آج کا نوجوان اور معاشرتی انحطاط

طلبا و طالبات اندرونی سازش اور پست کردار لوگوں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گئے ہیں


نسیم انجم February 16, 2025

 ہمارے نوجوان ملک کا سرمایہ اور قومی اثاثہ ہیں۔ یہ ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا، معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ علامہ اقبال نے انھیں شاہین سے تعبیرکیا ہے۔

تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
دنیا کی امامت کرنے کے لیے وہ صداقت کے سبق کا اعادہ کرتے ہیں ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

آج کے حالات کے پس منظر میں جو منظرنامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہے نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی پستی کا، زوال کا اور تعلیم سے دوری کا۔ نوجوانوں کو بلندی سے کس نے نشیب میں گرانے کا جال بنا اور وہ کون سی طاقت تھی جو ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھیننے کا باعث بنی۔

ماضی کی حکومتیں اور اہم قومی اداروں نے حقائق کا سامنا کرنے سے کیوں رخ بدل لیا؟ اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کو دلدل میں اتارنے والے کون تھے، اور اپنے مذموم مقاصد سے انھوں نے کیا حاصل کیا؟ ان تمام سوالات کے جوابات سے ملک کے دانشور اور علما اچھی طرح واقف ہیں، صاحبان علم و فن گواہ ہیں کہ حالات و واقعات کل بھی پشیمانی کا باعث تھے اور آج بھی لوگ یاسیت کا شکار ہیں۔ جو چاہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو نہیں چاہتے وہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور کردار کو اعلیٰ بنانے میں والدین کی تعلیم و تربیت اس کے بعد باہر کا ماحول اور حکومت کی ذمے داریاں کہ وہ ان کے روشن مستقبل کے لیے کس حد تک کوشاں ہے؟ یا پھر خواب غفلت میں کھوئی ہوئی ہے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اپنے اور اپنے حواریوں کے منافع بخش منصوبے ہیں۔

ہماری سابقہ و موجودہ حکومتوں نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ نوجوانوں کے مسائل اور ان کے حل پر توجہ نہیں دی ہے۔ بے شمار طلبا و طالبات مڈل یا میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کرسکے اس کی وجہ والدین کی مفلوک الحالی ہے، یہ وہ والدین ہیں جن کے آبا و اجداد نے ہندوستان سے ہجرت کی تھی اور ایک خوب صورت خواب سجا کر پاکستان میں داخل ہوئے تھے لیکن امرا و وزرا، بیوروکریٹ، افسران بالا نے غریب اور کم آمدنی کمانے والوں کی سفید پوشی کو خوشحال گھرانوں میں بدلنے کے لیے کسی بھی طرح کے اقدامات نہیں کیے۔ 

کبھی انھیں غربا و مساکین کی زندگیوں کے بارے میں جاننے کی فرصت نہیں ملی اگر فرصت ہے تو صرف اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے کے لیے مصروف رہتے ہیں اور آئے دن تنخواہیں بڑھانے کا عمل جاری رہتا ہے اس طرح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاکھوں کی مد میں تنخواہیں وہ لوگ وصول کرتے ہیں جو جھوٹ کو فروغ دیتے اور انصاف کی دھجیاں بکھیرنے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔

جہاں انصاف نہ ہو، حکومت اپنے فرائض سے چشم پوشی کرے تو ان ملکوں میں بہت سے بے بسی تباہی کی طرف بڑھتے بڑھتے موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج بے شمار لوگ خودکشی کر چکے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو قرض میں جکڑے ہوئے تھے اور مرض میں مبتلا اور جن کی اولادیں گلی کوچوں میں رل رہی ہیں، چھوٹی موٹی چوری کرنے والے خطرناک ڈاکوؤں کی شکل میں سامنے آگئے ہیں۔ 

بے شمار چور، ڈاکو اور قاتلوں کو رقم دے کر خریدا جاتا ہے، یہ بے چارے نسل در نسل یہی کام کر رہے ہیں، ان کا تعلق گاؤں گوٹھ اور پسماندہ علاقوں سے ہوتا ہے جہاں یہ لوگ چرس و افیون استعمال کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں تاکہ بدحالی اور اولاد کے غم سے نجات پا سکیں۔ یہاں حکومتی ادارے اپنے حقوق و فرائض سے یکسر جانتے بوجھتے بے خبر رہتے ہیں۔

منشیات کا کاروبار اسی بے خبری کی وجہ سے خوب پنپ رہا ہے ملک اور نوجوانوں کا مستقبل داغ دار ہو چکا ہے۔ اگر قومی ادارے اپنی قوم کے بچوں سے ہمدردی ملک کی بہتری کے لیے کام کرتے تو ان کے لیے آج گلی محلوں میں بے شمار اسکول و مدارس قائم ہو جاتے، پارک اور جم وجود میں آ جاتے، تعلیمی زبوں حالی کے ذمے دار اعلیٰ افسران ہیں وہ ان غریب خاندانوں پر بے توجہی کے ساتھ ساتھ اہم اور دینی تعلیمی اداروں کی خبر گیری نہیں کرتے ہیں کہ اندر کے حالات کیسے ہیں۔ 

طلبا و طالبات اندرونی سازش اور پست کردار لوگوں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گئے ہیں، پرنسپل صاحبان اور منتظم اعلیٰ اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو کر کالج کی فضا میں زہر گھولنے کا باعث تو نہیں؟بعض اداروں کے سربراہ اور منتظم جو اپنی بیٹیوں کی عمروں کی طالبات کی عزت و ناموس کو دھبہ لگانے اور خاندان کو رسوا کرنے میں پیش پیش ہیں، مختلف یونیورسٹیوں میں ایسے ہی دل خراش واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 

ان کے کرتوتوں سے انسانیت سر نگوں ہے، محض پاس کرنے کی شرائط اس قدر سنگین؟ ان کی اپنی بھی عزت اپنے گھروں اور اہل خانہ کے سامنے ختم ہو جاتی ہے اور پورے ملک اور دنیا میں علیحدہ رسوائی؟

اس قسم کی باتیں اور حقائق سال چھ ماہ بعد دنیا کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔ ان افسوس ناک حالات میں حکومت کو چاہیے کہ جہاں طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو وہاں خاتون سربراہ کی تقرری کو ناگزیر بنایا جائے، اگر مخلوط تعلیم ہے تو مرد اور خاتون کو وائس چانسلر یا پرنسپل کے عہدوں پر فائزکیا جائے، تعلیمی اداروں میں خواتین کی تقرری اہم عہدوں پر کرنے سے بہت سے فائدوں میں سے یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ خاتون ان طالب علموں کی عزت و عصمت کی محافظ ہوگی۔

آج کے نوجوانوں کا یہ المیہ ہے کہ اکثریت اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا کی نذر کرتی ہے، پڑھ لیا، کلاس لے لی یا دفاتر میں کام پر چلے گئے لیکن رات ان کی باہر ہی گزرتی ہے، اس طرح کے نوجوان والدین کے نافرمان ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، من مانی کرکے وہ والدین کو ناراض کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر لیتے ہیں۔

موجودہ حالات کے باوجود ہزاروں طلبا نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے لیکن ملازمتوں کا فقدان اور ڈاکوؤں اور قاتلوں کو کھلا چھوڑ دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل و غارت اور لوٹ مار کرنے والوں سے نجات کا واحد حل یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کو اپنی لیاقت اور صلاحیتوں سے فائدہ پہنچایا جائے اور بدلے میں عزت و تحفظ کے ساتھ شان دار تنخواہ بھی۔ یہ ایسے بدترین حالات ہیں کہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہو چکا ہے۔
اقبال نے علم کی اہمیت و وسعت کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

علم بے عشق است از طاغوتیاں
علم باعشق است از لاہوتیاں
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اس حوالے سے حدیث مبارکہ بھی ہے علامہ بھی اسی بات کا درس دیتے ہیں:
لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشین
اقبال کا پیغام نوجوانوں کے لیے:
وہی ہے صاحبِ امروز جس کی اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں