احتساب۔۔۔!

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 6 جون 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

انسداد بد عنوانی کی وفاقی عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ٹڈاپ بدعنوانی اسکینڈل میں ملوث سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق سینئر وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، سابق ڈپٹی سیکریٹری محمد زبیر سمیت 9 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں اور انھیں گرفتار کر کے 17جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ایف آئی اے نے ملزمان کو مفرور قرار دیا تھا، چالان میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جب اڈیالہ جیل میں مقیم تھے تو ان کی ملاقات فیصل صدیق خان سے ہوئی تھی۔

2008ء میں جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو فیصل صدیق خان نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور مبینہ طور پر 50 لاکھ روپے کا چیک وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری محمد زبیر کو دیا اور جعلی کمپنیوں کے نام پر ایکسپورٹ سبسڈی کے طور پر کروڑوں روپے حاصل کیے اور اس کا کمیشن وزیر اعظم کے اکائونٹ میں منتقل کیا۔ سابق سینئر وزیر تجارت امین فہیم پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک معطل سرکاری افسرکو ڈائریکٹر مقرر کیااور ساز باز کر کے کروڑوں روپے حاصل کیے۔

اسی طرح سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے انھیں ساتھیوں سمیت 3 جون کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔  ہم نے ان تینوں محترم وزرا کا جن میں دو وزرائے اعظم بھی شامل ہیں ان پر عائد الزامات کے حوالے سے ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان تینوں محترم ہستیوں کا تعلق پیپلزپارٹی کی حکومت سے ہے جو 2008ء سے 2013ء تک ملک میں برسر اقتدار رہی اور اقتدار کے دوران اور اقتدار کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے چھوٹے اور بڑے میاں صاحب کی طرف سے تو 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران پی پی پی کی حکومت کو کھلم کھلا ’’علی بابا چالیس چور‘‘ کا نام دیا جاتا رہا ہے لیکن پی پی پی کی حکومت بننے کے بعد مسلم لیگ نہ صرف ان علی بابائوں کی حکومت میں شامل ہوئی بلکہ پورے پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن کا وہ کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار کوئی حکومت اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی۔

دونوں وزرائے اعظم اور سابق سینئر وزیر امین فہیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیسز کا تعلق بد عنوانیوں کے خلاف احتساب سے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرپشن کے حوالے سے ساری دنیا میں بدنام ہے جس ملک میں ایک ادارے کے معمولی سربراہ توقیر صادق پر 86 ارب کی کرپشن کا الزام ہو اس ملک میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی کرپشن کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔یہ بھاری رقوم عوام کی حالت بہتر بنانے کے بجائے حکمران طبقات کے بینک اکائونٹس میں چلی جا رہی ہے اور مقام حیرت و شرم ہے کہ ان اربوں روپوں کا مصرف سوائے دولت پر قبضہ جما کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے شاہانہ زندگی کو یقینی بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

مٹھی بھر خاندانوں کی آل اولاد کے پُر تعیش مستقبل کی خاطر اس ملک کے 18 کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام کے حال اور مستقبل کو تباہ کرنا کسی حوالے سے جائز کہلایا جا سکتا ہے؟کرپشن وہ بھی اربوں کھربوں کی کرپشن کے خلاف کوئی حکومت اقدامات کرتی ہے تو اس کی حمایت ہی کی جا سکتی ہے لیکن اس حوالے سے جو سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا چند مخصوص لوگوں کے احتساب سے ملک کے ایک ایک ادارے میں پھیلی ہوئی کرپشن کو روکا جا سکتا ہے؟ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے خود حکمران خاندان کے خلاف اربوں روپوں کی کرپشن کے کیسز عشروں سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

پی پی پی کے رہنما اگر یہ سوال کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف اسی اسپیڈ سے احتساب کیوں نہیں کیا جا رہا ہے جس اسپیڈ سے ان کے خلاف کیا جا رہا ہے تو حکمرانوں کے پاس اس کا جواب کیا ہوگا؟ حیرت کا مقام یہ ہے کہ دو سابق وزرائے اعظم ایک سینئر وزیر پر کرپشن کے جو الزامات ہیں ان کی مجموعی رقم سے دس گنا زیادہ کرپشن کا الزام صرف ایک بیوروکریٹ توقیر صادق پر ہے اور ہر قومی ادارے میں ایک سے زیادہ توقیر صادق بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ان حقائق کی موجودگی میں محض چند افراد کے خلاف احتساب سے ملک کرپشن کی لعنت سے پاک ہو  جائے گا؟ پی پی کے رہنما اگر اس احتساب کو ٹارگٹڈ احتساب اور سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں تو ان کے اس الزام کا دفاع کس طرح کیا جائے گا؟

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ایک معمولی کلرک اور چپراسی سے لے کر وزرائے اعظم تک سب اس لعنت میں گرفتار ہیں لیکن نچلے طبقات کی چھوٹی چھوٹی کرپشن محض ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے اس کرپشن میں ارتکاز زر کا کوئی خطرہ نہیں رہتا لیکن اعلیٰ سطحی کرپشن میں چند ہاتھوں میں اربوں کھربوں کا ارتکاز زر ہوتا ہے اور یہ دولت دولت کے عمومی سرکولیشن سے باہر نکل جاتی ہے، جس کا منطقی نتیجہ غربت میں اضافے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود غربت میں کمی کرنے کے لیے بے مقصد اقدامات کرتے ہیں اور غربت میں کمی کے لیے جو بھاری امداد اور قرضے غریب ملکوں کو دیے جاتے ہیں وہ بھی امیروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اور امین فہیم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ ’’مفاہمتی پالیسی‘‘ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ زرداری کے بیان سے دو باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ پیپلز پارٹی کے مذکورہ رہنمائوں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات درست نہیں بلکہ سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کی حقیقت کیا ہے!

یہ بات بہر حال سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی راجہ پرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم کے خلاف مقدمات حکومت کی انتقامی کارروائی ہے تو ایسے وقت میں جب ملک کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہی ہیں، عوام مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند طاقتیں دہشت گردانہ کارروائیوں کا ایک بار پھر بھرپور آغاز کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں، پیپلز پارٹی جیسی واحد فرینڈلی اپوزیشن سے اختلاف کا مطلب کیا ہے؟

احتساب پاکستان کی اولین ضرورت ہے لیکن احتساب صرف پیپلز پارٹی کے تین رہنمائوں کے خلاف کارروائی کا نام نہیں اگر احتساب کرنا ہی ہے تو پھر ان تمام سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف احتساب ہونا چاہیے جو اربوں روپوں کی جائیداد اور بینک بیلنسوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ان تمام ارب پتیوں کے اثاثوں کی مکمل طور پر غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق اور اثاثے چھپانے والوں کے لیے سخت ترین سزائوں سے احتساب کا آغاز ہونا چاہیے اور جن لوگوں کے خلاف عدالتوں یا نیب میں کیسز ہیں انھیں کم سے کم مدت میں نمٹا کر بے گناہوں کو بدنامی سے اور گنہگاروں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے تا کہ کم از کم اعلیٰ سطح پر ہونے والی اربوں روپوں کی کرپشن کو روکا جا سکے۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔