ہمارے ’شہیدوں‘ کا میدان جنگ
ایسی خوش نصیبی کی ہر گز توقع نہ تھی کہ اس زندگی میں بھی ہم کبھی اپنی شاندار تاریخ کو زندہ دیکھ سکیں گے
ایسی خوش نصیبی کی ہر گز توقع نہ تھی کہ اس زندگی میں بھی ہم کبھی اپنی شاندار تاریخ کو زندہ دیکھ سکیں گے، وہ تاریخ جس کی کشور کشائی کے کارناموں کو ہم صرف کتابوں میں ہی پڑھتے اور خون گرماتے رہے۔ اللہ اور رسولؐ کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک نے کئی جنگوں کا مقابلہ کیا لیکن یہ سب اس پر ٹھونسی گئی تھیں مگر ایک جنگ ایسی بھی ہم دیکھ رہے ہیں جس میں ہمارے اپنے ہمارے دشمن بن گئے اور انھیں ختم کرنا لازم ٹھہرا ورنہ وہ ہمیں ختم کر دیتے۔
یہی وہ جنگ ہے جسے ہماری تاریخ میں جہاد کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے کسی جہاد کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ہماری خوش قسمتی قرار دیا ہے کہ اس میں شہادت پانے والا زندہ رہتا ہے۔ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے سوتا جاگتا ہے مگر ہم اسے دیکھ نہیں سکتے اور جو اس جہاد میں کام نہیں آتا وہ غازی کہلاتا ہے جس کے درجات بہت بلند ہیں۔ میرے باپ کے چھ بیٹے تھے اور ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ انھیں جہاد میں جانا نصیب ہو اور وہ اپنے چھ بیٹے اس کی نذر کر دیں۔
زیادہ کیا عرض کریں کہ اس وقت ہم ایک ایسے میدان جنگ میں ہیں جس پر جہاد کا حکم ثابت ہے۔ اس جہاد کے قائد ہم میں سے ہیں اور اس کے سپاہی بھی اور سچ پوچھیں تو ہم خالد بن ولیدؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ کا دور دیکھ رہے ہیں، یقین نہیں آتا کہ ہمارا سپہ سالار اس مبارک سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے ہیرو ہمارے لیے بابرکت نام ہیں اور جن ناموں کی برکت سے ہم نئی زندگی پاتے ہیں۔
ہمارا جرنیل راحیل شریف ایک خالص جہادی خون کی امانت ہے اس کے والد فوج میں رہے اور اس کا بھائی پاکستانی فوج کا سب سے بڑا اعزاز لے کر اپنے خاندان کو زندہ کر گیا۔ یہ خوش نصیب سپاہی آج پاکستانی فوج کا سپہ سالار ہے۔ خالد بن ولید اور سلطان ایوبی کی مسند پر بیٹھا ہے اور اس جہاد کی قیادت کے ہر لمحے میں اپنے درجات بلند کر رہا ہے۔ اسلام ایک نظریہ کا نام ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا اور اس کے ماننے والے اپنے گزرتے ہوئے بلند مرتبہ ساتھیوں میں شمار ہوتے رہے ہیں۔
پیغمبر علیہ الصلوۃ اور ان کے تربیت یافتہ اصحاب کے بعد کوئی بھی مسلمان اسلام کے نظریہ اور تعلیمات پر عمل کر کے کسی بھی مقام تک پہنچ سکتا ہے اسلام میں کوئی بند دروازہ نہیں ہے اور ہر مسلمان کسی بھی دروازے سے گزر کرکوئی بھی منزل پا سکتا ہے۔ جیسے آج ہمارے سپہ سالار اسلام کے تاریخی سپہ سالاروں کی صف میں کھڑے ہیں اور میدان جہاد میں ایک جہاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ زہے نصیب۔
پاکستان پیدا ہوا تو ایک چالاک سازشی اور خطرناک دشمن کے ساتھ وجود میں آیا۔ جس کا مقصد پاکستان کو فتح کرنا نہیں اسے ختم کرنا تھا کیونکہ اس کے خیال میں اس کی ملکیتی زمین میں سے ایک حصہ زبردستی کاٹ کر پاکستان کے نام سے ایک ملک بنا دیا گیا اور وہ بھی نظریاتی لحاظ سے ایک دشمن ملک جس کا بھارت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنتا چنانچہ بھارت کے خلاف ایک مسلسل حالت جنگ میں ہے کبھی اسلحہ کی جنگ اور کبھی کوئی تخریب کاری۔ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بار اپنی افواج اس کی سرحدوں پر لے آیا۔
ہمارا اس وقت کا صدر ضیاء الحق کرکٹ دیکھنے کے بہانے بھارت گیا اور بھارتی وزیراعظم سے گلے ملتے ہوئے بتا دیا کہ ہمارے پاس بھی ایک کھلونا موجود ہے۔ دشمن کے سامنے پاکستانی ایٹم بم کا یہ پہلا اعلان تھا اس کے بعد بھارتی فوجیں فوراً واپس بلا لی گئیں اور پھر یہ طے ہوا کہ ایٹمی حملے سے بچنے کے لیے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی جائے۔ اسی تخریب کاری کا ایک مرحلہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جس نے ہماری زندگی میں زہر بھر دیا ہے اور ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم اس کے مکمل خاتمے کا فیصلہ کریں چنانچہ پاکستان کی گلی گلی خصوصاً اس کے شمالی پہاڑی علاقوں میں جہاں تخریب کاروں نے گویا اپنی چھائونیاں بنا لی تھیں ان کو ختم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔
دنیا کی تاریخ کا یہ مشکل ترین میدان جنگ تھا جس میں دشمن پہاڑوں کے غاروں اور پتھروں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا ہر پتھر کے نیچے کوئی دشمن تھا پاکستانی سپاہ کو پائوں بھی پھونک پھونک کر رکھنے تھے لیکن وہ تو ایک ایسی جنگ میں تھے جس میں زندگی کا پیشگی سودا کیا جا چکا تھا، شہید یا غازی۔ پاکستانی فوج ایک ایسی فوج کے مقابلے میں معرکہ آراء تھی جس کا اس کے سامنے کوئی نام و نشان نہ تھا ایک دکھائی نہ دینے والی فوج کے خلاف جنگ۔ یعنی اندھیرے میں تیر چلانا لیکن کمال دیکھئے ہمارے سپاہیوں اور جرنیلوں کی جنگی حکمت عملی کا کہ انھوں نے اس چھپے ہوئے دشمن کو تلاش کر لیا اور اس کا قلع قمع کر دیا، اس ضمن میں ہمارے سپہ سالار نے جو اعلان کیا ہے وہ میں پیش کر رہا ہوں کہ اس سے زیادہ مصدقہ اور ایمان افروز خبر کسی نے نہیں دی۔
مجھے اپنے جرنیل کا یہ بیان پڑھ کر تاریخ کے کئی ایسے واقعات یاد آئے لیکن کالموں میں اتنی گنجائش کہاں۔ ہمارے جرنیل نے عید اپنی سپاہ کے ساتھ منائی اور اسے اس کی کامیابی کی خوش خبری بھی سنائی۔ خبر یہ ملی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاک فوج نہایت جرات و بہادری اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا اب وہ کسی صورت واپس شمالی وزیرستان نہیں آ پائینگے۔ ہمیں اپنے بارڈر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی دراندازی نہ کر سکے وہ عید کے روز شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے دستوں سے خطاب کر رہے تھے۔
جنرل راحیل شریف نے عید اگلے مورچوں پر فوجیوں کے ساتھ منائی۔ وہ عید کی رات شمالی وزیرستان پہنچے اور ساری رات میرانشاہ کے کیمپ میں جوانوں کے ساتھ گزاری۔ جنرل راحیل شریف جب شمالی وزیرستان پہنچے تو انھیں ضرب عضب اور اس آپریشن کی اب تک کامیابیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
آرمی چیف نے آپریشن ضرب عضب پر اطمینان کا اظہار کیا انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والے فوجیوں کے جذبے و جرات اور عزم کی تعریف کی اور انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا، جنرل راحیل شریف نے اس آپریشن کے دوران شہید اور زخمی ہونے والوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ جنہوں نے ملک کے دفاع کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک فوج کارروائیاں جاری رکھے گی اور ہم رکیں گے نہیں۔ پوری قوم کے تعاون سے پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا دلا کر رہیں گے اور پاکستان کو دہشتگردی سے فری ملک بنائیں گے۔
پاکستان کے سپہ سالار اور جہاد کے کمانڈر جنرل راحیل شریف نے پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ بے فکر رہیں کیونکہ ان کی حفاظت اور خدمت کے لیے کوئی جاگ رہا ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹم بم بنایا ہے تب سے بھارت کی جنگی حکمت عملی بدل گئی ہے اب وہ پاکستان کے خلاف لشکر کشی کی جرات نہیں کر پاتا اور جیسا کہ عرض کیا ہے اب آخری کوشش یہی تخریب کاری ہے لیکن اگر پاکستانی عوام خبردار رہیں اور ان کی حکومت بھی جاگتی رہے تو بھارت اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ اس کے ایک کمانڈر کے بقول دو برس بعد ہم پاکستان کو فتح کر لیں گے۔
ضرور تشریف لائیے اور دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے لیکن اس کا ہمارے پاس کیا علاج کہ ہماری حکومتیں بھارت پرستی میں اپنی خوشی سمجھتی ہیں۔ کبھی وہ واہگہ بارڈر کو آزاد کرنے کی بات کرتی ہے اور کبھی بھارت کو بے حد پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش کرتی ہے مگر ہر کوئی یاد رکھے بھارت کو پاکستانی قبول نہیں کریں گے۔