امریکا کی مداخلت کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے جو یقیناً ان دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے سمیت عالمی سیاست کے لیے اچھی خبر ہے۔ اگر کچھ اور دن جنگ جاری رہتی تو اس کے خطرناک رجحانات سامنے آتے جو دونوں ملکوں سمیت عالمی دنیا اور خطے کے لیے نئی مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتے تھے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی کوشش نے پاکستان و بھارت یعنی ایٹمی ممالک کو ایک بڑے جنگی بحران سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ویسے بھی جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور یہ عمل حالات کو نہ صرف بگاڑنے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ریاستیں تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر جنگ کو مسلط کرنے سے بھارت کو کیا کچھ حاصل ہوا۔
اس حالیہ تنازعہ اور جنگی ماحول نے بھارت کو سیاسی، معاشی، انتظامی، سفارتی اور دفاعی محاذ میں پسپائی پر لا کھڑا کر دیا ہے۔بھارت کے بارے میں یہ جو ایک عمومی تصور تھا کہ وہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس سے مقابلہ کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہوگا، غلط ثابت ہوا۔خود امریکا سمیت جو عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی خواہش مند تھیں ان کو بھی بھارت کی پسپائی پر کافی شرمندہ ہونا پڑا۔ ان عالمی سطح کی قوتوں کو اندازہ ہوا کہ بھارت کی جنگی صلاحیتیں وہ نہیں جو وہ ہمیں دکھاتا رہا ہے۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے ان حالات میں نہ صرف زیادہ صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے عمل سے ہر شعبے میں بھارت کے مقابلے میں اپنی برتری بھی ثابت کی۔اسی طرح بھارت جو اس خطے میں ایک بڑے ملک کے طور پر اپنی سیاسی برتری قائم کرنا چاہتا تھا اس کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔بھارت کی پاکستان کے خلاف اس کی مہم جوئی نے اس کا داخلی مقدمہ اور سفارت کاری کے محاذ کو کمزور کردیا ہے اور بھارت آسانی سے اس پسپائی سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ بھارت کے اس ایڈونچر نے عالمی دنیا میں پاکستانی ساکھ کو بہت بہتر بنایا ہے اور بھارت سمیت عالمی دنیا نے پاکستانی صلاحیتوں پر جو غلط اندازے لگائے ہوئے تھے، ان کی شکست پاکستان کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نے پاکستان اور بھارت کی جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کیا مشروط تھا یا غیر مشروط یا کن شرائط پر امریکا نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس جنگ بندی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی با مقصد مذاکرات ممکن ہو سکیں گے ۔ کیا یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت مل کر ہی کریں گے یا اس میں امریکا سمیت کسی اور ملک کا ثالثی کا کردار ہوگا۔
یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے اور اس کا ایجنڈا کیا ہوگا اور یہ ایجنڈا کون طے کرے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل میں بھی ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اگر دونوں ملکوں کے درمیان بامعنی مذاکرات نہیں ہوتے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔
نریندر مودی کو حالیہ مہم جوئی میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے وہ آسانی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔اگر وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اس سے بھارت میں موجود آر ایس ایس اور انتہا پسند ہندو مودی کی مخالفت میں سامنے آجائیں گے اور اس کا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔
اس لیے نریندر مودی کے پاس پاکستان مخالف کارڈ ہی ایسا کارڈ ہے جس سے ان کی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے۔مودی کی مقبولیت کا اس حالیہ مہم جوئی کے نتیجے میں درست اندازہ آنے والے چند ماہ میں بہار سمیت دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات ہیں اور اس انتخابی مہم میں وہ پاکستان کی ہر صورت مخالفت کاکارڈ ضرور کھیلیں گے ۔اگر وہ یہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے تو مودی کی سیاسی بحالی ممکن ہوگی۔
نریندر مودی کی حکومت کیونکہ اتحادی جماعتوں کی مرہون منت ہے اور فوری طور پر اتحادی بھی انھیں چھوڑنے سے گریز کریں گے اور دیکھیں گے کہ آنے والے ریاستی انتخابات میں مودی کہاں کھڑے ہوں گے اور ان نتائج کی بنیاد پر ان کے اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلتا ہے تو پاکستان اور بھارت اپنے اپنے ایجنڈے پر زور دیں گے اور دیکھنا ہو گا کہ اس پر عالمی برادری کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔
اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ نریندر مودی کی حکومت اس سیاسی سبکی کے بعد پاکستان میں پہلے سے جاری اپنی پراکسی وار بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں جاری رکھے گی تاکہ پاکستان کے داخلی حالات میں عدم استحکام یا دہشت گردی کو برقرار رکھے۔بھارت کوشش کرے گا افغانستان کے معاملے میں بھی وہ افغان طالبان کے ساتھ کھڑا ہو اور ان کو اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرے۔
اس حالیہ مہم جوئی میں بھارت کو ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے اور کئی عالمی اداروں سمیت اہم ملکوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور دو طرفہ حل سامنے نہیں آجاتا۔بھارت کے لیے یہ بھی بڑا سیاسی دھچکا ہے کہ اس حالیہ مہم جوئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر اس کے حل پر زور دیا اور اپنی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
بھارت کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کا ایجنڈا بنائے اور اس پر وہ عالمی قوتوں کا دباؤ بھی آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔اس لیے پاکستان کو اب بھی بھارت کے ایجنڈا سے خبردار رہنا ہوگا کیونکہ مودی حکومت پاکستان کو مشکلات میں رکھنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔