لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے ہمارے ہاں جب بھی رمضان کا چاند چڑھے یا کوئی آئی ایم ایف کا چاند چڑھے، اس کے ساتھ مہنگائی نے لازمی آنا ہوتا ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، یہ شرط ہے کہ چاند مہنگائی کے بغیر آیا ہی نہیں کرتا، اسے شاید ڈر لگتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ رمضان شروع ہوتے ہی پھل بھی مہنگے ہو جاتے ہیں، آئی ایم ایف کے وفد سے بھی مذاکرات جاری ہیں ابھی ایک وہ طوفان آنے والا ہے، اشرافیہ کو قیمتیں بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں سیدھا سیدھا طلب اور رسد کا فارمولا ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، آج فروٹ جس ریٹ پر بک رہا ہے دس رمضان کے بعد اس کا ریٹ خود بخود گر جائے گا، بیس رمضان کے بعد اور گر جائے گا، یہ ہمیشہ سے ہے اس کو آپ روکنا چاہیں تو بھی نہیں روک سکیں گے،آپ طے کر لیں کہ ایک ہفتہ فروٹ نہیں کھانا فروٹ کھائے بغیر ہم اور آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی، ہمیں اپنے دیکھنے والوں اور سننے والوں پر یہ واضح کرنا چاہیے مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سال پہلے ایک چیز جتنے کی تھی وہ سستی ہو گئی ہے، ملک میں جی ڈی پی گروتھ نہیں ہو رہی اگر ہو رہی ہے تو بہت ہی کم ہو رہی ہے، جب جی ڈی پی گروتھ کم ہو گی تو روزگار کے مواقع کم ہوں گے، بیروزگاری کی شرح ساڑھے نو فیصد ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ اگر مہنگائی چالیس فیصد تک بڑھ گئی تھی اور اب اگر وہ پانچ فیصد کے پاس آگئی ہے تو مہنگائی کا رکنا بھی آج کے دور میں سب سے بڑا تحفہ ہے، افراط زر اگر اٹھائیس فیصد سے ساڑھے پانچ فیصد پر آیا ہے تو یہ بھی ایک بہتری کی علامت ہے کہ اگر بڑھتا جاتا تو میں اور آپ تقریر کے علاوہ کیا کر سکتے تھے، ایشو یہ ہے کہ بہتری کی طرف سفر شروع ہے، مہنگائی کے بڑھنے میں کچھ رکاوٹ آئی ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ رمضان سے پہلے بھی انتظامیہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ چیزیں کنٹرول نہیں ہوتیں، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا جو گیپ ہے ادھر یہی ہوتا ہے، صرف پھل ہی نہیں، دودھ اور دہی کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے،حکومت نے دس ہزار روپے دینے کی جو مہم شروع کی ہے وہ ایک اچھا اقدام ہے۔