کرکٹ بورڈ کی چونچ اور دم

ایاز خان  منگل 22 جولائی 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کرکٹ بورڈ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے نے مجھے دکھی کر دیا ہے۔ یہ پہلا ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد نجم سیٹھی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ عرصے سے میں اس بات کا قائل ہو گیا تھا کہ پی سی بی اور نجم سیٹھی لازم و ملزوم ہیں۔ میرا یہ یقین بلاوجہ نہیں تھا۔ آپ کو اگر کوئی شبہ ہے تو ان حالات کا تجزیہ کریں جن میں سیٹھی صاحب کو چیئرمین پی سی بی بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ذکاء اشرف اور موصوف کے درمیان عدالتوں میں جنگ لڑی جاتی رہی۔

اس عدالتی جنگ میں ذکاء اشرف کو عارضی فتوحات ضرور ملیں مگر طویل مدت کی کامیابی سیٹھی صاحب کا ہی مقدر بنتی رہی۔ اس دوران عدالت کی طرف سے کوئی فیصلہ ہوا یا جسٹس صاحبان نے دوران سماعت جب بھی ریمارکس دیے۔ وہ ریمارکس یا فیصلے بظاہر سیٹھی صاحب کے خلاف بھی تھے تب بھی حتمی فائدہ انھیں ہی ہوا۔ حکومت نے بھی اگر کوئی فیصلہ کیا تو اس کا نتیجہ بھی سیٹھی صاحب کے حق میں ہی نکلا۔ عہدے پر کشش ہوتے ہیں اور ایک بار کسی کو کوئی عہدہ مل جائے تو وہ اسے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔

یورپ اور امریکا میں صورتحال دوسری ہے وہاں بڑے سے بڑا عہدہ بھی چھوڑنے پر لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی گورا وزیر کسی چھوٹے موٹے حادثے کی ذمے داری لیتے ہوئے وزارت چھوڑ دے گا۔ وزیروں کی کیا بات وزیراعظم کو بھی احساس ہو جائے کہ حکومت چلانا اس کے بس میں نہیں تو وہ استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں البتہ لوگ تاحیات ’’معاہدے‘‘ کے تحت کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ نجم سیٹھی خوش قسمت رہے کہ پہلے انھیں پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بننے کا موقع مل گیا۔ ان کا نام پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا لیکن اس کے بعد جب مسلم لیگ ن جیت گئی تو وہ میاں صاحبان کے کافی قریب ہوگئے۔

انھیں پی سی بی کا چیئرمین بنایا گیا۔ یہ عہدہ بھی نگران وزارت اعلیٰ جیسا تھا۔ نگران یا عبوری چیئرمین کا اصل کام تو یہی ہونا چاہیے تھا کہ وہ پی سی بی کا آئین بناتا اور الیکشن کرا کے گھر چلا جاتا۔ مجھے یاد ہے آخری بار جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے ذکاء اشرف کی بحالی کا حکم دیا تھا تو سیٹھی صاحب نے کہا تھا کہ وہ تو الیکشن کی تیاری کررہے تھے اور یہ الیکشن کراکے وہ گھر چلے جاتے۔ اس کے بعد نجم سیٹھی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

عدالت عظمیٰ نے انھیں بحال کر دیا البتہ ان سے یہ استفسار ضرور کیا گیا تھا کہ کیا وہ رضا کارانہ طور پر یہ عہدہ چھوڑنے پر راضی ہیں۔ نجم سیٹھی نے اپنے پورے کیرئیر میں اتنی تنقید برداشت نہیں کی ہو گی جتنی بطور چیئرمین پی سی بی انھیں برداشت کرنا پڑی۔ وہ تنقید کے جواب میں ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ انھیں وزیراعظم نے اس عہدے پر بٹھایا ہے اور وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ غلط نہیں تھا۔ ڈیڑھ‘ دو ہفتے پہلے وزیراعظم سے چیئرمین پی سی بی کی جو ملاقات ہوئی اس میں موصوف کی باضابطہ تعریف کی گئی تھی۔

عمران خان نجم سیٹھی پر جو مرضی الزام لگاتے رہیں، میرا خیال ہے سیٹھی صاحب سے زیادہ حکومت کی یہ دلچسپی تھی کہ وہ انھیں پی سی بی کا چیئرمین برقرار رکھے۔ ذکاء اشرف کو جس طریقے سے ہٹایا گیا اس نے حکومت پر تو تنقید کا در کھولنا ہی تھا‘ نجم سیٹھی بھی اس کی زد میں آگئے۔ ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے پاکستان کرکٹ بورڈ کا پیٹرن ان چیف صدر کی جگہ وزیراعظم کو بنا دیاگیا تھا‘ اس ’’مشکل‘‘ مرحلے کو طے کرنے کے بعد وزیراعظم نے ذکاء اشرف کو فارغ اور سیٹھی صاحب کو صاحب روز گار بنا دیا۔

وزیراعظم یہ فیصلہ کرکے دیگر اہم ملکی و غیر ملکی امور میں مصروف ہو گئے۔ ادھر ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی میں عدالتی جنگ شروع ہو گئی۔ اس دوران کئی اتار چڑھائو آئے مگر پلڑا ہمیشہ سیٹھی صاحب کا بھاری رہا۔ میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں ’’کرسی‘‘ نے سیٹھی صاحب سے وفا کی۔ آج جب اس کھیل کا ڈراپ سین ہوا ہے تو مجھے صوفی تبسم کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظم یاد آ رہی ہے۔ اس کا ایک شعر پیش خدمت ہے

لڑتے لڑتے ہو گئی گم

ایک کی چونچ اور ایک کی دم

سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 7 دن میں پی سی بی کا عبوری چیئرمین اور انتخابات کے لیے الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے ۔ نجم سیٹھی نے سپریم کورٹ میں بتایا کہ وہ چیئرمین کا الیکشن نہیں لڑیں گے۔ نجم اس وقت گورننگ بورڈ کے رکن ہیں۔ چیئرمین بنے تو انھیں وزیراعظم کی آشیر باد حاصل تھی اب گورننگ بورڈ میں بھی وزیراعظم کے ہی نمایندے ہیں۔

نئے چیئرمین کے الیکشن ہوںگے تو ایک نیا چہرہ پی سی بی کے اقتدار پر قابض ہو جائے گا۔ نجم سیٹھی اگر گورننگ بورڈ کے رکن رہے بھی تو چیئرمین وہ نہیں کوئی اور ہو گا۔ کسی باڈی کا خالی رکن یا سربراہ ہونے میں کتنا فرق ہے یہ پوچھنا ہے تو رانا ثناء اللہ سے پوچھ لیں۔ رانا صاحب 6 سال تک پنجاب حکومت کے مضبوط ترین وزیر تھے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد قربانی کی ضرورت پڑی تو موصوف نے آگے بڑھ کر پھندا گلے میں ڈال لیا۔ رانا صاحب اب سابق وزیر کہلاتے ہیں۔

کل تک ارکان اسمبلی کسی کو وزیر بنوانے کے لیے ان سے سفارش کرایا کرتے تھے۔ آج دیگر صوبائی وزیر انھیں فون کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا فون ٹیپ نہ ہو جائے۔ رانا صاحب کی ’’حالت زار‘‘ کا پتہ چلانے کے لیے ایک اور وزیر کو فون کر کے اشاروں کنایوں میں پوچھا جاتا ہے۔ پی سی بی کی بات ہو رہی تھی۔ عدالت میں سیٹھی صاحب نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر کے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ سیٹھی صاحب پر تنقید بہت ہوئی اب تعریف بھی ہونی چاہیے۔دیر آید درست آید۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔