دنیا بھر سے محض مردہ باد کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا

آخر مسلمان کب تک خود کے خلاف ہونے والے ظلم کو عالمی سازش کا نام دے کر مردہ آباد مردہ آباد کے نعرے لگاتے رہیں گے


فہیم پٹیل June 14, 2014
امریکا ایک بار پھر دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے عراق میں اپنی فوجیں بھیجنے کا سوچ رہا ہے یعنی جہاں دہشتگردی ہوگی وہاں امریکا بھی ہوگا۔ فوٹو: فائل

میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ آخر مسلمان کب تک خود کے خلاف ہونے والے ظلم کو عالمی سازش کا نام دے کر مردہ آباد مردہ آباد کے نعرے لگاتے رہیں گے۔ میں ایک سوال یہاں رکھنا چاہتا ہوں کہ جناب آخر دشمن کیونکر دوست سے بُرا ہوتا ہے؟ اِسی لیے نہ کہ وہ آپ کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور کچھ ہوجائے آپ کی بہتری اور بھلائی کے ہر ہر کام کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اگر ہمارے مخالفین یہ کام کرتا ہے تو ہم حیران اور پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ ہمیں پریشان تو اِس بات پر ہونا چاہیے کہ دشمن مسلسل ہمارے خلاف سازشیں کررہا ہے اور مجال ہے کہ ہم اُس کو روکنے کی کوشش کرلیں۔

گزشتہ ہفتے خبر پڑھی کہ عراق میں مسلح گروہ نے حملہ کردیا ہے لیکن فوری طور پر میں نے سوچا کہ امریکا کو تو یہاں سے گئے کافی وقت ہوگیا ہے اور یہ کہ یہ خبر تو پرانی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔ لیکن مجھے پوری خبر پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ اِس گروہ کا نام امریکا نہیں بلکہ دولت اسلامی عراق و الشام ہے جسے عام حرفوں میں آئی ایس آئی ایس کہا جاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ نے اِس تنظیم کا نام کبھی سُنا ہے یا نہیں مگر اِس ناچیز نے یہ نام پہلی بار ہی سُنا تھا۔ خیر یہ خبر پڑھ کر بالکل اُسی طرح اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا جس طرح ہر خبر پڑھنے کے بعد ہوجاتا ہوں۔ مگر حیرانگی تو اُس وقت ہوئی جب گزشتہ روز معلوم چلا کہ آئی ایس آئی ایس عراقی دارلحکومت بغداد سے صرف 20 کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں اور اُن کا مقابلہ عراقی فورسز سے جلد ہی ہونے جارہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں سوچ رہا تھا کہ عراقی فورسز اب تک کیا سوچ رہی تھی؟ آخر کیوں اِس گروہ کو اُس وقت نہ روکا جب وہ عراق میں داخل ہوگئے تھے اور بغداد سے صرف 20 کلو میٹر تک پہنچنے کا انتظار کیوں کررہے تھے۔ یاد رہے یہ وہی عراقی فورسز ہیں جنکو امریکا بہادر ٹریننگ دے کر گیا ہے اب نہیں جانتا کہ یہ امریکا کا نکمہ پن ہے یا پھر عراقی فورسز کا جو چند ہزارمسلح افرادسے اب تک نہیں نمٹ سکے ہیں۔

لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کہانی کچھ مختلف ہی ہو۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا کو 2014 میں افغانستان سے جانا ہے اور اب یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکا عراق سے نکل تو گیا مگرامن ناپید ہے اور مسلح افراد اب بھی وہاں موجود ہیں لہذا امریکا دہشتگردی کے خلاف لازم و ملزوم شہ ہے۔ اور شاید اِس لیے اِسی لیے امریکی صدر بارک اوبامہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ امریکا دہشتگروں کے خلاف عراق میں اپنی فوج بھیجنے سمیت تمام آپشنز پر غور کررہا ہے اور حتمی فیصلہ جلد ہی ہوجائے گا۔ تو یعنی معاملہ یہ ہوا کہ جہاں بھی حالات خراب ہونگے اور دہشتگرد اور مسلح افراد موجود ہونگے تو وہاں امریکا بہادر کی آمد یقینی ہوگی۔ اگر معاملہ یہی ہے تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور اگر حالات پر قابو نہ پایا جاسکا تو مسٹر اوبامہ کا یہی بیان پاکستان کے حوالے سے بھی آسکتا ہے کہ امریکا پاکستان میں اپنی فوج بھیجنے سمیت تمام آپشنز پر غور کررہا ہے۔ تو پھر؟ اگر کل کو ایسا بیان جاری ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟

خیر میرا تو خیال ہے کہ ہمیں اِس وقت بحثیت مسلمان مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اندورنی اخلافات اپنی جگہ لیکن اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ محض اخلاف رائے کی وجہ سے مخالفین کو یہ موقع دے دیا جائے کہ وہ آپ کے خلاف سازشیں کرنا شروع کردے۔ آخر کب ہم اُن سازشوں کو سمجھیں گے جس کے سبب پوری دنیا کا نقشہ تبدیل ہورہا ہے۔ ابھی تک تو ہم محض افغانستان عراق اور فلسطین کی بات کرتے تھے لیکن بات اب آگے بڑھتے جارہی ہے۔ اِس فہرست میں شام، اردن، مصر اور دیگر ممالک بھی مخالفین کی سازشوں کا حصہ بننے والے مسلم ممالک بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ایک کرکے پوری مسلم دنیا اِس کا حصہ بن جائے ہمیں کسی اور چیز کی نہیں مگر اتحاد کی اشد ضرورت ہے جو شاید اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔