قانون ’’جیب و شکم ‘‘ کا نفاذ

گمبھیر : سمجھنے کے لیے میں آپ کو قدیم زمانے میں لے چلنا چاہوں گا جب مملکت ناپرسان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا


Saad Ulllah Jaan Baraq July 18, 2014
[email protected]

یہ بریکنگ نیوز تو آپ نے سن ہی لی ہو گی کہ مملکت ناپرسان میں ''جیب اور پیٹ'' پر پابندی لگا دی گئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دے دیا گیا ہے کہ ''جیب و شکم'' والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔

اگر پوچھا جائے تو مملکت ناپرسان کی سب سے بڑی پیداوار کیا ہے تو دو سال کا بچہ اور دو سو سال کا بوڑھا دونوں ہم آواز ہو کر بولیں گے کہ مسائل یہ تازہ ترین جو مسئلہ جیب و شکم پیدا ہوا ہے کم از کم وہ مسئلہ ''جیب و شکم'' نہیں ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کے شامل حال رہا ہے وہ مسئلہ تو دراصل اسی دن سے پیدا ہوا تھا جب کسی کم بخت شر پسند اور انسانیت دشمن شخص نے ''جیب'' کی ایجاد کر لی تھی اس سے پہلے انسان بڑے آرام سے رہ رہا تھا اور صرف ''پیٹ'' تک محدود تھا جو کچھ بھی پا لیتا تھا پیٹ میں ڈال لیتا تھا اور پیٹ بھر جاتا تھا تو آرام سے بیٹھ جاتا تھا لیکن اس کم بخت جیب کی ایجاد نے اس فراغت آرام اور قناعت کی زندگی کا خاتمہ کر دیا، نوبت بہ ایں جا رسید کہ بے چارا پیٹ بھی اس کم بخت جیب کے ماتحت ہو گیا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ آپ حیران ہو رہے ہیں کیوں کہ یہ بریکنگ نیوز ہے ایسی ۔۔۔

اینکر : جناب یہ مسئلہ جیب و شکم ہے کیا؟

گمبھیر : سمجھنے کے لیے میں آپ کو قدیم زمانے میں لے چلنا چاہوں گا جب مملکت ناپرسان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا

گمبھیر : جی ہاں حکومت نے اس کے لیے خاص قسم کے ڈاکٹروں کو مقرر کر دیا جو پندرہ گریڈ سے اوپر یا اس سے زیادہ یا اس کے مساوی ڈگری رکھتے تھے

اینکر : اچھا

گمبھیر : یہ علاج بالکل مفت تھا لللہ فی اللہ اور بغیر کسی کوشش کے ۔۔۔ یہ کام ڈاکٹروں پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ جس میں مرض کے علامات دیکھیں ٹریٹ منٹ کر دیں

اینکر : یہ تو اچھی بات ہوئی پھر بیج میں یہ جیب و شکم

گمبھیر : سارے فساد کی جڑ تو یہی دونوں ہیں ۔۔۔ جیب و شکم

چشم : یہ تو میں بھی مانتا ہوں یہ جیب و شکم بڑے فسادی ہوتے ہیں میرے پڑوس میں بھی ایک خورجین نما جیب اور ایک مٹکا نما شکم رہتے ہیں

علامہ : تمہارا اشارہ میری طرف تو نہیں ہے

چشم : تم کوئی لڑکی ہو جس کی طرف اشارے

اینکر : خاموش، چپ، خبردار جو تم دونوں نے منہ کھولا

علامہ : میں تو ویسے بھی کھانے کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے منہ کھولتا نہیں

اینکر : گمبھیر صاحب آپ ذرا جیب و شکم اور قانون تحفہ ناپرسان پر تفصیلی روشنی گھمائیں

گمبھیر : ہاں ۔۔۔۔۔

لیجیے سنئے اب افسانہ ''عبرت'' مجھ سے

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

اینکر : ارشادیئے'

گمبھیر : قصہ یوں ہوا کہ جب قانون ''تحفہ ناپرسان'' لاگو ہوا تو دو سال کے لیے تھا لیکن لوگوں کو اتنا پسند آیا خاص طور پر پولیس اور سرکاریوں کو تو اس سے عشق ہو گیا

اینکر : اور عوام

گمبھیر : عوام کو بھی ۔۔۔ کیوں کہ مہنگائی بے روزگاری اور لیڈروں کی وجہ سے تو وہ یوں بھی خودکشی پر مائل ہو رہے تھے چنانچہ یہ قانون ان کے لیے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں تھا

اینکر : ذرا اور تفصیلیے

گمبھیر : دیکھو نا ۔۔۔۔ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، اگر اسے مفت میں زندگی کے بوجھ سے نجات ملے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے

اینکر : اچھا پھر

گمبھیر : پھر یہ ہوا کہ لوگ اس قانون اور سرکاری مفت کی گولیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے لگے

اینکر : وہ کیسے؟

گمبھیر : تلاشی لینے پر اس شخص کی جیب سے صرف شناختی کارڈ نکلتا ہے لیکن اب گولی تو واپس نہیں آ سکتی

اینکر : ہاں

گمبھیر : دوسرا واقعہ ایک شخص جا رہا ہے قانون نافذ کرنے والوں کو شک ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ بارودی مواد باندھے ہوئے ہے چنانچہ وہ اسے گولی مارتے ہیں مگر تلاشی لینے پر وہ بارودی مواد نہیں بلکہ اس کا پھولا ہوا شکم نکلتا ہے

اینکر : اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گمبھیر : اس قسم کے واقعات جب عام ہونے لگے تو مجبوراً حکومت کو ''جیب و شکم'' پر پابندی لگانا پڑی اب مملکت ناپرسان میں چنری کے نیچے اور چولی کے پیچھے شکم لیے پھرنا جرم ہے

اینکر : مگر جیب شکم والوں کو گولی مارنے سے حکومت کو کیا تکلیف ہے

گمبھیر : کمال ہے گولیاں کیا مفت میں آتی ہیں اور پھر قانون نافذ کرنے والوں کو تکلیف جو اٹھانا پڑتی ہے لوگ تو خود کو گولی مروانے کے لیے کچھ بھی کریں گے۔

مقبول خبریں