نیشنل ایکشن پلان کیا ہے؟

جمیل مرغز  اتوار 28 اپريل 2024

فیض آباد د دھرنا کیس کی رپورٹ میں بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ کیونکہ تشدد‘ دہشت گردی اور ہر قسم کی بدامنی کے خلاف یہ ایک منظم اور موثر منصوبہ ہے۔اس پلان کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔حکمرانوں کی یاد دہانی کے لیے اس کا آخری حصہ اس امید کے ساتھ اختتام پذیر ہے کہ اس پر مکمل عمل درآمد ہوگا۔

نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات میں سے پچھلے کالم میں چار نکات کا جائزہ لیا گیا تھا، اب اگلے نکات کا مختصر جائزہ۔ اس کے ساتھ سب سے اہم ادارے نیکٹا کا دوبارہ جائزہ۔

(4) نیکٹا یعنی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا‘ نیشنل ایکشن پلان کا یہ بہت اہم نقطہ ہے ۔ پنجاب کے ایک سابق پولیس افسر مشتاق سکھیرا جب وہ آئی جی پنجاب تھے ، مجھے یاد ہے ، انھوں نے کسی ٹی وی چینل پر کہا تھا ‘کہ دہشت گردی کے خلاف نیکٹا فعال نہ ہوسکا ‘جو قابل افسوس ہے‘ ہم پولیس والے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق دہشت گردی اور عام جرائم کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔

یہ نات درست تھی کیونکہ دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا رہا ہے ‘آج بھی تمام انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔دسمبر 2014میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے بعد قائم کیے گئے نیکٹا کو فعال ہونا تھا ‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں جب کہ پاکستان تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے وفاقی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ ایم آئی اورایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ‘ تمام صوبوں کے آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری صاحبان‘ سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ لیکن اس اتھارٹی کے بورڈآف گورنر ز کا اجلاس باقاعدگی کے ساتھ نہیں ہورہا۔

(9) مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا‘ لیکن یہاں بھی مایوسی ہے ، کوئی پراگرس نہیں ہے۔ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے ۔

(10) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو ریگولر کرنا ، اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوںکی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ ایک وفاقی اسلامک ایجوکیشن کمیشن (IEC)بنانے کی باتیں سنی گئی تھیں ‘تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دینی مدارس کی منیجمنٹ سسٹم اور سلیبس کو منظم کیا جاسکے اور دینی مدارس کے طلباء کو پڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی بھرتی کی جائے ‘یہ ادارہ ان مدارس کی ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس کی تصدیق بھی کرے گا‘ مالی مدد بھی کرے گا،اس سلسلے میں کوئی بھی اچھی خبر نہیں آئی بلکہ تحریک انصاف کی وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت سرکاری خزانے سے مدارس کی فنڈنگ کرتی رہی، پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بھی اسی روش پر چلتی رہی‘ کیا معلوم یہ بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہو؟

(11)میڈیا میں دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو گلوریفائی،کرنا اور ان کو ہیرو بناکر پیش کرنا کو بند کرنا‘ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آیا ‘ آج بھی متعدد اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز دھڑلے سے سرگرم ہیں‘بلکہ اب توعمران خان بھی اپنی تحریک کو جہادکہہ رہا ہے۔

(12) فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کرنا ۔ یہ نکتہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا ‘ان علاقوں میں قانون کی عملداری نہ ہو نے کی وجہ سے یہ علاقے دہشت گردوں اور انڈر ورلڈ مافیا کا گڑھ بن گئے تھے اور پورا ملک خصوصاً خیبر پختونخوا خون میں نہلا گیا تھا ‘ انگریز ی سرکار نے اپنے نوآبادیاتی مفادات کے حصول کے لیے ان علاقوں کو سر زمین بے آئین رکھا تھا‘ادارہ جاتی سسٹم کے بجائے پورا فاٹا اور پاٹا انگریز کے وظیفہ خوار خوانین و مشران و ملکان کے حوالے کردیا، اب سابقہ فاٹا اور سابقہ پاٹا میں بسنے والے ان پسماندہ اور غریب پختونوں کو بھی انسانی زندگی گزارنے کا حق تو حاصل ہو نا چاہیے‘ ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے بعد یہاں پر امن و امان کی طرف توجہ دی جائے اور یہاں کے عوام کو انسانی حقوق اور انصاف تک رسائی دی جائے ‘اس سلسلے میں بھی پراگرس نظر نہیں آرہی‘بلکہ آجکل ان علاقوں میں دہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے‘بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہو گئی ہے۔

(13)دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام مکمل طور پر ختم کیا جائے گا‘یہ بات صحیح ہے کہ آپریشن ضرب عضب نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘لیکن اب ’’اچھے‘‘ طالبان اپنے ملک اور عوام کے مفادات کے خلاف سرگرم ہیں۔ (14) انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور منظم مہم چلانا ‘ یہ مہم کب چلے گی ، اس کا جواب پالیسی سازوں کے پاس ہوگا؟لبرل ذہن کے لوگ تو پہلے ہی اپنے طور پر دہشت گردی کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں لیکن حکومتی سطح پر کسی اقدام کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے۔

(15) ملک میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں رہنے دیا جائے گا‘اس نکتے پر عمل درآمد کے لیے انتہاپسند تنظیموں، ان کے عہدیداروں، فنانسرز اور سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں کثیر الجہتی آپریشن کی ضرورت ہے۔

(16) کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘اس پر عمل درآمد ہو ا ہے ‘لیکن محسوس ہوتا ہے کہ زیرزمین شرپسند ایک بار پھر حالات خراب کرنے کے کارروائیاں کررہے ہیں ‘کراچی میں بھی مختلف قسم کی انتہا پسند تنظیموں کانیٹ ورک مضبوط ہے۔

(17)بلوچستان کوخصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں صرف مذہبی نہیں بلکہ قوم پرستی کے نام پر بھی دہشت گردی ہو رہی ہے‘ بلوچستان میں سماجی تبدیلیاں لانے کے لیے اقدامات کے ساتھ انتظامی نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔(18) فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات کے محاذ پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے بھائی کہلانے والے ملکوں کی باہمی آویزش پاکستان میں بھی پراکسی کی صورت میں آنے کا خدشہ ہے ۔

(19) افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی کی تشکیل کرنا ۔اس سلسلے میں کچھ پراگرس نظر آتی ہے ‘ عالمی اداروں کے ساتھ مل کر تمام افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا حتمی پروگرام بنایا جائے‘ضروری ہے کہ اس مسئلے پر وفاق اور صوبوں کی پالیسی یکساں ہو‘اب تو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بھی قائم ہو گئی ہے لہٰذا افغان باشندوں کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

(20)فوجداری نظام عدل میں اصلاحات لانا۔دہشت گردی کا تو ذکر کیا ؟موجودہ فوجداری قوانین اور عدالتی نظام تو عام مجرموں کو سزا دینے کے قابل نہیں ‘قانون میں اصلاحات اور عدالتی نظام میں بہتری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ‘خاص طور ایسی پولیس اور پراسیکیوشن کی تشکیل جو خاص طور پر دہشت گردی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوا سکے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ’’ہمارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ‘‘۔ملک کو پچھلے 40 سالہ گند سے صاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے‘ملک کے ہر شعبے کو مذہبی انتہا پسندی نے متاثر کیا ہے‘ NAP کے ایجنڈے کے ان 20 نکات میں ہر نکتہ اپنی جگہ اہم اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے ‘اس کے لیے ضروری ہے کہ ایجنڈے کے ہر پوائنٹ پر کام کرنے کے لیے الگ الگ ماہرین کے گروپ یا تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کو ایک متعین مدت میں ٹھوس سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا کہا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں واحد رکاوٹ صرف حکومت کی نااہلی ہی ہو سکتی ہے۔

(آخری حصہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔