تہذیبی و ثقافتی حملوں سے نمٹنے کی ضرورت

آزادی اظہار کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی اور اظہار کے مغالطہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے


Editorial September 18, 2012
حالیہ امریکی گستاخانہ فلم سے پیداشدہ صورتحال تکلیف دہ اور اعصاب شکن ہے. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی ہدایت پر امریکا میں بننے والی دلآزار اسلام مخالف فلم کے باعث پاکستان میں یوٹیوب بند کر دی گئی۔

تاہم گستاخانہ فلم کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک میں گزشتہ روز بھی احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان بار کونسل کی اپیل پر ملک بھر میں وکلاء نے گستاخانہ فلم کے خلاف مکمل ہڑتال کی۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی اے کو توہین رسالت پر مبنی گستاخانہ فلم فوری طور انٹر نیٹ پر روک دینے کاحکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس طرح کے واقعات پر پی ٹی اے کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں اور کسی آرڈر کا انتظار کیے بغیر انٹرنیٹ پر تمام سائٹس بند کرنی چا ہئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس فعل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، گھیرائو، جلائو، اور ہلاکتوں کے بعد ایکشن میں آنا سمجھ سے با لاتر ہے، چیئر مین پی ٹی اے نے بتایا اب تک 753 ویب سائٹس کے لنک بلاک کیے جا چکے ہیں۔

سعودی عرب نے توہین آمیز فلم ریلیز کرنے پر امریکا سے سخت احتجاج کرتے ہوئے امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے کیے اپنے وعدے پورے کریں۔یوں دیکھا جائے تو مملکت خداد کے خلاف مغرب کی فکری،تخلیقی،صحافتی اور ثقافتی سطح پردخل در معقولات، اندوہ ناک چیرہ دستیوں اور توہن آمیز وارداتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،جب کہ اس متنازعہ اورگستاخانہ فلم کا مواد ناقابل بیان حد تک شرم ناک ، ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور گھنائونی صہیونی سازش ہے جسے ٹھنڈے دل ودماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

فلم کے خلاف رد عمل کو روکنا کسی کے بس میں نہیں لیکن اگر دشمنوں کی کوشش یہی ہے کہ پر تشدد رد عمل اور گھیرائو جلائو بھی پاکستان کی داخلی بربادی اور سیاسی انتشار کا سبب بن جائے تو پھر ہر ذی شعور اور محب وطن پاکستانی کو مغرب کے اس فریب کا شکار نہیں بننا چاہیے۔یورپی اور امریکی میڈیا نے مسلم خواتین کے لباس ، اسکارف ،حجاب اور برقعہ کے حوالے سے جو منفی ثقافتی پروپیگنڈہ کیا، پابندیاں لگائیں، اور اشتعال انگیز قوانین وضع کیے اس سے بھی اہل وطن کو آگاہ رہنے اور اس کا مدلل جواب دینے کے لیے چوکس رہنا چاہیے۔ملکی منظر نامے ہم سے خیرسگالی، پرامن بقائے باہمی اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا متقاضی ہے۔

ملکی سیاست بد قسمتی سے طوائف الملوکی کی زندہ تصویرہے ۔بلوچستان جل رہا ہے،لاپتا افراد کے عزیز اقارب دل گرفتہ ہیں، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کا ہولناک تسلسل جاری ہے،گلشن اقبال کے فلیٹ سے ماں بیٹی کی لاشیں ملی، دوہرا جی سوسائٹی میں فلیٹ کے ایک کمرے سے 80 سالہ فاطمہ بائی زوجہ اسماعیل جب کہ دوسرے کمرے سے ان کی بیٹی48سالہ شبانہ کی لاشیں ملیں۔

نارتھ ناظم آباد کے ڈی اے چورنگی کے قریب 2 موٹر سائیکلوں پرسوار 4 نامعلوم ملزمان کی کار نمبر Z-6767پر اندھا دھند فائرنگ سے 50 سالہ ڈاکٹر پرویز محمود سمیت 11 افراد جاں بحق جب کہ ان کے ساتھی 48 سالہ خلیق اﷲ زخمی ہوگئے جو اسپتال میں دم توڑگئے، مقتول ڈاکٹر پرویز جماعت اسلامی کے رہنمااورلیاقت آباد کے سابق ٹاؤن ناظم تھے ۔

مقتول کو کئی دنوں سے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں،ادھر گارڈن کے علاقے شو مارکیٹ ، باغ ہالار اور رام سوامی سے3 نوجوانوں کی لاشیں ملیں جنھیں اغوا کر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد سر پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، شناخت شیراز ولد لیاقت ، شفیع بلوچ ولد سعید بلوچ اور ظفر بلوچ ولد مشتاق بلوچ کے نام سے ہوئی،تینوں دوست اور لیاری چاکیواڑہ کے رہائشی تھے، صدیق وہاب روڈ سریا گلی سے سلمان کچھی ولد سلیم کچھی کی پھندا لگی لاش ملی۔

گرین ٹاؤن میں فائرنگ سے دودھ فروش21 سالہ ذیشان ولد عبد الغفار ہلاک ہوگیا،شاہ فیصل کالونی میں 32 سالہ فرحان کو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا،اورنگی ٹاؤن سیکٹرساڑھے گیارہ رحمت چوک کے قریب موٹرسائیکل سوار 2 ملزمان نے کار پر فائرنگ کرکے 45 سالہ ڈاکٹر شہزاد کو ہلاک کردیا، رامسوامی پٹرول پمپ والی گلی کے قریب سے بوری میں بند نامعلوم شخص کی ہاتھ پاؤں بندھی ہوئی لاش ملی۔ ملکی معیشت کا سب سے بڑا مرکز کراچی زخموں سے چور چور ہے۔ لاقانونیت کا لرزہ خیز منظر نامہ پنجاب میں بھی قیامت ڈھائے ہوئے ہے۔

بارشوں اور سیلاب سے لاکھوں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں۔خیبر پختونخواہ دہشت گردی اور قبائلی شورش کی زد میں ہے، بیروزگاری ،مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کے خاتمے کا کوئی سورج ابھرتا نظر نہیں آتا۔
یہی وقت ہے کہ ہمارا میڈیا عوام کوباور کرائے کہ سیاسی استحکام نہ ہوا تو ملکی سلامتی کو لاحق خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔

جہاں تک مغربی اور امریکی ہدایت کاروں اور فلمسازوں کی شرانگیزیوں اوراسلام دشمنی کا تعلق ہے تو وہ اس سے قبل بھی ایسی حرکتیں کرچکے ہیں ، گستاخانہ کارٹونوں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا ، عالم اسلام نے اس کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کیا تھا ۔ لاس اینجلس ٹائمز کے ایک مضمون میں گستاخانہ فلم کے حوالے سے ثقافتی جارحیت اور تہذیبی تصادم کا تاثر ابھارا گیا ہے تاہم اس مضمون میں ایک مصری ٹیکسٹائل ماہر کے حوالے سے یہ مدبرانہ سوال پوچھا گیا کہ '' جب مسلمان حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی ؑ کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو کیا ہم یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ ہمارے نبی اکرمﷺ کا بھی احترام کیا جائے۔''

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اب مسلم ممالک یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ نائن الیون کی دہشت گردی کے خلاف جنگ در حقیقت اسلام کے خلاف جنگ ہے۔در اصل یو ٹیوب یا فیس بک پر عارضی بندش یا اس پر آنے والے تحقیر آمیزاور شرانگیز موادکے حوالے سے اقدامات کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ ہمہ گیر نہیں تھا ۔اس سے قوم واقف ہے اصل میں آزادی اظہار کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی اور اظہار کے مغالطہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی قیادت نے سوال اٹھایا ہے کہ پیغمبروں اور آسمانی مذاہب کی شان میں گستاخی کو مجرمانہ فعل قرار دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ انگریزی فلمThe Davinci Code پر مسیحی روایات کو مسخ کرنے کے خلاف مصر، لبنان،اردن میں شور اٹھا تھا،اس کتاب پر بھی پابندی لگی تھی جس سے فلمی کہانی عکس بند کی گئی،فلم کمپنی کا مقامی امپورٹر گرفتار ہوا، فلم کی2000 ڈی وی ڈیزممنوع قرار پائیں، مصر میں تین ابراہیمی مذاہب کی توہین مسلمہ جرم ہے۔ نسل کشی('ہولوکاسٹ) کے خلاف مغرب یا امریکا میں کوئی اختلافی تقریر یا کتاب و کالم لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔اسی طرح اسلام سے مغرب اور امریکی میڈیا کی دشمنی کا کوئی جواز نہیں۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر مشرق و مغرب اور خاص طور پر پاکستان کو تہذیبوں کے نام نہاد تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں فلم آرٹ ،ویڈیو اور یو ٹیوب کو حربہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اس لیے مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔دلآزار فلم پر عالم اسلام کا اضطراب صد فی صد فطری ہے تاہم قومی سالمیت، سیاسی و اقتصادی صورتحال کے گھمبیرپن کا تقاضہ ہے کہ 18کروڑ اہل وطن ملک کو درپیش سماجی،سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کا ادراک کریں۔

حالیہ امریکی گستاخانہ فلم سے پیداشدہ صورتحال تکلیف دہ اور اعصاب شکن ہے ،اوروہ حالات بھی دردانگیز ہیں جو اس قسم کی دریدہ دہنی،فنکارانہ ابتذال،فکری انارکی اور تخلیقی کج روی سے پید اکیے جارہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ارباب اختیار پر پیدا شدہ صورتحال کے فوری ادراک اور مغرب کے تہذیبی وثقافتی حملوں سے نمٹنے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے امید کی جانی چاہیے کہ وہ قوم کی امنگوںکی حقیقی ترجمانی کریں گے۔

مقبول خبریں