ترقی پسند خواتین کا بلند اقبال

ھی سر پھرے دیوانوں میں ڈاکٹر م۔ ر ۔حسان کا پورا گھرانہ بھی تھا


وارث رضا February 09, 2025
[email protected]

اگر یہ کہا جائے کہ برٹش راج کے سرمایہ دارانہ دور میں برصغیر ترقی پسند فکر اور ترقی پسند ادب کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز جب کہ ’’حیدرآباد دکن‘‘ اس تحریک کا مضبوط محور رہا تو کسی طور بھی کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ 

بلاشبہ حیدر آباد دکن نے اپنی تہذیبی بقا اور نسل کی روشن خیال فکر کے لیے ہمیشہ اہل جبر کے حلق میں اٹک کر علم و دانش کی سطح پر ترقی پسند تحریک اور مارکس ازم کو جلا بخشی اور تمام تر خوشحالی کے باوجود مارکسی سماج بنانے کی جدوجہد میں اپنے خون کے نذرانے دیے۔ 

طاغوت کی سولی کو چوم کر تختہ دار پر چڑھے اور تمامتر ریاستی تشدد سہہ کر بھی سماج کی جمہوری اور سیاسی آزادی کے لیے جان کے نذرانے دیے، جہاں پاکستان میں حسن ناصربندی خانوں کے قہر کا نشانہ بنا تو وہیں ترقی پسند فکرکو عوام کا سیاسی حوالہ بنانے میں مخدوم محی الدین کی عملی اور ادبی جدوجہد آج تک ترقی پسند تحریک کا وہ مضبوط حوالہ ہے جس نے حیدرآباد دکن کے گھرانوں میں سیاسی اور سماجی جوت جلائی اور حیدرآباد دکن کے خطے میں گھر گھر ترقی پسند فکر کے دیپ جلائے، مخدوم نوجوانوں کے تحرک اور ہمتوں کو دوام دینے کے لیے یہی کہتے رہے کہ!

قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں

سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے

یہی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد ترقی پسند تحریک کو تیز کرنے اور سماج میں روشن خیال سیاسی و سماجی سوچ پیدا کرنے کے لیے مارکسی فکر کے ساتھ طب سے لے کر تعلیم اور عوام کو سماجی منڈلیوں میں جوڑنے کا کام کبھی ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی کبھی ڈاکٹر منظور تو کبھی علامہ اقبال خان تو کبھی مزدور حقوق دلانے کی جدوجہد میں وکیل علی امجد بلا معاوضہ اپنی خدمات دیتے رہے اور سماج میں روشن خیال فکر کے چراغ جلاتے رہے۔ 

انھی سر پھرے دیوانوں میں ڈاکٹر م۔ ر ۔حسان کا پورا گھرانہ بھی تھا، جو فکری طور پر مارکس ازم کے فلسفے کو سماج کی سیاسی اور جمہوری آزادی حاصل کرنے کا ایک مضبوط نکتہ نظر سمجھتا تھا، یہی وہ فکری وجہ رہی کہ فیض احمد فیض نے عبداللہ کالج لیاری کو قائم کرنے کے لیے اپنا دست راز اور ساتھی ڈاکٹر م ر حسان کو چنا اور انتظامی طور پر وائس پرنسپل کی حیثیت سے ڈاکٹر م ر حسان نے لیاری اور قرب و جوار کے طلبہ میں روشن خیالی کے دیپ جلائے جس کے نتیجے میں لیاری اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ایک شاندار کردار کے طور پر اپنی جدوجہد و روشن خیالی پر آج بھی فاخر ہے.

ڈاکٹر حسان کی مارکسی فکر نے کنبے کی ایسی تربیت کی کہ مزدور حقوق کی تحریک اور عوامی ادبی انجمن کو منظم کرنے میں کہیں فصیح الدین سالار ہر اول دستہ کے طور پر کھڑے ملے تو کہیں ڈاکٹروں کی جدوجہد کو منظم کرنے میں ڈاکٹر محبوب کو اس شہر نے متحرک دیکھا، ان سب کی روشن خیال فکر اور بلا رنگ و نسل و جنس ایسے عمل کو دیکھتے ہوئے بھلا اکلوتی بہن بھائیوں کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتی تھی۔

یہی وجہ رہی کہ اقبال سلطانہ نے تحریک میں عملی حصہ لینا چاہا توبھائیوں کے حوصلے نے اقبال سلطانہ کے اعتماد کو مہمیز کیا اور اقبال سلطانہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا وہ نشان بنی جس کے بغیر انجمن جمہوریت پسند خواتین اور عورت حقوق کی ہر تحریک اقبال سلطانہ کے عزم و حوصلے کے بغیر نا مکمل رہتی تھی۔ 

بیگم داؤدی ہوں یا نسیم اشرف ملک یا بیگم نورانی سب میں عورت حقوق کے لیے فلک شگاف نعرے لگاتی اقبال سلطانہ ہمیشہ صف اول میں ملتی، عورتوں کومنظم کرنے کے لیے سفر کی تکان سے بے پرواہ اور دور دراز دشوار علاقوں میں جانے سے نڈر یہ اقبال سلطانہ ہی تھی جو قریہ قریہ شہر شہر عورت حقوق کی لگن میں بھوک و پیاس سے ماورا کسی بھی مشکل سے ٹکرا جاتی تھی۔ 

اقبال سلطانہ کا یہی حوالہ اور جذبہ ہی تو تھا کہ انجمن جمہوریت پسند خواتین کی قائد بیگم اشرف ملک، ہمیشہ اقبال کے گھر ٹہرنے کو ترجیح دیتی تھیں، یہ وہ کٹھن دور تھا جب عورت کے حقوق کی تحریک کو سماج میں پذیرائی کرنے والا کوئی نہ تھا بلکہ اقبال سلطانہ ایسی چند سر پھری خواتین تھیں جو سماج میں بے باک تصور کرکے تنقید کے نشتر سہتی تھیں۔ 

اس وقت نہ کوئی خواتین حقوق کی منظم آواز تھی اور نہ ہی تنظیم کی مالی مدد کی کوئی سبیل تھی، اقبال سلطانہ اپنے قافلے کے ساتھ مگن خواتین حقوق کے لیے سراپا احتجاج و جدوجہد بنی رہتی تھی، یہ وہ دور تھا کہ نہ آج کل کی خواتین تنظیموں کی طرح بیرونی ڈالر آتے تھے اور نہ ہی اپنی تنظیم کی کار گذاری کوبیرونی فنڈ دینے والوں کا پابند سمجھا جاتا تھا، یہ وہ جمہوری و سیاسی نسل تھی۔

جس نے سب سے پہلے اپنی سیاسی جدوجہد سے ملک میں 8 مارچ کو ’’یوم خواتین‘‘ قرار دلوایا، افسوس کہ آج 8 مارچ کو فنڈز کے سہارے منا کر پھر پورے سال بیٹھ کر فنڈز کا انتظار کیا جاتا ہے،اب نہ خواتین تنظیموں کی کوئی سیاسی سوچ ہے نہ نکتہ نظر اور نہ ہی کام کرنے کا جذبہ اگر ہے تو صرف فنڈز ملنے کی للچائی ہوئی توقع اور امید، اس سیاسی اور نظریاتی بگاڑ کے تناظر میں اگر خواتین حقوق کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو تمام تر وسائل اور فنڈز کے ہوتے ہوئے بھی پہلے سے زیادہ خواتین کی ہراسگی، سماجی بدسلوکی اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے جو انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، اس مقام پر عام خواتین کی سیاسی عدم دلچسپی اور تنظیموں کے سیاسی عمل اور جدوجہد سے لا تعلقی ایک ایسا خطرناک رجحان ہے، جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 اقبال سلطانہ جہاں سیاسی و نظریاتی طور سے متحرک رہیں، وہیں انھوں نے اپنے جیون ساتھی معروف وکیل اختر حسین کے قدم بہ قدم ساتھ دینے سے اپنی گھریلو تہذیب کا سر فخر سے بلند کیا، اختر حسین کی سیاسی جدوجہد میں کنبے کی دیکھ بھال اور کنبے کو ایک لڑی میں پرو کر رکھنے کے کام سے بھی اقبال سلطانہ شعوری طور سے کبھی پیچھے نہ رہیں۔ 

اقبال سلطانہ کی سیاسی نظریاتی اور خواتین حقوق کی جدوجہد پر عملی کام کے ساتھ عملی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے وگرنہ ایسا نہ ہو کہ یہ سماج خواتین حقوق کی آواز اٹھانے سے بانجھ کر دیا جائے اور پھر سماج کی سیاسی و شعوری سوچ دفنا کر آیندہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سیاسی و نظریاتی شعور کے زاویئے وا کریں اور اس سماج کو خواتین دوست سماج میں تبدیل کریں کہ یہی اقبال سلطانہ کا مشن اور مقصد تھا بقول مخدوم محی الدین۔

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں