سعودی عرب میں طلاق کے بڑھتے اور بدلتے ہوئے رحجانات

غلام محی الدین  اتوار 27 جولائی 2014
سعودی عرب میں معمولی بات پر طلاق لینے اور دینے کے واقعات پر سوشل میڈیا پر بحث نے اس ایشو کو مزید بڑھا دیا ہے ۔   فوٹو : فائل

سعودی عرب میں معمولی بات پر طلاق لینے اور دینے کے واقعات پر سوشل میڈیا پر بحث نے اس ایشو کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد:  سماجی رابطے کی ویب سائٹس جہاں اپنے صارفین کے لیے من چاہے جیون ساتھی کی تلاش میں معاون ثابت ہو رہی ہیں، تو وہیں سوشل میڈیا کو طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کے لیے بھی اب کھلے عام استعمال کیا جانے لگا ہے۔

احوال یہ ہے کہ اب سعودی عرب میں بھی سماجی روابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے بیویوں کو طلاق دینے کا خطرناک رحجان فروغ پا چکا ہے۔ وہاں کی متعدد عدالتوں کے جج صاحبان نے  اعتراف کیا ہے کہ شوہر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بیویوں کو بڑی تعداد میں طلاق دے دیتے ہیں۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا نے لوگوں میں رابطے کے لیے ایک پْل کا کام توکیا لیکن اب لوگ اس پل کو طلاق کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔

طلاق کا لفظی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے۔ عام ازدواجی زندگی کی اصطلاحات میں بھی اس سے مراد میاں بیوی کے نکاح کی تنسیخ ہے۔ مگر

سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ایک شوہر اپنی بیوی کو ای میل کے ذریعے طلاق دے سکتا ہے؟ ای میل کے ذریعے طلاق کاغذ پرلکھی تحریر کے متبادل سمجھی جائے گی؟سعودی فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر جعل سازی نہ ہو تو ابلاغ کے تمام جدید آلات ٹیلی فون، سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے دی جانے والی طلاق، شرعی طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ٹیلی فون پردی جانے والی طلاق میں بیوی کے لیے شوہر کی آواز کا پہچاننا لازمی ہے۔

ملائشیا کے بعد اب سعودی عرب میں بھی شادی کا تربیتی پروگرام متعارف کرانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ یاد رہے ملائشیا میں بھی اسی طرح کا پروگرام متعارف کرانے کے بعد طلاق کی شرح بتیس سے کم ہوکر سات فی صد تک آ گئی تھی۔ اب سعودی وزارت انصاف نے ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لیے شادی کے بارے میں ایک لازمی تربیتی پروگرام متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے تمام شہروں میں شادی کے خواہاں افراد کے لیے تربیتی اور بحالی کا پروگرام متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس پروگرام کے ڈائریکٹر فواد الجوغمین نے کے مطابق ’’کوئی بھی شخص شادی شدہ زندگی سے متعلق تربیت اور طلاق کی شرح کو کم کرنے کے لیے اثرات سے انکار نہیں کرسکتا‘‘ ۔ ایک سعودی روزنامے الاقتصادیہ نے سال کے آغاز میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سعودی عرب میں 2013 کے دوران روزانہ اوسطاً 82 طلاقیں رجسٹر ہورہی تھیں۔ جب کہ ایک لاکھ کے قریب نکاح نامے جاری کیے جاتے ہیں، اس لیے اب طلاق کی بلند شرح پر قابو پانے کے لیے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں اب ایک ہزار تربیت یافتہ ٹرینر تعینات کیے جائیں گے جو مستقبل قریب میں شادی کے خواہاں جوڑوں کو تربیت دیں گے۔ یہ تربیتی عمل آیندہ دوسال(2016) تک جاری رہے گا اور اس کے تحت مردوخواتین کو شادی شدہ زندگی گزارنے کے ایسے گرُ سکھائے جائیں گے جن کو بروئے کار لاکر وہ اپنے خاندان کے استحکام کو یقینی بنا سکیں گے تاکہ سعودی عرب میں ازدواجی زندگی سے عدم اطمینان کے باعث طلاق کے رجحان پر قابو پایا جا سکے۔

سعودی عرب میں معمولی بات پر طلاق لینے اور دینے کے واقعات پر سوشل میڈیا پر بحث نے اس ایشو کو مزید بڑھا دیا ہے مثلاً ڈرائیونگ کی پاداش میں بیوی کو طلاق دے دی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے ایک شہری نے اپنی بیوی کو محض اس بناء پر طلاق دے دی کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر گاڑی لے کر کیوں نکلی؟گو کہ سعودی عرب میں اب خواتین کی ڈرائیونگ کے حامیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے شاید اسی لیے اب صنف نازک کے گاڑی چلانے پر لوگ طلاق کے حامی کم ہو رہے ہیں۔

تاہم دوسری طرف سعودی شوہر کے اس اقدام کی حمایت میں بولنے والوں کی کمی نہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر قانوناً پابندی عائد ہے لیکن ڈرائیونگ کی شوقین خواتین اب اکثر شاہراوں پر اس قانون کی خلاف ورزی کرتی پائی جاتی ہیں۔  دوسری جانب سعودی عرب میں طلاق دینے سے انکار پر خاوند سے عدالت باز پرس کرسکتی ہے البتہ عدالت کے کہنے کے باوجود خاوند کے ساتھ جانے سے انکار پر بیوی مالی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔ سعودی عرب میں عدالتوں میں بیویوں کی جانب سے خلع کے لیے دائر مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے ایک نیا نظام نافذ کرنے پر بھی کام مکمل ہو چکا ہے، جس کے تحت ناراض بیویوں کو طلاق دینے سے انکار کرنے والے خاوندوں کو زبردستی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اب جو خاوند بیوی کو طلاق دینے،نان ونفقہ ادا کرنے یا بچوں کو ماں کے حوالے کرنے سے انکار کرے گا، اسے زبردستی عدالت میں لایا جائے گا۔ وزارت عدل نے وزارت داخلہ کو اس نئے نظام پر عمل درآمد کی ذمے داری سونپ دی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ بارہ ماہ کے دوران خاوندوں کی جانب سے عدالتوں میں 1802 مقدمات دائر کیے گئے ان مقدمات میں ناراض بیویوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں۔ سب سے زیادہ کیس دارالحکومت ریاض میں دائر کیے گئے اور ان کی تعداد 668 تھی جب کہ قطیف میں سب سے کم 16کیس دائر ہوئے، ان کیسوں میں خاوند بالعموم یہ دعوے کرتا ہے کہ اس کی بیوی مزاحمت کرتی ہے اور اسے گھر میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر ایسے کسی کیس میں مزاحمت ثابت ہوجائے تو عدالت بالعموم بیوی کو اپنے خاوند کے گھر میں لوٹنے کا حکم دیتی ہے لیکن اگر وہ پھر بھی خاوند کے ساتھ رہنے سے انکار کردے ہے تو اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بل کہ عدالتی نظام کی دفعہ 196 کے تحت اس کو تمام حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔

سعودی وزارت انصاف کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2013 کے دوران 1371 خواتین سمیت 1650 طلاق کے کیس سامنے آئے ۔ سابق جج اور عائلی تنازعات طے کرنے کے لیے قائم بورڈ کے قانونی مشیر احمد ساقیہ نے میڈیا کو بتایا کہ اس نوعیت کے مقدمات عام طور پر خواتین کے آبائی شہروں اور قصبات میں دائر کیے جاتے ہیں۔

ایک خاتون طلاق لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر اور خاندان کی سطح پر تصفیہ نہیں ہو سکا۔ روایت پسند معاشروں میں خواتین کو اس لیے بھی طلاق لینے میں شرم یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اب یہ ایک معمول بن چکا ہے اور عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات آتے رہتے ہیں، بل کہ میں تو اس حیران ہوں کہ یہ مقدمات بعض لوگوں کے لیے چونکا دینے والے کیوں ہوتے ہیں؟ شادی کے بعد ایسے بہت سے جوڑے ہوتے ہیں جن کوانتہائی اہم اور نجی معاملات میں مشکلات یا مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مسائل حل کر لیتے ہیں تاہم طلاق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، یہ معاملہ سادہنہیں ہوتا۔ان معاملات میں زیادہ جذباتی ہونا اور میاں یا بیوی میں سے کسی ایک یا دونوں کا ایک دوسرے کے علاوہ کسی کے ساتھ غیر قانونی اور اخلاقی قدغنوں سے بے نیاز ہو کر تعلق رکھنا بھی اس مسئلے کو بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہے۔

یہ مسئلہ بعض اوقات وکلاء بھی احسن انداز سے سمجھنے اور نمٹانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے وکلاء عام طور پر اپنے موکلین کو نفسیاتی حل کی طرف مائل کرتے ہیں‘‘۔ سلطان ذاہم ایسے ہی امور کو نمٹانے کا تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ عدالتوں میں اس نوعیت بہت زیادہ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جن میں ازدواجی تعلقات کی عدم اطمینانی کے سبب طلاق لینے یا طلاق دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ سعودی عرب میں طلاق کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘‘۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال2013 میں طلاق کے تیس لاکھ کیس رجسٹرڈ ہوئے یہ شرح ایک گھنٹے میں تین اور یومیہ 82 واقعات تک جا پہنچی ہے۔ سعودی عرب خلیجی ممالک میں طلاق کے رجحان میں سلطنت عمان کے بعد دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ طلاق کے 92 فی صد واقعات میں سعودی شہریوں کے نام آتے ہیں۔ سعودی عرب میں سماجی اصلاح کے ادارے مودت  کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ڈاکٹرانس عبدالوھاب زرعا نے ملک میں طلاق کے بڑھتے واقعات کے اسباب پربات کرتے ہوئے کہا تھا’’طلاق کے جو اعداد و شمار میڈیا میں آئے ہیں وہ واقعی خوف ناک ہیں۔ ہمارا معاشرہ طلاق کے ناپسندیدہ عمل میں اس مقام تک جا پہنچا ہے ۔

جہاں اب مزید گنجائش نہیں ۔ ہمیں اب اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرنا ہو گا۔ یہ ریاست کے ساتھ ساتھ عوام اور معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے۔ پانچ سال قبل منشیات کا استعمال زوجین میں جھگڑوں اور طلاق کی بڑی وجہ تھی لیکن اب میاں بیوی کی بددیانتی سب سے بڑی وجہ سمجھی جا رہی ہے کیوںکہ طلاق کے جتنے بھی واقعات ریکارڈ پر آئے ہیں ان میں سے بیشتر کی وجہ شوہر یا بیوی پر بد دیانتی کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ مالی مسائل بھی طلاق کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ فیس بک اور ٹیوٹر کے بڑھتے نیٹ ورک نے بھی میاں بیوی کے درمیان فاصلے پیدا کیے ہیں، جس نے معاشرے میں انتشار کو مزید ہوا دی ہے۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق طلاق کے واقعات میں سے اکثر معمولی اور کچھ مضحکہ خیز وجوہات کی بنا پر پیش آئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی کوشش کی کیوںکہ اس نے شوہر کے کہنے پر اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک نامعلوم سعودی شہری نے شادی کے دس ماہ بعد اپنی اہلیہ کو سمارٹ فون کی ایپ کی مدد سے طلاق کا پیغام بھیجا اور پھر کہا کہ یہ پیغام حادثاتی طور پر چلا گیا تھا۔ تاہم اس کی اہلیہ نے یہ پیغام مقامی جج کی عدالت میں پیش کیا جس نے طلاق کو صحیح قرار دے دیا۔

معاشرتی معاملات کی سعودی مبصر ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 فی صد طلاقیں اس لیے ہوتی ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں پر نوکری چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جب کہ 60 فی صد کا تعلق بیوی کی تن خواہ پر شوہر کے کنٹرول کے معاملے سے ہوتا ہے۔خیال رہے کہ سعودی عرب میں قانوناً ایک خاتون اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ وہ اسے کام کرنے سے روک سکتا ہے اور اس امر کا تعین بھی کر سکتا ہے کہ وہ کہاں کام کرے اور کہاں نہیں؟ طلاق کے رجحان میں اضافے کی وجہ سعودی شوہروں کا اپنی بیویوں سے ناروا سلوک بھی ہے۔ ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر چھ میں سے ایک خاتون کو روزانہ بدکلامی اور جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ استحصال کرنے والوں میں سے 90 فی صد ان کے شوہر یا والد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عالیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق لینے والے جوڑوں میں سے زیادہ تر جوان جوڑے ہیں جو کہ شادی کے ایک یا دو سال بعد ہی علیحدگی چاہتے ہیں۔ طلاق کے ان واقعات کی وجہ سے نوجوان سعودی خواتین میں شادی سے قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی کسی صورت حال میں انھیں اپنے بل بوتے پر زندگی گزرانے میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔

طلاق کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس کا اصل علاج تو خدا کے حضور جواب دہی کاخوف ہی  ہے۔ طلاق کا توڑ کرنے، نئے جوڑوں کا اپنے گھریلو حالات کو بہتر بنانے، بچوں کے سامنے باہمی محبت و شفقت کا نمونہ بننے میں ان کی بچپن کی نیک تربیت پر بھی انحصارکرتاہے۔ مگر جب معاشرہ میں مادہ پرستی حد سے زیادہ بڑھ جائے، شخصی آزادی ناپید ہو ، جنسی بے راہ روی ، انانیت ، لالچ اور بخل پھیل چکا ہو تو بزرگوں کی باتیں مؤثر نہیں رہتیں۔ایسے میں بات بات پر طلاق نہ ہو تو کیا ہوگا۔ اسلام میں طلاق کو حلال چیزوں میں خدا نے بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور شاید اسی لیے طلاق میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔

طلاق سے متعلق سعودی اعداد و شمار پر سوالیہ نشان
سعودی عرب میں عائلی امور کی ایک معروف مشیر نے سعودی خواتین کی غیر ملکی مردوں سے ہونے والی شادیوں کی کام یابی کے بارے میں وازت انصاف کے جاری کردہ اعداد و شمار کی صداقت پر شک کا اظہار تو کیا ہے لیکن وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس دلائل نہیں دے سکیں۔ یاد رہے نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سعودی وزارت انصاف نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میںدعوی کیا گیا تھا کہ غیر ملکی مردوں سے سعودی خواتین کی 90 فی صد شادیاں کام یاب رہی ہیں جب کہ سعودی جوڑوں کے درمیان طلاق کی شرح 21 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ عائلی امور کی مشیر ڈاکٹر فوزیہ الاشمخ کا کہنا ہے ان اعداد و شمار کی تصدیق کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔

سعودی خواتین کی غیر ملکیوں سے شادی کا لمبے عرصے تک چلتے رہنے کا یہ مطلب ہعگز نہیں کہ ان میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ اس پارٹنرشپ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواتین کو معاشرے کے سامنے غیر ملکی شوہروں سے اپنی شادی کے فیصلے کو ہر صورت میں درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کو مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’مکہ‘‘ نے شائع کیا کے مطابق سعودی جوڑوں میں طلاق کی شرح 21 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی خواتین سے شادی رچانے والے غیر ملکی مردوں میں زیادہ تعداد یمنی اس کے بعد شامی اور پھر قطری مردوں کی ہے۔گذشتہ برس مقامی عدالتوں نے سعودی خواتین اور غیر ملکی مردوں کے درمیان 1925 شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں جن میں سے 190 طلاق پر منتج ہوئیں جب کہ اس کے مقابلے میں سعودی مردوں اور غیر ملکی خواتین کی 2488 شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں اوران میں سے 612 طلاق پر منتج ہوئیں۔

کام یاب ازدواجی زندگی کے لیے ذہنی مطابقت کا ٹیسٹ شروع
شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑوں کے لیے ایک دوسرے کی عادات و اطوار جانچے کے لیے سعودی عرب میں کفاء ٹیسٹ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ٹیسٹ سے گذرنے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہے کیوں کہ عمومی طور پر وہ اپنے متوقع شوہر کے نام، تعلیم، پیشہ یا عہدے کے سوا، اس سے متعلق کچھ نہیں جانتی، جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کفاء ٹیسٹ سعودی عرب میں شادی سے پہلے لازمی میڈیکل ٹیسٹ کے حصے کے طور پر کیا جاتا ہے۔عنود الزامل کا کہنا ہے کہ نفسیاتی صحت اور مرد و زن کے درمیان موافقت کی اہمیت کا احساس سعودی معاشرے میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طریقے پر عمل کر کے ازدواجی زندگی کے متعدد مسائل سے بچا جا سکتا ہے کیوںکہ شادی سے پہلے ہی دونوں فریقین کے اس اہم مرحلے سے متعلق رحجانات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ایک اور سعودی خاتون نے بتایا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ نفیساتی مطابقت اور ذہنی صحت کو ملک میں سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے۔ شہزادی نورہ بنت عبدالرحمان الفیصل سوشل سینٹر میں عائلی مشاورت یونٹ کی سربراہ بدریعہ الراشدی نے کفاء ٹیسٹ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شادی شدہ جوڑوں کے رویوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ذریعے متوقع میاں بیوی کو ایک دوسرے کے بارے میں ایسے معاملات سے آگاہی ملے گی جن کے بارے میں عمومی طور پر وہ لا علم ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔