نواز شریف اور نریندر مودی ملاقات

نصرت جاوید  منگل 27 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جرمن زبان سے انگریزی نے ایک اصطلاح مستعار لی ہے: Kitsch میں اس لفظ کا اُردو میں بہت عرصے سے متبادل ڈھونڈ رہا ہوں۔ بازاری، غیر معیاری اور دو نمبر کی فن کاری وغیرہ ذہن میں آتے ہیں۔ مگر یہ تمام الفاظ اس اصطلاح کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتے۔ اس لفظ کی سب سے بڑی خوبی اس عمل اور کیفیت کو بیان کرنا ہے جہاں کوئی صحافی، فن کار یا تجزیہ کار اپنی دانست میں نہایت سنجیدہ انداز میں اہم مسائل کو بیان یا ان کی تفہیم میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ اس کی اَن تھک اور شدتِ جذبات کی کاوشوں کے ذریعے لیکن جو کچھ بھی برآمد ہوتا ہے وہ انتہائی سطحی اور کھوکھلا ہوتا ہے۔ ماس میڈیا اکثر ایسی ہی حرکتیں کرنے میں مبتلا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر ٹیلی ویژن، جسے فنِ ابلاغ کے ایک گرو نے کئی دہائیاں پہلے Idiot Box قرار دے دیا تھا۔

مسئلہ ہمارا یہ بھی ہے کہ 24/7 ہمارے ہاں ابھی تک ایک نئی شے سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں۔ شاعری سنتے ہیں مگر اس ہنر کی باریکیوں پر غور نہیں کرتے۔ سنجیدہ تھیٹر کی ہمارے ہاں کوئی ٹھوس روایت نہیں۔ ایک زمانے میں فلمیں بنا کرتی تھیں۔ اب سینما ہائوسز کی جگہ پلازے بن گئے ہیں۔ لاہور میں مزاحیہ تھیٹر کی کافی بڑی مارکیٹ ہے۔ وہاں بھی جگتیں اب اتنی جاندار نہیں رہیں۔ کسی نہ کسی بہانے ٹیپ پر کوئی گرما گرم گانا لگا کر کسی رقاصہ کو تھرکتے ہوئے دکھانا پڑتا ہے۔

وقت گزاری کا آسان ترین طریقہ اب پاکستان میں یہی رہ گیا ہے کہ ریموٹ کا بٹن دبائو اور ٹیلی وژن چینلوں پر اپنی پسند کے پروگرام ڈھونڈنا شروع ہو جائو۔ نئی نسل کے لوگوں کو اگرچہ اب اسمارٹ فون مل چکے ہیں۔ وہ Skype اور دوسرے ذرایع کے ذریعے اپنے دوستوں سے مسلسل گپ بازی میں لگے رہتے ہیں۔ اب اپنی ذات سے مریضانہ حد تک پیار کو شدید تر بنانے کے لیے Selfie تصویروں کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

فی الوقت میرا موضوع مگر 24/7 کی Kitsch والی مجبوریاں ہیں۔ ہمارے ہاں ان مجبوریوں نے جو ’’چن چڑھا رکھے ہیں‘‘ اس کا عذاب مسلسل ہم ان دنوں بھگت رہتے ہیں۔ بس یہ جان کر ذرا مطمئن ہو جائیے کہ ہمارے ہاں 24/7 کے ذریعے پھیلائی جانے والی Kitsch ہمارے ازلی دشمن مگر قریبی ہمسائے کے مقابلے میں ابھی بھی کہیں زیادہ قابل برداشت ہے۔

بھارتی ٹیلی وژن کی Kitsch والی ’’مجبوریوں‘‘ سے میرا پہلا واسطہ کارگل جنگ کے دوران ہوا۔ بعد ازاں جنرل مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرہ میں ہونے والی Summit اس کی انتہا تھی۔ اس سمٹ میں شرکت کے لیے مشرف جب دلّی پہنچے تو ہر چیز بڑی Goody-Goody لگی۔ گاندھی کی سمادھی پر حاضری کے بعد وہ نہر والی حویلی میں واقع دو کمروں کے اس مکان کو دیکھنے بھی گئے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ اتفاق سے انھیں گود میں کھلانے والی ملازمہ بھی ان دنوں زندہ تھی اور تاریخ کا عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ نام اس کا ’’کشمیرن یا کشمیرا‘‘ تھا۔ واجپائی اور مشرف کی ملاقاتیں بظاہر ٹھیک ٹھاک کسی مثبت سمت جاتی محسوس ہو رہی تھیں کہ ایک صبح جنرل صاحب نے بھارت کے صحافیوں کے ایک بہت بڑے گروہ سے ناشتے کی میز پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔

جنرل مشرف اور ان سے سوال کرنے والوں کو گمان تھا کہ ان کی گفتگو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ہے۔ مگر مشرف کے کسی شاہ سے زیادہ وفادار مارکہ معتمد کو خیال آیا کہ ان کا ’’صاحب‘‘ تند و تیز سوالات کرنے والوں کو سپاہانہ بے ساختگی کے ساتھ مسلسل لتاڑ رہا ہے۔ یہ سب پاکستان میں “Live” دکھایا جائے تو رونق لگ جائے گی۔ کیمرہ پاکستان میں Live کٹ ہوا تو بھارت والے پیچھے کیوں رہ جاتے؟ ’’رونق‘‘ تو دونوں طرف خوب لگ گئی مگر اس کے نتیجے میں آگرہ سمٹ ناکام ہو گئی۔ مشرف اور واجپائی کو معاملات معمول پر لانے کے لیے فروری 2004 تک انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران دونوں ممالک کی افواج پورے ایک سال تک سرحدوں پر ایک حوالے سے گویا حالت جنگ میں Eyeball to Eyeball پوزیشنوں پر بھی براجمان رہیں۔

2004کے معاہدے سے مگر آگے بڑھنے کا واجپائی کو موقعہ ہی نہ ملا۔ وہ الیکشن ہار گئے۔ پھر من موہن سنگھ نے معاملات کو سنبھالنا چاہا تو مشرف بھی نہ رہے۔ ان کے استعفیٰ کے بعد ممبئی ہو گیا اور بھارت اور پاکستان ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آ گئے۔ بڑی کاوشوں کے بعد بالآخر بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی ایک صورت بنی۔ حنا ربانی کھر صاحبہ ان مذاکرات کے لیے نئی دہلی پہنچیں تو وہاں کے میڈیا نے ساری توجہ ان کے پرس، گلے کے ہار اور لباس پر مرکوز کر ڈالی۔ مذاکرات کے درمیان اصل مسائل کیا اٹھائے گئے اور معاملات کہاں اٹک گئے اس طرف کسی نے توجہ ہی نہ دی۔

اب نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ وہ اپنی جوانی میں RSS کے پرچارک کے طور پر ہندوازم کی تبلیغ کے لیے تیار کیے اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ اب سیاست بھی ڈرامائی انداز میں فرماتے ہیں۔ 30 سال بعد بھارت کا ایک بھاری اور قطعی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد انھوں نے سارک ممالک کے سربراہوں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے کا ایک ڈرامائی پتّا بھی کھیل ڈالا۔ ہمارے پاکستان میں لیکن مقامی طور پرایک نہیں تین چار ڈرامے بیک وقت جاری ہیں۔ ہمارے ٹیلی وژن والوں کو ان سے فرصت ملے تو مودی، نواز شریف معاملات پر بھی نگاہ ڈالیں۔

ہمارے بھارتی معاصر البتہ اس حوالے سے ان دنوں بڑے ’’ویلے‘‘ ہیں اور نواز شریف کے دورۂ بھارت کے حوالے سے کوئی Kitsch پکانے کو بہت بے تاب رہے۔ اب یہ بات تو عیاں ہو چکی کہ نواز شریف صاحب اس ضمن میں ان کے خاص کام نہیں آ سکتے تھے۔ لہذا ساری اُمیدیں مریم نواز شریف صاحبہ کی ذات سے باندھ لی گئیں۔ اپنے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے مریم صاحبہ نے بڑی ہوشیاری سے اس تاثر کو جھٹلایا کہ شاید وزیر اعظم پاکستان مودی کی دعوت قبول نہیں کریں گے۔ اپنی جگہ سرتاج عزیز، اسحاق ڈار کو بھیج دیں گے۔

بالآخر جب سرکاری طور پر اعلان ہو گیا کہ نئی دہلی نواز شریف ہی جائیں گے تو بڑے شاعرانہ انداز میں انھوں نے اپنے ٹویٹ پیغامات کے ذریعے اس فیصلے کو سراہا۔ ان کے مثبت فقروں کا بھارتی صحافیوں نے علی الاعلان بڑے جوش و خروش سے خیر مقدم کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ نئی دہلی آئیں گی۔ میرا دل دہل گیا۔ شدید خدشہ لاحق ہو گیا کہ میرے بھارتی ہم عصر ہمارے وزیر اعظم کی صاحبزادی میں حنا ربانی کھر ثانی تلاش کرنے کو بے چین ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ وہ ہمارے وزیر اعظم کے ہمراہ نہیں گئیں۔ حسین نواز گئے اور دلّی میں اپنے قیام کے دوران 24/7 کے انبوہ ’’بیپر(Beeper) فروشان‘‘ کے مسلسل نرغے میں رہے۔ صد شکر کہ Kitsch مگر پکایا نہ جا سکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔