صنعتی دور کا عظیم المیہ

حکومت کرپشن اور بدترین طرز حکومت کا شاہکار بنی ہوئی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 19, 2012
[email protected]

صنعتی دنیا کی تاریخ کا ایک بڑا المیہ کراچی میں رونما ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں صنعتی اداروں کے حالات یورپ کے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے صنعتی اداروں کی طرح ہیں۔

کراچی میں بلدیہ ٹائون کے علاقے میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں آتش زدگی میں تین سوکے لگ بھگ افراد کی ہلاکت کے بعد سندھ کے وزیر صنعت رئوف صدیقی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر کے اپنے محکمے کی نا اہلی کا تو اقرار کر لیا مگر تاریخ کے اس عظیم سانحے کی ذمے داری حکومت سندھ، لیبر ڈپارٹمنٹ، کراچی میونسپل کارپوریشن، بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی، سول ڈیفنس کے محکمہ، سوشل سیکیورٹی، وفاقی حکومت کی اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم سب پر عائد ہوتی ہے۔

ان سب کا احتساب کیسے ہو گا؟ یہ سوال ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔ علی انٹرپرائز کے سانحے کے بارے میں بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں، کچھ بڑے صحافیوں نے مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے کا قضیہ، کچھ نے دہشتگردی اور کچھ نے کاروباری لین دین کے جھگڑے کو اس سانحے کی وجوہات قرار دیا مگر ان سب محرکات کے باوجود قوانین کا نفاذ اور اچھی طرز حکومت Good Governance یہی وہ وجوہات ہیں جس نے غریب مزدوروں کو بھسم کر کے رکھ دیا۔

برصغیر میں جدید صنعتی دور کا آغاز برطانوی حکومت کے دور سے ہوا۔ برطانوی ہند حکومت نے صنعتی اداروں کی اجازت، انھیں منظم کرنے، مزدوروں کی تنخواہوں کا طریقہ کار اور حادثات سے بچائو کے لیے 1934 میں فیکٹری ایکٹ نافذ کیا۔ اس ایکٹ میں 1997میں ترمیم ہوئی۔ ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت کی یہ ذمے داری قرار پائی کہ کسی کارخانے کے قیام کی اجازت کے ساتھ اس میں فراہم کی جانے والی سہولتوں، مزدوروں کی اجرتوں کے ڈھانچے اور مزدوروں کے تحفظ کے لیے ضابطہ کار طے کرنے اور اس ضابطے کے نفاذ کے لیے افسران کا تقرر کرے۔

یہ افسران جنھیں لیبر انسپکٹر کہا جاتا ہے اپنے تقرر نامے کے تحت پابند ہیں کہ وہ فیکٹری کا ایک مقررہ وقت کے دوران معائنہ کریں، اس کا ریکارڈ چیک کریں اور فیکٹری کے نظام کے حقائق کی نشاندہی کریں اور اگر ادارہ ان کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے تسلی بخش اقدامات نہ کر سکے تو متعلقہ افسر اس فیکٹری کو سیل کرے اور اس پر جرمانہ کرے اور لیبر کورٹ میں مقدمات دائر کرنے کا پابند ہے۔ ہر کارخانے کی محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے۔

محکمہ داخلہ کے تحت قائم سول ڈیفنس کا شعبہ ہر صنعتی ادارے کا معائنہ کرنے اور حادثات کی صورت میں خاص طور پر آتشزدگی پر قابو پانے کے لیے نصب کیے گئے آلات کا معائنہ کرنے کا مجاز ہے۔ اس طرح حادثے کی صورت میں متبادل راستوں کی تعمیر اور ان کی نشاندہی کے نظام نہ ہونے پر وہ اس کارخانے کو سیل کرنے اور جرمانہ کرنے کا پابند ہے۔

بلڈنگ کنٹرول کے محکمے کا فرض ہے کہ وہ کارخانے کی عمارت تعمیر کے لیے پیش کیے جانے والے نقشے میں متبادل راستوں کی تعمیر کی نشاندہی کو یقینی بنائے۔ اس محکمے کے افسران کی ذمے داری ہے کہ اگر منظور شدہ نقشے سے ہٹ کر عمارت تعمیر کی گئی تو وہ تجاوزات کو منہد م کرنے کا فیصلہ کرے اور جب تک حفاظتی راستوں کی تعمیر یقینی نہ ہو جائے اس عمارت کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

سوشل سیکیورٹی کے محکمے کی ذمے داری ہے کہ کارخانے میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کا ریکارڈ اس کے پاس موجود ہو اور ہر مزدور کے پاس سوشل سیکیورٹی کا میڈیکل کارڈ ہو جنھیں سوشل سیکیورٹی کے اسپتال علاج معالجے کی سہولت فراہم کریں۔ کارخانے کا مالک اپنے حصے کی رقم ہر سال سوشل سیکیورٹی کو ادا کرے۔

ہر فیکٹری کے ملازمین کا اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن EOBI میں رجسٹر ہونا لازمی ہے اور کارخانے کی انتظامیہ ہر سال اپنے حصے کی رقم ای او بی آئی کو ادا کرے۔ ضلعی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں ضلعی افسران پولیس کی نفری کے ساتھ متاثرہ علاقے میں پہنچ جائیں اور علاقے میں حفاظتی ذمے داریاں سنبھال لیں تا کہ امدادی کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

کراچی میونسپل کارپوریشن کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ آگ بجھانے والے عملے کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، انھیں جدید آلات اور گاڑیاں فراہم کی جائیں اور شہر میں اتنے فائر اسٹیشن قائم کیے جائیں کہ حادثے کی اطلاع ملنے کے چند منٹوں بعد فائر بریگیڈ کا عملہ متعلقہ حادثے کے مقام تک پہنچ جائے۔

اب اگر کراچی میں بلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ای او بی آئی کا محکمہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اخباری رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فیکٹری محکمہ لیبر میں رجسٹرڈ نہیں ہے، اب تک دستیاب ریکارڈ کے مطابق محکمہ لیبر نے کبھی بھی اس فیکٹری کی انتظامیہ کے خلاف قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی اور محکمہ لیبر کے اعلیٰ افسران نے کبھی اس کے بارے میں کسی لیبر انسپکٹر سے کوئی بازپرس نہیں کی تھی۔

اس طرح سوشل سیکیورٹی کے عملے نے اس فیکٹری کے مالکان کو سوشل سیکیورٹی میں رجسٹرڈ ہونے، عملے کا ریکارڈ فراہم کرنے، عملے کو میڈیکل کارڈ دینے اور فیکٹری کی انتظامیہ سے قانونی واجبات وصول کرنے کے بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی، بتایا جاتا ہے کہ فائر بریگیڈ کو حادثے کی فوری اطلاع دی گئی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچیں۔ کراچی کے کمشنر کا کہنا ہے کہ فائر بریگیڈ نے حادثے کے دس منٹ بعد اپنا آپریشن شروع کیا تھا مگر پہلے جو دو گاڑیاں حادثے کی جگہ پہنچیں ان کا پانی چند منٹوں میں ختم ہو گیا، ان گاڑیوں کو ساحل سمندر پر جا کر پانی لانا پڑا پھر فائر بریگیڈ عملے نے پانی سے آگ بجھانے کی کوشش کی، اس کے لیے کسی قسم کا جدید کیمیائی مواد استعمال نہیں کیا گیا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمیائی مواد مہنگا ہوتا ہے اس لیے سرکاری ادارہ اس کو استعمال نہیں کرتا، پھر عملے نے عمارت کی دیواریں اور کھڑکیاں توڑنے میں دیر کر دی۔ کچھ صحافی کہتے ہیں کہ اس عملے کے پا س دیواریں توڑنے کا سامان موجود نہیں تھا۔ فائر بریگیڈ کے ذرایع کہتے ہیں کہ گاڑیوں میں یہ آلات موجود تھے مگر اس آپریشن کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے قیادت موجود نہیں تھی۔

آج کے جدید دور میں 30 گھنٹے بعد آگ پر بمشکل قابو پایا جا سکا۔ فیکٹری مالک کا ابتدائی بیان ہے کہ فوری طور پر آگ بھجانے کی ان کی درخواست سنی نہیں گئی۔ اس دوران فیکٹری کے مختلف کمروں میں پھنسے ہوئے مرد اور عورتیں موبائل پر اپنے رشتے داروں کو اپنے زندہ رہنے کی اطلاع دیتے رہے۔ کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صبح چار بجے تک عمارت میں پھنسے ہوئے افراد سے رابطہ تھا مگر عملہ ان کی مدد کو نہیں پہنچ پایا۔

جدید ٹریننگ اور جدید آلات نہ ہونے کے باعث بہت سے آدمیوں کو زخمی حالت میں عمارت سے نہیں نکالا جا سکا، ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اور ہجوم زیادہ جمع ہونے پر امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔

مزدور تحریک کے اراکین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مزدور تحریکوں کی بنا پر مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے، انھیں سہولتیں فراہم کرنے، صنعتی اداروں میں حفاظتی اقدامات کرنے کے لیے قوانین بنے اور ان پر عملدرآمد کیا گیا مگر جنرل ضیا الحق کے دور میں مزدور قوانین پر عملدرآمد کا سلسلہ روک دیا گیا۔ صنعتی اداروں میں مستقل ملازمین رکھنے۔

ان اداروں کے معائنے اور ان کے خلاف کاروائیوں پر عملاً پابندی عائد کر دی گئی، مزدوروں کو تقرر نامے دینے ان کا ریکاڈ رکھنے کا سلسلہ ختم ہوا، حکومت کے تمام محکموں کے انسپکٹروں کا کام صنعتی اداروں کی انتظامیہ سے ہر ماہ معقول رقم وصول کرنے اور جعلی رپورٹیں تیار کرنے تک محدود ہو گیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندوں نے بھتہ وصول کر کے صنعتی اداروں کی انتظامیہ کو سرکاری محکموں سے بچانے کا فریضہ اپنے ذمے لیا تھا یوں مزدوروں کے حقوق کی پامالی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔

المیہ یہ ہے کہ اس وقت وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے جس کی اساسی دستاویز میں مزدوروں کی عظمت کا ذکر ہے مگر یہ حکومت کرپشن اور بدترین طرز حکومت کا شاہکار بنی ہوئی ہے۔ یہ حادثہ اتنا خوفناک ہے کہ وزیر اعلیٰ سمیت متعلقہ محکموں کے وزرا کو مستعفی ہونا چاہیے اور تمام انتظامیہ کا احتساب ہونا چاہیے تا کہ تاریخ دان یہ لکھ سکے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے اپنی اساسی دستاویز کی پاسداری کی تھی۔

مقبول خبریں