’’میں عثمان مروندی منصور حلاج کا دوست‘‘

عبدالقادر حسن  جمعرات 12 جولائی 2012
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

انھی دنوں سرزمین سندھ میں ایک قلندر صوفی حضرت سخی لعل شہباز قلندر کا عرس منایا گیا۔ اس دربار کے قلندروں نے عالم بے خودی میں رقص کیا اور حضرت کے ملنگوں نے دھمال ڈالی۔ یہ بزرگ 538 ہجری میں ایک روایت کے مطابق آذربائیجان (آرمینیا) کے ایک گائوں مروند میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید محمد عثمان تھا۔ آپ نے گو شہرت سخی لعل شہباز کے نام سے پائی مگر وہ خود عثمان مروندی کہلاتے تھے۔

سیر و سیاحت کے سلسلے میں وہ سندھ میں پہنچے اور یہیں مدفون ہوئے۔ مجھے ان دنوں ایک سے زیادہ خطوط اور فرمائشیں موصول ہوئی ہیں کہ میں ان کی وہ شہرہء آفاق غزل کہیں سے تلاش کروں جس کے تتبع میں حضرت امیر خسرو اور کئی دوسرے شاعروں اور صوفیوں نے شعر کہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ یہ غزل فارسی میں ہے اور کتابت میں تو جانی پہچانی اردو میں بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اجنبی فارسی میں تو ایسی غلطیاں آسان ہیں لیکن جن لوگوں نے فرمائش کی ہے وہ فارسی بھی جانتے ہی ہوں گے اور دوسرے ایسے کئی لوگ بھی ابھی تک موجود ہیں جو فارسی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اصل غزل ملاحظہ فرمائیے ترجمے کے ساتھ لیکن شعر کا نثر میں ترجمہ مشکل ہی نہیں بڑی حد تک بے جان بھی ہو جاتا ہے۔

ز عشق دوست ہر ساعت درونِ نار می رقصم
گہے بر خاک می غلطم گہے بر خار می رقصم

(دوست کے عشق میں ہر دم آگ میں رقص کرتا ہوں کبھی خاک میں آلودہ ہوتا ہوں اور کبھی کانٹے پر رقص کرتا ہوں)

بیا اے مُطرب مجلس سماع ذوق را دردہ
کہ من از شادیء وصلش قلندروار می رقصم

(اے مطرب ذوق سماع کی محفل کو زندہ کروکہ میں اس کے وصل کی خوشی میں قلندروار رقصاں ہوں)

شرم بدنام درعشقش بیا اے پارسا اکنوں
نمی ترسم زرسوائی بہر بازار می رقصم

(اس کے عشق میں شرم اور بدنامی کیا اے پارسا اب آئومیں کسی رسوائی سے نہیں ڈرتا اور ہر بازار میں رقصاں ہوں)

مرا خلقے ہمی گوئد گدا چندیں چہ می رقصم
بدل داریم اسرارے ازاں اسرار می رقصم

(مجھے سب کہتے ہیں تم ایک گداگر اس قدر کیوں رقص کرتے ہولیکن میں دل میں ایک راز رکھتا ہوں اس راز کی دھن میں یہ رقص کرتا ہوں)

منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصورم)
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

(میں عثمان مروندی ہوں جو خواجہ منصور (حلاج) کا دوست ہوں خلق خدا مجھے ملامت کرتی ہے مگر میں دار پر رقص کرتا ہوں)

فارسی زبان میں صوفیائے کرام کی شاعری کا ایک مسحور کن ذخیرہ موجود ہے۔ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے شاعری بھی سلوک و معرفت کی منزلوں کی ایک منزل تھی۔ شاید ہی کوئی صوفی ہو جو شعر سے محروم ہو اور اگر کسی کی شاعری کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا تو عمر بھر روتا رہا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا کلام جو ایک بیاض میں درج تھا چوری ہو گیا۔ حضرت اس سے اس قدر دلگیر ہوئے کہ بار بار اس چوری کا ذکر کرتے رہے۔ جیسے کسی نے ایک منظوم کشف المحجوب چرا لی ہو۔ حضرت عثمان مروندی کی مندرجہ غزل کی زمین میں کئی اضافے کیے گئے بعض اضافے بلند پایہ بھی ہیں اور اس غزل کا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ اس طرح کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے کہ میں تو کانٹے پر شبنم کے قطرے کی طرح رقص کرتا ہوں

منم آں قطرۂ شبنم بنوک خار می رقصم

حضرت امیر خسرو جیسے شاعر نے بھی اس غزل کی پیروی کی ہے لیکن اصل دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اس فارسی زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کا مرجع ہے۔ سکھوں تک کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ آزادی کے بعد لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے سفیر نے کہا کہ آزاد پاکستان کی سرکاری زبان تو فارسی ہونی چاہیے جو برطانوی سامراج نے ترک کر دی تھی۔ فارسی زبان میں ہمارا کیا کچھ ہے اس کے ذکر کے لیے کئی دفتر چاہئیں۔ خود اقبال اور غالب کا نصف کلام فارسی میں ہے وہ دونوں اپنے فارسی کلام پر فخر کرتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی فارسی میں ہے جس کے حوالوں کے بغیر ہماری ثقافت مبہم سی ہو جاتی ہے۔ خود داتا صاحب کی کتاب فارسی زبان میں ہے۔ مگر خدا معلوم ہمارے بعض حکمران تو انگریزی زبان کو پہلی جماعت سے ہی رائج کر رہے ہیں۔ ترکی اور وسطی ایشیا میں رسم الخط کی تبدیلی اور کسی نئی زبان کو تعلیمی اداروں میں رائج کیا گیا تو یہ قومیں اپنی اسلامی تہذیب سے ناآشنا ہو گئیں اور اب تک اس پر نالاں ہیں۔
میں ان کے اس غم و اندوہ کا خود گواہ ہوں۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ صدیوں تک کسی زبان میں جمع ہونے والے علمی ذخیرے کو آپ کس طرح کسی دوسرے زبان اور رسم الخط میں منتقل کر سکتے ہیں۔ میں نے خود بخارا جیسے علمی اور اسلامی شہر میں قرآن پاک کے کسی بوسیدہ ورق کو غلافوں میں لپیٹے دیکھا کہ اس گھر میں یہی ایک ورق ہی بچ گیا تھا جو بچے کی پیدائش پر اس کے چہرے پر لگایا جاتا تھا اور میت کے سینے پر چند لمحوں کے لیے رکھ دیا جاتا تھا۔ یہ کہانی بہت لمبی ہے جو پاکستان میں بھی دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے اور میں ان کوششوں کو دیکھ رہا ہوں۔ بہرکیف فی الحال عرض ہے کہ میں عثمان مروندی ہوں منصور حلاج کا دوست اور سولی پر رقصاں ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔