مفکر اسلام اور جید عالم مولانا رومی

ان کا مخاطب انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کہ میں سورۃ الضحیٰ کا پہلا حرف ’’واؤ‘‘ کی تشریح بیان کروں گا


نسیم انجم February 09, 2025

 حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ اپنے وقت کے جید عالم تصوف اور روحانیت میں حد درجہ کمال تک پہنچ گئے تھے، علامہ اقبال کو مولانا روم سے بے حد عقیدت تھی، علامہ نے مولانا رومی کو پیر جلیل کہہ کر پکارا اور روحانی شاگرد کی حیثیت سے اپنے کلام میں ان کی بڑائی بیان کی ہے:
 صحبت ِ پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف
 مولانا کا نام محمد جلال الدین تھا، عرفیت رومی اور روم تخلص تھا، جائے پیدائش بلخ تھی اور تاریخ ولادت 604ھ مولانا کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملتا ہے، آپؒ کے پردادا حضرت حسین بلخی صوفی اور صاحب کمال بزرگ تھے، ان کے علم و تقویٰ سے ہر شخص واقف تھا۔

امرا اور صاحبان علم اس خاندان کی عظمت و توقیر کے معترف تھے۔مولانا رومی کے والد شیخ بہاء الدین نے اپنے پسر کی تعلیم و تربیت کے لیے نامور عالم سید برہان الدین کا انتخاب کیا تھا جوکہ ان کے مریدوں میں شامل تھے۔

مولانا روم نے درس و تدریس میں ان سے ہی استفادہ کیا تھا جب ان کے والد قونیہ تشریف لے گئے تو مولانا رومی ساتھ تھے لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد شفقت پدری سے محروم ہو گئے گوکہ والد کی موت مولانا کے لیے بے حد تکلیف دہ اور غم کا باعث تھی لیکن اللہ کا کرم ان کے ساتھ تھا۔

انھوں نے صبر کی ردا اوڑھ لی تھی، مولانا نے مزید حصول تعلیم کے لیے شام کا رخ کیا، وہاں رہ کر انھوں نے علم کی سوغات کو اپنے من کی کوٹھڑی میں محفوظ کر لیا اور پھر انھوں نے قونیہ واپس جانے کا ارادہ کیا، ساتھ ہی ان کے استاد محترم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔

تقریباً 9 سال تک استاد نے مزید تعلیم سے سرفراز کیا، علم و معرفت نے انھیں اعلیٰ مرتبے پر پہنچا دیا۔ جب بھی وہ کسی محفل میں خطاب کرتے تو حاضرین ان کی عالمانہ گفتگوکو سن کر متاثر ہوتے ، مولانا کو وسیع علوم اور دینی معلومات، فقہ و تفسیر پر دسترس حاصل تھی، وہ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے ایک موقع پر مجمع میں سے ایک شخص نے اس وقت صدا لگائی جب آپ کمال در کمال کے مرحلے میں داخل ہو چکے تھے ہر طرف گہری خاموشی تھی۔

لوگ مولانا کے کہے گئے الفاظ کے سحر میں گم ہو چکے تھے اور معنویت کی سبز اور سفید روشنی سے ان کے سینے اور اذہان منور تھے، دنیا کی بے ثباتی کی حقیقت عیاں ہو رہی تھی، اسی دوران اس شخص نے باآواز بلند کہا کہ’’ مولانا صاحب! اپنے پسندیدہ موضوع پر بولنا کمال کی بات نہیں ہے، مزہ تو جب آئے گا جب آپ کسی دوسرے کے بتائے ہوئے موضوع پر گفتگو کریں گے۔‘‘

مولانا رومی نے اسی وقت نرم لہجے میں کہا کہ’’ آپ بتائیں، میں اسی پر تقریر کرنے کی کوشش کروں گا‘‘ ہزاروں عقیدت مند جمع تھے کہ نہ جانے یہ شخص کون سے موضوع پر خطاب کرنے کے لیے کہے گا۔ ابھی لوگ سوچ و بچار میں مبتلا تھے کہ اسی دوران وہ شخص دوبارہ اٹھا،’’ مولانا، آج آپ سورۃ والضحیٰ کی تفسیر بیان کریں‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ 

اپنے سوچے سمجھے منصوبے اور حاسد علما کے مشوروں اور ان کی حسد اور دشمنی کا بدلہ اس نے لے لیا تھا، مولانا روم کا طوطی بول رہا تھا اور ان حالات میں ان کے دشمنوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔اس شخص کا خیال تھا کہ جو میں نے مولانا پر اچانک موضوع بتا کر حملہ کیا ہے، مولانا رومی میرے وار سے سنبھل نہیں سکیں گے۔

تھوڑے سے توقف کے بعد مولانا رومی مسکرانے لگے اور بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا اور کبریائی بیان کی، رسول پاک ﷺ پر درود پاک کا نذرانہ نذر کیا اور پھر ان کا مخاطب انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کہ میں سورۃ الضحیٰ کا پہلا حرف ’’واؤ‘‘ کی تشریح بیان کروں گا۔

اس ایک ’’حرف‘‘ پر مولانا نے پورے چھ گھنٹے تقریر کی، تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ وہی شخص لوگوں کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور قریب آکر مولانا رومی کے قدموں میں سر رکھ دیا، اس پر رقت طاری ہوگئی اور روتا ہوا بولا’’ بے شک آپ کا مرتبہ بلند ہوا۔

افسوس میں بھی انھی کی طرح حسد اور نفرت کا شکار ہو گیا، آپ کی تعریف و توصیف برداشت نہیں کر سکا، آپ کی بڑھتی ہوئی شہرت اور نیک نامی نے مجھے اور میرے جیسے کینہ پرور لوگوں کو گمراہ کر دیا ، راست بازی سے ناتا توڑ کر میں بھی آپ کے مخالفین میں شامل ہو گیا۔‘‘

مولانا رومی نے اس کی وضاحت اور گریہ و زاری سن کر اسے اٹھا کر گلے لگایا اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ان میں سے جو بھی لوگ مجھ سے عداوت رکھتے ہیں، میں انھیں معاف کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ ان کے سینوں میں بھڑکنے والی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر دے۔‘‘

مولانا رومی کے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ایک اہم واقعہ جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا وہ یہ کہ ایک دن مولانا اپنے کتب خانے میں اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے، مولانا کا کتب خانہ بھی بے مثال تھا، نادر و نایاب کتابیں اس میں موجود تھیں، ابھی درس جاری تھا کہ اسی دوران ایک شخص بلا اجازت داخل ہوا، وہ اپنے حلیے سے ایک معمولی سا آدمی نظر آ رہا تھا، اس کا چہرہ پریشان تھا، وحشت اس پر طاری تھی۔

اجنبی نے اہل مجلس کو سلام کیا، اس کے بعد طلبا کی صفوں کے درمیان سے چلتا ہوا مولانا کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ جماعت کے طالب علموں کو اس کی اس بے تکلفی پر بہت غصہ آیا، ان کا جی چاہ رہا تھا کہ اس کی اس گستاخی کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں لینا ضروری ہے۔

وہ قیمتی کتابوں کو توجہ سے دیکھ رہا تھا، مولانا نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا اور درس جاری رکھا۔ اسی دوران وہ مولانا سے مخاطب ہوا’’ مولانا! یہ کیا ہے؟‘‘ مولانا رومی یکدم پریشان ہوگئے اور ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا، انھوں نے نرم مزاجی سے کہا’’ انتظار کرو، کلاس ختم ہو، تب میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔‘‘

حسب وعدہ مولانا نے پوچھا ’’آپ کون ہیں اور یہاں پر آنے کا مقصد؟‘‘ اجنبی نے کھردرے لہجے میں جواب دیا،’’ میں کون ہوں؟ اور یہ کیا ہے؟ کیا تمہاری بینائی کمزور ہے؟‘‘۔’’ نہیں، بالکل نہیں، میں تو دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ پر آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں‘‘ بار بار ایک ہی سوال کرنے پر مولانا روم نے جھنجھلا کر کہا’’ یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ ’’ اچھا میں نہیں جانتا،‘‘ابھی اجنبی نے جملہ ادا ہی کیا تھا کہ کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور کتابوں میں آگ لگ گئی۔

مولانا اور ان کے شاگرد حیران و پریشان تھے، اجنبی آگے بڑھا، باہر جانے کے لیے کہ اسی اثنا میں مولانا نے کہا’’ یہ سب کیا ہے؟ یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے‘‘اجنبی یہ کہہ کر باہر کی طرف چل دیا، مولانا نے ایک سرد آہ بھری اور اجنبی سے کہا کہ’’ اس کے ذمے دار تم ہو؟‘‘’’ میں ذمے دار ہوں تو لو یہ اپنی قیمتی کتابیں‘‘ اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا، آگ آناً فاناً بجھ گئی، کتابیں پہلے کی طرح محفوظ تھیں، ایک چنگاری تک نہیں بچی تھی، مولانا رومی حیرتوں کے سمندر میں ڈوب چکے تھے جس اجنبی شخص نے مولانا جیسے بڑے اور نابغہ روزگار عالم کو استعجاب میں مبتلا کر دیا وہ مشہور بزرگ شمس تبریز تھے، اس واقعے کے بعد مولانا کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ حضرت شمس تبریز کی خدمت میں رہنے لگے۔ مولانا رومی سے ایسے ایک نہیں بہت سے واقعات منسوب ہیں۔

 مولانا رومی بلند پایہ شاعر تھے، مثنوی مولانا روم کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے جن مفکرین اور اللہ کے نیک بندوں سے فیض اٹھایا، ان میں ایک خاص الخاص نام مولانا رومی کا بھی ہے، اقبال کے لیے رومی کی حیثیت ایک رہبر اور مرشد کی ہے۔ وہ انھیں پیر رومی کہنے پر فخر کرتے ہیں، انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسی مرد مومن کے فیض سے علم کے سربستہ راز فاش ہوئے اور انھی کے کرم سے یہ خاک اکسیر بن گئی۔

پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

رومی کو نکلسن نے سب سے بڑا صوفی شاعر قرار دیا ہے اور جامی نے ان کی مثنوی کو فارسی زبان کا قرآن کہا ہے ،اس کی وجہ ان کی مثنوی اسلامی تعلیمات کی مظہر ہے ۔اس مثنوی میں مولانا رومی نے اسلام کے مجاہدوں کی شجاعت و دلیری کے واقعات کو شعری پیکر عطا کیا ہے تاکہ مسلمان مجاہدانہ صفت کو اپنا کر اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں