کی مضبوط دیوار میں زیر زمین 8سوراخ کیے اور صہیونیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جیسا کہ غیرمتناسب (Asymmetric) اورگوریلا جنگوں کی منطق کلاسک جنگوں کی منطق سے مختلف ہوا کرتی ہے، گراؤنڈ میں جو سائیڈ بھی غیر متزلزل ارادہ کی مالک ہو، عوامی حمایت اس کی پشت پہ ہو، نیزجدت و خلاقیت (Creativity) سے بہرہ مند ہو، علاقے کی باریک معلومات رکھتی ہو،جنگ کا پلڑا اسی کے حق میں جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا و انگلستان دونوں ہی غزہ پر کسی بھی قسم کی زمینی جارحیت کے خلاف ہیں۔ تھامس فریڈ مین نے چند روز قبل نیویارک ٹائمز میں اپنی یاد داشتوں میں نیتن یاہو کو غزہ پہ زمینی حملے کے خلاف خبردار کیا ہے کہ یہ ایک بدترین فیصلہ ہوگا کیونکہ کہتے ہیں کہ غصے میں تو ڈرائیونگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔