افغانستان میں بڑھتے معاشی اور سکیورٹی مسائل کے باعث سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
فو کس نیوز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں عیدالفطر کے موقع پر سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے پیغامات میں یہ بات واضح طور پر نظر آئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں اعتدال پسند طالبان سخت پالیسیوں کو ختم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دے کر بیرونی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
عیدالفطر پر افغانستان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سےجاری کردہ بیان میں انہوں نے عالمی برادری کی تنقید کو بلاجواز قرار دیا۔ اس کے برعکس افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ایسے رویےسے اجتناب کریں جس سے افغان عوام ناخوش ہوں۔
افغان طالبان کی 2021 سے افغانستان پر حکمرانی کے بعد سے بالخصوص خواتین کو متاثر کرنے والی پابندیوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کو جنم دیا ہے اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید بڑھا دیاہے۔یاد رہے کہ طالبان نے خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم، ملازمتوں اور پارکوں جیسی عوامی جگہوں پر جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
قندھار میں طالبان کے مرکز میں واقع عیدگاہ مسجد میں افغان سپریم لیڈر نے بدھ کے روز دیے گئے خطبہ عید میں کہا کہ اگر کسی کو ہم سےکوئی مسئلہ ہے تو ہم اسے حل کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے اصولوں کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
اس کے برعکس سراج الدین حقانی کا عید پیغام دری اور پشتو میں تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عوام اور حکام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔ سراج الدین حقانی کا پیغام ہبت اللہ اخوندزادہ سے یکسر مختلف تھا جس میں انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجز کا حوالہ دیا۔
اس حوالے سے ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک بین الاقوامی برادری سے سرمایہ کاری اور امداد کا خواہاں ہے۔
پاکستانی صحافی اور مصنف احمد رشید کے مطابق طالبان کے اندر ایسے اعتدال پسند عناصر ہیں جو خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے وہ اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے بلاشبہ رٹ قائم کر رکھی ہے تاہم ان کے پاس لوگوں کے بیشتر سوالوں کا جواب نہیں ہے۔
سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان قیادت اور ان کے فیصلہ سازی کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔