شاپ ایکٹ کہاں گیا؟

حکومت نے بجلی بچانے کے لیے جب بھی کاروباری اوقات مقررکیے وہ ہمیشہ ہوا میں اڑائے گئے


[email protected]

ملک کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کا دور وہ پہلا دور تھا جب ملک میں دکانوں کے لیے کچھ قوانین بنائے گئے تھے جن میں ایک شاپ ایکٹ بھی تھا جس کے تحت تمام دکاندار ہفتے میں ایک روز اپنی دکانیں بند رکھنے اور دکانوں پر مقررہ اوقات کار پر عمل کرنے کے پابند تھے اور شاپ ایکٹ و دیگر قوانین پر عمل بھی ہوتا تھا جب کہ اس وقت بجلی کی بھی کمی نہیں تھی اور لوڈ شیڈنگ کا تو کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔

ایوب خان نے مارشل لا لگا کر دکانداروں کو اپنی دکانوں کے سامنے صفائی رکھنے، ملاوٹ سے گریز اور ناپ تول میں گڑبڑ نہ کرنے کا پابند کیا تھا اور مارشل لا کے خوف سے دکانداروں نے اپنی دکانوں پر صفائی دکھانے کے لیے رنگ و روغن بھی کرائے تھے اور بازاروں میں صفائی نظر آتی تھی۔ کسی دکان کے سامنے کچرا نظر نہیں آتا تھا۔ ملاوٹی اشیا فروخت کرنے والوں نے ملاوٹی اشیا خصوصاً مسالہ جات، مرچیں و دیگر اشیا بڑے پیمانے پر تلف کی تھیں جس کے بعد مضر صحت اشیا کی فروخت کا تصور ہی ختم ہو گیا تھا اور تمام دکانیں ہفتے میں ایک دن بند رہتی تھیں جس سے دکانداروں اور ان کے ملازمین کو ہفتے میں ایک روز چھٹی کا موقعہ مل جاتا تھا۔

اس وقت ملک میں صرف دو صوبے تھے اور موجودہ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان تھا، جس کے گورنر ملک امیر محمد خان تھے جن کی ہیبت ہر جگہ اور ملک میں مکمل امن و امان تھا۔ رشوت ستانی نہ ہونے کے برابر تھی اور سرکاری دفاتر میں لوگوں کے کام آسانی سے ہو جاتے تھے۔ نفسا نفسی نہیں تھی جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔

اس وقت دو پلڑے والے ترازو اور ہر سال چیک ہونے والے باٹوں کے ذریعے خرید و فروخت ہوتی تھی بعد میں بغیر پلڑوں کا ترازو ہونے لگا اور دونوں اقسام کے ترازو اور ان کے باٹوں کا ایک سرکاری محکمہ سالانہ چیک کر کے نئی مہر لگاتا تھا اور کم تولنے کی شکایات نہ ہونے کے برابر۔ اشیائے خور و نوش معیاری ہوتی تھیں اور لوگوں کی زندگی آسانی سے گزر رہی تھی۔

اب وہ سب کچھ ایک خواب نظر آتا ہے دکانوں کو بند رکھنے کا تصور ختم ہو چکا اور دکانوں کے کھولنے بند کرنے کے اوقات خواب ہو چکے بلکہ اب تو 24 گھنٹے بھی بعض دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ صبح جلد کاروبار شروع کرنے اور رات سے قبل کاروبار بند کرنے کا سلسلہ ختم ہو چکا اور بجلی کی کھپت کم کرنے کے لیے ہر حکومت نے کوشش کی کہ کاروبار وقت مقررہ تک محدود کر دیا جائے مگر سرکاری احکامات پر کوئی دکاندار عمل نہیں کرتا، دکانیں مذہبی تہواروں پر مجبوراً بند کی جاتی ہیں۔

حکومت نے بجلی بچانے کے لیے جب بھی کاروباری اوقات مقررکیے وہ ہمیشہ ہوا میں اڑائے گئے۔ پہلے دودھ، دہی کی دکانوں پر صبح ہی دودھ دہی فروخت ہو جاتا تھا۔ گوشت، مرغی، مچھلی کی دکانیں جلد کھلتی تھیں اور دوپہر سے پہلے بند ہو جاتی تھیں، البتہ سبزی اور پھلوں کا کاروبار شام تک جاری رہتا تھا۔

بجلی کی کھپت بڑھنے سے ملک میں پہلے بجلی کی قلت پیدا ہوئی اور اب گرمیوں میں بھی ضرورت پرگیس نہیں ہوتی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جنریٹروں کا کاروبار چمکا پھر سوئی گیس کی قلت سے گیس چولہوں نے فروغ پایا جو گرمیوں میں بھی رکھنا ہر گھر کی مجبوری بن چکا ہے۔ پہلے لوگ لکڑی کے برادے کے چولہے استعمال کرکے ضرورت پوری کر لیتے تھے اور سوچتے تھے کہ آنے والے دنوں میں ترقی ہوگی مگر دنیا جدید دور میں اور ہم پرانے دور میں واپس آ چکے ہیں۔

غریب لکڑی کے چولہے استعمال کر رہے ہیں کیونکہ مہنگی بجلی سے اب ہیٹر استعمال نہیں ہوتے۔ حکومت نے بجلی بچانے کے لیے گھڑیاں آگے بھی کرائیں، دکانوں کے اوقات بھی مقرر کیے مگر عمل کرانے میں ہر حکومت ناکام رہی۔ پہلے لوگ شاپ ایکٹ پر عمل کرکے چھٹی بھی کرتے تھے اور مطمئن تھے اب دکانیں زیادہ وقت کھول کر بھی پیٹ نہیں بھر رہا۔ دنیا جدید اور ہم فرسودہ دور میں آچکے ہیں اور حکومتی رٹ تو ملک بھر میں کہیں نظر نہیں آتی اور سزا سب بھگت رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں