کون کس کے حوالے
آجکل میں دیکھتا ہوں کہ ایسے لیڈر بہت کم رہ گئے ہیں اور جلسوں کی رونق بڑھانے والوں کا قحط پڑ گیا ہے
حکومت وقت کے ستائے ہوئے ایک پاکستانی نے دل کی بھڑاس مندرجہ ذیل دس نکات میں نکالی ہے لیکن ساتھ ہی یہ وارننگ بھی دی ہے کہ ان کی طرف سے ان نکات میں اضافہ ہوتا رہے گا یا کوئی اور دل جلا پاکستانی ان کی مدد کرتا رہے گا۔ فی الحال یہ نکات ملاحظہ فرمائیں۔
-1 اسلام آباد فوج کے حوالے
-2 کراچی دہشت گردوں کے حوالے
-3 سندھ ڈاکوئوں کے حوالے
-4 پنجاب گلو بٹ کے حوالے
-5 انصاف ارسلان افتخار کے حوالے
-6 بجلی لوڈ شیڈنگ بارش کے حوالے
-7 نواز شریف سعودی عرب کے حوالے
(جنھیں سعودیوں نے واپس بھجوا دیا ہے ان کے اپنے خرچے پر)
-8 100 ارب روپے پٹواریوں کی باجی کے حوالے
-9 ملکی خزانہ اسحاق ڈار کے حوالے
-10 اور ملک اللہ کے حوالے
اس خوش قسمت پاکستانی کو قدرت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ اس نے دل کی بات اپنے ہموطنوں تک دلکش انداز میں اخبارات اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھجوا دی ہے۔ میں نے فیس بک سے یہ نقل کی ہے اور عوام کے فائدے اور اطمینان کے لیے اسے اخبار میں چھاپ رہا ہوں اور ثواب کا طلب گار ہوں۔ ٹی وی نے ایک اور پریشان کن خبر یہ دی ہے کہ میاں محمد شہباز شریف نقل مکانی پر مجبور لوگوں سے عید کا خطاب کر رہے تھے کہ دوران تقریر حسب معمول وہ کوئی شعر پڑھنا چاہتے تھے کہ بھول گئے۔
میاں صاحب جو تقریر کے دوران اپنے خاص جوشیلے انداز کی وجہ سے بہت مقبول ہیں شروع شروع میں وہ جوش تقریر میں اپنے سامنے رکھے ہوئے مائیک ہاتھ مار کر توڑ دیتے تھے۔ بعد میں انھوں نے شعر پڑھنے بھی شروع کر دیے لیکن کہاں شعر و شاعری اور کہاں ایک کاروباری آدمی چنانچہ احتیاطاً ان کی مدد کے لیے انھیں مستقل بنیادوں پر ایک مستند شاعر بھی سپرد کر دیا گیا جسے ملک الشعراء کا خطاب بھی دے دیا گیا تا کہ وہ خوش رہے اور میاں صاحب کو بروقت موزوں شعر فراہم کرتا رہے اور اس میں اتنی شاعرانہ صلاحیت بھی ہو کہ بوقت ضرورت شعر ایجاد بھی کر سکے۔
چنانچہ میاں صاحب اپنی تقریروں میں جالبؔ مرحوم کے خطرناک انقلابی شعروں کی جگہ نئے دور کے شعر بھی سنانے لگے جن سے سامعین خوش ہو کر تالیاں بجاتے رہے لیکن یہ توقع نہ تھی کہ وہ دوران تقریر جب ان کا جوش خطابت شعر کا طالب ہو گا تو موزوں شعر یاد ہونے کے باوجود بھول جائے گا۔ اسے میاں صاحب کے جوش خطابت کی وجہ قرار دیا جائے یا ملک الشعراء کی سستی کہ وہ کوئی مناسب شعر میاں صاحب کو اچھی طرح یاد نہ کرا سکے اور جب وہ تقریر کے عروج پر تھے تو شعر بھول گئے۔ ایسی بھول کی کوفت کوئی پر جوش مقرر ہی بتا سکتا ہے۔
بہر حال جو ہونا تھا وہ ہوگیا میاں صاحب اور ان کے معاون شاعر آیندہ سستی نہ کریں تا کہ تقریر کی روانی جاری رہے۔ لیڈروں کی یہی وہ تقریریں ہیں جو ان کی سیاست کا اثاثہ ہوا کرتی ہیں اور ان کے پیروکار انھی تقریروں سے روشنی پاتے ہیں اور آگے چل کر وہ خود سیاستدان بن جاتے ہیں اور اپنی تقریروں میں شعر اور لطیفے بیان کرنے لگتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ایسے بارونق اور خوش گفتار لیڈروں کے نام سن کر ہی جلسوں میں آ جاتے تھے۔ ایسے مقبول عام لیڈروں کی تقریر بھی جلسے کے آخر میں رکھی جاتی تھیں تا کہ حاضرین اس کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔
آجکل میں دیکھتا ہوں کہ ایسے لیڈر بہت کم رہ گئے ہیں اور جلسوں کی رونق بڑھانے والوں کا قحط پڑ گیا ہے اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام جلسے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ سیمینار لے رہے ہیں جن میں چند دانشور اپنے علم و فضل کے دریا بہا کر چلے جاتے ہیں اور دوسرے دن کے اخبارات کا انتظار کرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ صحافی مولوی سعید فرمایا کرتے تھے کہ ہماری خاندانی زندگی میں فریج نے کنجوسی پیدا کی ہے کہ جو بچ جائے وہ کسی کو دینے کے بجائے فریج میں محفوظ کر لیا جائے اسی طرح میز کرسی پر کھانے سے ہماری عائلی زندگی کا ملاپ اور جڑ کر مل بیٹھنا ختم ہو گیا اور دن رات مشترکہ کھانے کا یہ بہترین خاندانی عمل ختم ہو کر گھروں میں دوری کا سبب بن گیا۔
ایک گھر والے الگ الگ کرسی پر بیٹھ کر کھانے لگے۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری سیاسی زندگی کا ہوا ہے۔ جلسے کی اسٹیج پر اب افراتفری کی کیفیت نہیں رہتی۔ لیڈروں کے قریب بیٹھنے کے لیے کارکنوں میں لڑائی نہیں ہوتی اور نہ ہی سفارشیں چلتی ہیں۔ ملک غلام مصطفے کھر نے کسی زمانے کی یاد میں موچی دروازے کی عارضی اسٹیج کو پختہ کر دیا تھا۔
بھٹو صاحب کی لاہوری سیاست نے اسی اسٹیج پر نشوونما پائی اور پرانے پیپلز پارٹی والے موچی دروازے کی اس اسٹیج کو بھول نہیں سکتے مگر پرانے لوگ رہے ہی کتنے ہیں اور اب یہ پختہ اسٹیج بھی ویران ہو گئی ہے کوئی یہاں جلسہ ہی نہیں کرتا۔ ملک غلام مصطفے ابھی لاہور میں ہیں مگر وہ بھی شاید اس پرانے ٹھکانے کو بس یاد کرتے ہوں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا اور یہ زمانہ جس میں یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں یہ بھی زیادہ عرصہ کا مہمان نہیں۔ رہے نام نئے دور اور اس کے تقاضوں کا۔ ہر نیا وقت اپنے آپ کو آنے والے وقت کے حوالے کر جاتا ہے اور خود گزر جاتا ہے۔ بقول شوکت واسطی
ہم رہ گئے اکیلے زمانہ گزر گیا