انسان کے لیے مچھر کی قربانی
اس دنیا میں ایک طرف ایک جانور ایسا ہے جو اس سے زیادہ تعداد میں انسانوں کو مارتا ہے...
یہ اعتراف تو ہم پہلے بھی کر چکے ہیں کہ حساب کتاب اور ریاضی کے معاملے میں ہم باقاعدہ سرٹیفائیڈ نالائق ہیں، ہندسوں میں اگر ہمیں کسی ہندسے یا ہندسوں کے بارے میں کوئی جانکاری ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود ''ایک ہندسہ'' ہیں
بسان نقش پائے رہرواں کوئے ملامت میں
نہیں اٹھنے کی طاقت اس لیے لاچار بیٹھے ہیں
لیکن پھر بھی جدید کالم نگاری میں کسی نہ کسی حد تک تو اعداد و شمار کے ذریعے بھی علمیت کا رعب گانٹھنا پڑتا ہے اس میں بھی جو ذرا زیادہ نازک مقامات ہیں مثلاً... امریکا میں کتنی فیصد خواتین طلاق یافتہ ہیں، ہالی وڈ میں کتنی ایکٹرسوں نے چار چار شادیاں کی ہیں مثلاً ایک پارٹی میں دو ایکسٹریوں کے بچے ایک میز پر اکٹھے ہوئے ایک ٹولی نے دوسرے سے پوچھا آج کل تمہارا ڈیڈ کون ہے، دوسری ٹولی نے دور کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ جو وہاں کھڑے ہیں، دوسری ٹولی نے کہا یہ تو بڑے اچھے آدمی ہیں ہم نے بھی اسے ایک مرتبہ بطور ڈیڈی کے استعمال کیا ہے۔ یہ سن کر آپ حیران ہو جائینگے کہ حضرت انسان اس کائنات کا سب سے مہذب اشراف المخلوقات اس دوڑ میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ ان سب کو اس کی انسانیت اور تہذیب و تمدن کا تجربہ بار بار ہو چکا ہے، یہ خود تو کہتا ہے کہ
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
لیکن خود اپنے لکھے پر جو چاہے کرتا پھرتا ہے کیوں کہ جانتا ہے کہ مقابل کوئی بولنے والا ہے ہی نہیں۔
یہ خود ہی مدعی اور منصف بننے والا مہذب انسان ایک سال میں پتہ ہے کتنے انسانوں کو اپنی تہذیب و تمدن اور ایجادات کا نشانہ بناتا ہے، تقریباً پانچ لاکھ وہ بھی صرف معمول کے سالوں میں اور اگر کہیں کوئی بڑی جنگ چھڑی یا کسی ایجاد کا تجربہ کرنا پڑا تو پھر تو، دیکھئے انداز گل افشانی گفتار... اور یہ بھی ہے کہ یہ صرف بلا واسطہ اور براہ راست مارنیوالوں کی تعداد ہے جو بالواسطہ یعنی دواؤں امراض ملاوٹوں اور سیاستوں کے ذریعے مارے جاتے ہیں ان کے لیے تو شاید اعداد و شمار بھی کم پڑ جائیں
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اس دنیا میں ایک طرف ایک جانور ایسا ہے جو اس سے زیادہ تعداد میں انسانوں کو مارتا ہے اور وہ مچھر ہے تقریباً 7لاکھ انسان مچھروں کے ہاتھوں مر جاتے ہیں لیکن ان میں ایک بھی ''مچھر'' نہیں ہوتا انسان کی فضلیت یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں مارے جانے والے''انسان'' 5لاکھ ہوتے ہیں جانوروں کا شمار نہ تو کوئی کر سکتا ہے اور نہ ہی کر سکے گا ایک سال میں یہ جتنے جانور صرف اپنے پیٹ میں اتارتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں بعض جانوروں کی تو نسلیں تک ختم ہو گئی ہیں کچھ ختم ہو رہی ہیں اور کچھ کم پڑ رہی ہیں اس لیے اپنا مارنے کا شوق پورا کرنے کے لیے یہ انھیں پالتا بھی ہے، مچھر سمیت سارے خطرناک جانوروں کے بارے میں یہ اعداد و شمار تو ملے ہیں کہ وہ سالانہ کتنے ''انسانوں'' کو مارتے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار بالکل بھی نہیں ملے کہ وہ اپنے ہم نسلوں کو بھی مارتے ہیں یا نہیں اور اگر مارتے ہیں تو کتنوں کو مارتے ہیں اور اگر نہیں مارتے تو کیوں نہیں مارتے البتہ انسانوں کے بارے میں سے اعداد سو فیصد مستند ہیں کہ 5لاکھ انسانوں کو سالانہ انسان ہی مارتے ہیں
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ نہ تھے کروبیاں
ایک اور بات جو پتہ چلی ہے یہ ہے کہ سارے جانور تو بھوگ لگنے پر مارتے ہیں لیکن انسان پیٹ بھرنے کے بعد مارنے کا شغل کرتا ہے، ثبوت کے لیے دنیا کا مالدار ترین اور طاقتور ترین بھر پیٹ ترین ملک امریکا پیش خدمت ہے جو دنیا بھر میں ''شکم سیری'' کے مظاہرے کرتا رہتا ہے جب بھی کوئی آلہ انسانیت بناتا ہے خوش ہو کر کہیں آزما لیتا ہے، ایک مرتبہ جب اس نے ایک بڑا ہی انسانیت دوست بم بنایا تو اتنا خوش ہوا اتنا خوش ہوا کہ ایک نہیں دو شہروں میں انسانیت کا مظاہرہ کیا پھر یہ کھیل اتنا پسند آیا کہ اس کے جیسے ہزاروں بم بنا ڈالے جو پوری دنیا میں انسانیت کا بول بالا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
دراصل اسے ''انسانی حقوق'' اور امن کی بڑی فکر رہتی ہے اس لیے دنیا کے کونے کونے پر نظر رکھتا ہے اور جہاں کہیں بھی ضرورت ہوتی ہے ''انسانی حقوق'' کو انسانوں تک پہنچاتا ہے اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ مرنا ہر انسان کا ''پیدائشی'' حق ہوتا ہے جس دن پیدا ہوتا ہے اسی دن اس حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کرتا اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے یا دیتا ہے بلکہ بعض اوقات تو منزل کے لیے ''دو گام'' چلتا ہے اور سامنے ''منزل'' آ جاتی ہے چونکہ اس میں ''جذبہ اخوت'' بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے دوسروں کو بھی ''منزل'' پر پہنچانے کے لیے مدد کرتا ہے، اعداد و شمار کی اس کہانی کا ہیرو مچھر ہے اس لیے اس سے انٹرویو کرنا بھی ضروری تھا، اپنے انٹرویو میں اس ہیرو نے بڑے بڑے انکشافات کیے اپنی خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ ''جمال ہم نشین'' کا اثر ہے بلکہ اس نے تو صاف صاف بتایا کہ اگر انسان نہ ہوتا تو وہ کارنامے تو کیا دکھاتا خود اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہوتا۔
یہ تو انسان ہے جو اس کی افزائش اور پالن پوسن کے لیے جگہ جگہ اس کی کالونیاں بساتا ہے گندے نالے گندے جوہر گندے ڈھیر جگہ جگہ بناتا ہے تا کہ ہم زندہ رہیں پائندہ رہیں اور شرمندہ بھی نہ ہوں، یہی وجہ ہے کہ ہم اس کے آس پاس ہی رہتے ہیں یا یوں کہئے کہ یہ خود ہمیں اپنے آس پاس ہی ایکموڈیٹ کیے رکھتا ہے ورنہ کھلی اور صاف ہوا میں جا کر ہم دو دن بھی رہ نہ پائیں انسان زندہ باد آدمی پائندہ باد... مچھر نے آخر میں انسانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نسل پر اس کے اتنے احسان ہیں کہ ہم خوشی اور رضا و رغبت کے ساتھ اپنے آدھے کارنامے اس کے نام کرتے ہیں اور تو اور ہماری جو نئی ترقی یافتہ اور ترقی داد نسل ڈینگی کی ہے اس کی نشوونما اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی یہ ہی کرتا ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا
کیونکہ آدمی وہ ہوتے ہیں جو صرف مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور انسان وہ جو مارنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔