آہ یہ بد نصیب لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 23 جولائی 2014

سکندر اعظم یونانی بادشاہ فلپ کا بیٹا تھا اس نے تخت ملنے کے بعد دس سال کی مدت میں اس زمانے کی معلوم دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر ڈالا۔ مصر کا شہر اسکندریہ اس کی فتح مصر کی یادگار کے طور پر اب بھی موجود ہے مگر بلآخر اس کا انجام کیا ہوا وہ عراق کے قدیم شہر بابل کے ایک محل میں اسی طرح بے بسی کے ساتھ مر گیا جس طرح ایک غریب اور کمزور آدمی اپنی جھونپڑی میں مرتا ہے اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کر لیا افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہو سکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔‘‘

نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے ’’مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں۔ میں دو چیزوں کا بھو کا تھا ایک حکومت اور دوسری محبت، حکومت مجھے ملی مگر وہ میرا ساتھ نہ دے سکی، محبت کو میں نے بہت تلا ش کیا مگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔ انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناً انسانی زندگی ایک بے معنی چیز ہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بر بادی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخری عمر میں اس نے کہا ’’میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی پھر بھی میں غم غلط نہ کر سکا میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے۔ زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکر ی کے ساتھ گزارا ہو اب میں مو ت کے کنارے ہوں جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی یہ ہی ہر انسان کا آخری انجام ہے مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے۔‘‘ جب خلیفہ منصور عباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا ’’ اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے مگر یہ بات مجھ کو اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا‘‘۔ خواہشات انسانی فطرت کا ضروری جز ہیں انسان خواہش کرتا ہے اور اپنے افکار و احساسات کے لیے ایک منزل متعین کر لیتا ہے اور اس منزل کے لیے تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن جب وہ منزل پر پہنچ جاتاہے تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ اس منزل نے تو اسے وہ تسکین ہی مہیا نہیں کی جس کا وہ طالب تھا۔

اسٹارم جیمز سن کہتا ہے ’’ مسرت :۔ یہ سو چنا غلط ہے کہ زیادہ آسائش زیادہ مسرت کا منبع ہے مسرت آتی ہے گہرے طور پر محسوس کرنے سے سادگی سے لطف اندوز ہونے سے تخیل کی آزاد اڑان سے زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے اور دوسروں کے کام آنے سے۔ ’خود کو پہچان‘ یہ سقراط کی تعلیم تھی۔ دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو آپ کو خوش رکھ سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں، ہماری زندگی بازگشت جیسی ہے ہم وہی پاتے ہیں جو دیتے ہیں۔ فرنیکلن نے کہا تھا ’’جب تم دوسرں کے لیے اچھے ہوتے ہو تو اپنے لیے بہترین ہوتے ہو‘‘۔

اگر خوشی اور مسرت کے لیے صرف عیش وعشرت، محلات، ہیرے، جواہرت، جاگیریں، روپے پیسے کافی ہوتے تو گوتم بودھ یہ سب کچھ چھوڑ کر زندگی کی حقیقی خوشی اور مسرت کی تلاش میں جنگلوں میں نہ نکلتا، اشوک جنگ و جد ل سے توبہ نہ کرتا، ٹا لسٹائی اپنا محل چھوڑ کر ایک چھوٹے سے ریلو ے اسٹیشن پر نہ مرتا، سقراط زہر کا پیا لہ نہ پیتا۔ برونو، سروتیس آگ میں نہ کودتے، مارکس غربت کی حالت میں نہ مرتا، اس کے بچے تڑپ تڑپ کر جان نہ دیتے۔ یہ قید خانوں میں گلتے سڑتے رہے تا کہ دوسرے آزاد رہ سکیں یہ فاقے کاٹتے رہے تا کہ دوسروں کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہو سکے یہ ننگے رہے تا کہ دوسرے تن ڈھانپ سکیں یہ سولی پر چڑھتے رہے زہر کے پیالے پیتے رہے تا کہ دوسرے منبر پر آزادانہ بول سکیں یہ حالت سکنت میں مر گئے تا کہ دوسرے خوشحالی کی زندگی گزار سکیں۔

ہم اکثر اوقات ملکی صورتحال دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبو ر ہو جاتے ہیں ہم میں اور عہد و حشت کے انسانوں میں ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے اتنی ترقی کے باوجود آج بھی ہمارے اندر وہی وحشت چھپی ہوئی ہے آج بھی ہم اپنے مفاد اپنے عیش و آرام کی خاطر باقی سارے لوگوں کا چین و سکون لوٹنے انھیں کچلنے اور برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہو جاتے ہیں جیسا کہ عہد وحشت میں ہوتا تھا آج بھی ہم اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے انسان کی غیر مطمئن رہنے کی صلاحیت ہمیشہ لامحدو د رہی ہے۔

خواہ ہم کتنے ہی اپنے خوابوں اور خواہشات کی تعبیر کیوں نہ حاصل کر لیں ہم اپنے آپ کو غیر مطمئن ہی پاتے ہیں۔ حالانکہ شیلے کی نظم Ozymamdias کی مانند دنیا کی ہر شے پیغام دے رہی ہے کہ ہر شے کو فنا ہو جانا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اندر کی بھوک کبھی نہیں مٹ پاتی ہے۔

اس قدر ترقی کے باوجود آج بھی ہمارے شہروں میں گند ی اور غلیظ گلیوں اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں ہم اشیاء، عہدوں، رتبوں کے حصول کے لیے کیوں بھیڑیے بن جاتے ہیں، مذاہب ہمیں کیوں نہیں مہذب بناسکے؟ کیا انسان کی فطرت ہی وحشی ہے۔ کیا ہر انسان کے اندر درند ہ چھپا بیٹھا ہے تعلیمات انسان کو تبدیل کیوں نہیں کر سکیں اتنے علم کے بعد بھی انسان کی درندگی ختم کیوں نہیں ہو پا رہی ہے انسان اپنے فائدے کے لیے باقی انسانوں کو کیوں زندہ درگور ر کر دیتا ہے کیوں انھیں خودکشیوں پر مجبور کر دیتا ہے کیوں آخر کیوں۔ آدمی کا شکار آدمی کیوں ہے کیا ساری تہذیب، تمدن، تعلیم، علم، ترقی غارت گئی بے فائد ہ رہی۔

اس کے باوجود کہ سب کچھ فنا ہو جانا ہے انسان میں انسانیت، قناعت، برداشت، تحمل، بزرگی، ٹھہرائو، سکون کیوں نہیں پیدا ہو رہا ہے تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں ضروریات ایک جیسی ہیں مفاد ایک جیسے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان آزاد ہے یا مجبور۔ آزاد ہے تو کس حد تک آزاد ہے مجبور ہے تو کس حد تک مجبور ہے کیا ہم اس اصول پر چل رہے ہیں کہ دوسروں کو لوٹو ورنہ تم خود لٹ جاؤگے آقا بنو ورنہ تمہیں غلام بننا ہو گا اگر ان وحشیوں، لٹیروں کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ وہ کیسی بے مصرف، بے معنی، بے مقصد اور بے کیف زندگی گزار رہے ہیں تو وہ زر و ہیرے جواہرات کے انبار اٹھا کر گلی میں پھینک دیں لیکن مشکل تو یہ ہی ہے کہ ان کا یہ احساس بھی سلب ہو چکا ہے ان کے نصیب میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ وہ سونے کی بھاری صلیب اٹھائے پھرتے رہیں۔

خواہ اس کے بو جھ تلے ان کے کندھے شکستہ ہو جائیں وہ اسے اٹھائے اٹھائے تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں ہانپتے کانپتے پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس سونے کی صلیب سے چمٹے رہتے ہیں کہ یہ ہی ان کا مقدر ہے۔ اور جب ان کا بھی وقت آئے گا تو ان کے آخری الفاظ سکندر اعظم، نپولین، ہارون الرشید، خلیفہ منصو ر عباسی سے ہر گز ہر گز مختلف نہیں ہونگے حالانکہ وقت نے انھیں بدھا، سقراط، مارکس، برونو، سروتیس، اشو ک بننے کا بھی موقع دیا تھا۔ لیکن کیا کریں آہ یہ بد نصیب لوگ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔