کیا تھا کیا ہو رہا ہے

دنیا بھر کے مسلمانوں کو سہارا ملا جو مغرب کے لادینی سامراج کا نشانہ تھے


Abdul Qadir Hassan August 06, 2014
[email protected]

کوئی 67 برس پہلے اسی مہینے میں پاکستان کا قطعاً غیر متوقع قیام عمل میں آیا۔ ہر ہندو اس کے قیام کا مخالف تھا اور کئی مسلمان دینی لیڈر بھی پاکستان کے قیام مخالف تھے۔ صرف علامہ اقبال کی روح اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کا وجود اس کے حق میں تھا اور برصغیر کے مسلمان ان کے ساتھ تھے۔ نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی برادری میں اس جاندار اضافے پر شاداں تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کا دنیا بھر میں ایک مقام تھا۔

مسلمانوں کی عالمی سیاست اور علوم و فنون کا یہ علاقہ مرکز تھا اور مسلمان یہاں ایک مسلمان آزاد ریاست کے قیام کے حق میں تھے وہ یہاں کی اسلامی ریاست کو اپنی طاقت سمجھتے تھے۔ ذرا حافظے پر زور دیجیے اس نئے ملک کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنا قائد سمجھا۔ ایک تازہ دم مسلمان ملک جو علانیہ اللہ و رسولؐ کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ اسے دنیا بھر کے مسلمانوں نے بڑے فخر کے ساتھ قبول کیا۔ برصغیر کے بعض دینی بزرگوں کی طرح عرب دنیا میں بھی خاص مقاصد کے تحت اس ملک کے قیام پر ناک بھوں چڑھائے گئے۔ مصر کے بادشاہ نے طنزاً کہا کہ اسلام تو 1947ء میں نازل ہوا ہے۔ بہر کیف عالم اسلام میں پاکستان کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو سہارا ملا جو مغرب کے لادینی سامراج کا نشانہ تھے اور مغربی دنیا کے تاجر مسلمان ملکوں کو لوٹ رہے تھے۔ میں نے پہلی بار پیرس شہر کا حسن دیکھا تو میرے ہم سفر نے جو ایک مصری تھا مجھ سے کہا کہ یہ سب افریقہ کی دولت کا کرشمہ ہے۔ فرانس ایک مدت تک کئی افریقی ملکوں کا مالک رہا۔ یہانتک کہ ایک افریقی مسلمان ملک الجزائر کو جب آزادی دینے کا سوال پیدا ہوا تو فرانسیسی حکومت نے کہا کہ یہ تو فرانس کا ایک حصہ ہے (اٹوٹ انگ) یہ کیسے آزاد ہو کر ایک علیحدہ ملک بن سکتا ہے۔ وہ تو الجزائریوں کی تحریک آزادی نے کسی کی نہ چلنے دی۔

پاکستان دنیا بھر کے سابقہ غلام ملکوں کا قائد بن کر سامنے آیا جس کے قائدین نے دنیا میں مشہور ہندو لیڈروں گاندھی وغیرہ کو شکست دی تھی۔ پاکستان چونکہ ایک جمہوری مزاج رکھنے والے لیڈر کا عطیہ تھا اس لیے اس نے اپنی آزاد زندگی کا آغاز ایک جمہوری ملک کے طور پر کیا تا آنکہ چند برس بعد ہی جمہوری حکمرانوں کے آخری فرد کو قتل کر دیا گیا۔ یوں جمہوریت ختم ہو گئی اور ایک فوجی ایوب خان ملک کا حکمران بن گیا۔ یہ دن ایک جمہوری اسلامی پاکستان کے زوال کا دن تھا۔ ایوب کے دور میں وہ لوگ اور طبقے جو برطانوی دور کے پروردہ تھے اور جاگیردار تھے نئی حکومت میں سامنے آنے شروع ہوگئے۔

تعجب نہ کیجیے کہ جب ایوب خان نے اپنی پارٹی بنائی تو اس وقت قائداعظم کی مرکزی مجلس عاملہ کے جو ارکان زندہ تھے وہ سب ایوب خان کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ پاکستان کے بڑے کہلانے والے لوگ پاکستان پر رفتہ رفتہ مسلط ہو گئے۔ انھیں اشرافیہ کہا جانے لگا۔ برسوں بعد اس اشرافیہ کو اس کے کرتوتوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ''بدمعاشیہ'' کہا گیا اردو میں اشرافیہ یعنی شریف کا متضاد بدمعاش ہوتا ہے۔

بہر کیف اس اشرافیہ نے اقتدار میں آ کر ملک کی حالت ہی بدل دی اس دوران کسی اسمبلی نے ملک کا نام تو 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' رکھ دیا لیکن عملاً یہ نہ اسلامی ملک رہا نہ جمہوری رہا اور نہ ہی وہ پاکستان رہا جو پہلے تھا۔ یہ ٹوٹ کر نصف ہو گیا۔ اسی اشرافیہ کے چند اقتدار پرستوں نے ملک توڑ دیا اور اس کے ایک حصے میں اپنی وزارت عظمیٰ قائم کر لی جو متحدہ پاکستان میں ممکن نہیں تھی۔ یہ سیاست کا ایک بدترین عمل تھا جس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بڑی دیدہ دلیری سے اس نصف پاکستان کو نیا پاکستان کہا گیا اور آج ہم اس نئے نصف پاکستان میں آباد ہیں۔

ایوب خان کے دور سے ملک کی سیاست کے معیار بدل گئے سیاست کے آداب بدل گئے اور سیاست جاننے والے سیاستدان بدل گئے بلکہ رفتہ رفتہ ختم ہو گئے۔ یہانتک کہ ملک کی قیادت نہ جانے کن لوگوں کے پاس چلی گئی۔ اس نئی قیادت میں وہ لوگ بہت مشہور ہیں جو نصف پاکستانی ہیں۔ جی ہاں نصف پاکستانی۔ طاہر القادری ملک کینیڈا کے شہری بھی ہیں اور کوئی ہے جو کینیڈا کی شہریت کا حلف نامہ اور معاہدہ پاکستانیوں کی خدمت میں پیش کرے۔

ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ ایک پاکستانی نے سخت محنت اور مشقت کے بعد امریکا کی شہریت لینے میں کامیابی حاصل کر لی۔ جب اس کے سامنے امریکی شہریت کا حلف نامہ رکھا گیا تو اس میں واضح طور پر درج تھا کہ جب کبھی ملک کے دفاع کا مسئلہ سامنے آیا تو میں اس کے خلاف کسی بھی ملک سے جنگ کروں گا۔ یہ عہدہ لے کر یہ شق پڑھ کر اس پاکستانی نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ میں نے تو اتنی محنت ملک کی خدمت اور ہر قسم کی خدمت کے لیے کی ہے نہ کہ اس طرح کے کسی عہد نامے کے لیے۔ آپ کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کریں تو اس میں ایسی شق لازماً ہوگی۔

اب یہ آپ کا ایمان ہے کہ پاکستانی رہتے ہیں یا کوئی اور۔ ہمارے شیخ الاسلام عالم دین اور دینی علوم کے مصنف اور ماہر کوئی ایسا ہی عہد نامہ کر چکے ہیں۔ کیا وہ کسی جلسے میں قوم کو یہ حلف نامہ دکھا سکتے ہیں۔ یہ حضرت کس انقلاب کا اعلان کر رہے ہیں۔ کچھ توخوف خدا کریں پہلے پورے پاکستانی بنیں پھر شوق سے انقلاب لے آئیں۔ 'مسٹروں' کے انقلاب ہم نے بہت دیکھے ہیں اب 'مولویوں' کے انقلاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بات مسٹروں کے بعد کسی مولوی کے انقلاب کی ہو رہی تھی۔ کیا شیخ الاسلام اپنی آمدن کا ذریعہ بتا سکتے ہیں۔

افسوس کہ ان کے مخالف اور نقاد خود گندے لوگ ہیں وہ کسی کا گند کیا پھولیں گے۔ ورنہ سوائے چندے کے حضرت کا ذریعہ آمدنی اور کوئی نہیں ہے جس سے اربوں کی سیاست کی جا سکے۔ ایک لطیفہ یاد آیا ہے کہ مجلس احرار کے لیڈر شیخ حسام الدین سیالکوٹ میں تقریر کر رہے تھے کہ انھوں نے حاضرین سے چندے کی اپیل کی ایک نوجوان نے جلسہ سے اٹھ کر گستاخی کی کہ شیخ صاحب ہمارا پہلے والا چندہ کہاں گیا۔ اس شیخ صاحب نے برہم ہو کر کہا کہ جس نے حساب لینا ہو وہ چندہ نہ دے۔ میں ایک شخص کے بارے میں یہ چند سطریں اس لیے ضایع کر رہا ہوں کہ وہ اگست کے اس مہینے میں کہیں کوئی فساد نہ پھیلا دیں اور بے گناہ پاکستانی مارے جائیں۔

ان دنوں حضرت کے مقابلے میں ایک مسٹر ہیں جناب عمران خان۔ اس لیڈر کی زندگی میں کوئی پاکستانی عیب نہیں۔ اسے دنیا کے کسی ملک کی شہریت مل سکتی تھی مگر اس نے نہیں لی پاکستانی ہے اور پاکستانی رہے گا۔ رہی اس کی سیاست تو وہ جب اس کا دائو لگے گا تو دیکھ لیں گے اب تک تو اس نے عوام کی خدمت کے لیے بڑے کارنامے کیے ہیں اور کرتا چلا جا رہا ہے اس کا ایک اسپتال ہی کم نہیں ہے اب مغربی معیار کی یونیورسٹی بن چکی ہے اور تعلیم و صحت کے میدانوں میں اس کی محنت کا سلسلہ جاری ہے۔

عمران کے دو بچے باپ کی سیاسی مہم میں حصہ لینے آ رہے ہیں کوئی مجھ سے پوچھے تو وہ نہ آئیں تو بہتر ہے۔ ہمیں عمران کی سیاست کو کچھ دینا چاہیے اس سے کچھ لینا نہیں چاہیے بہر کیف جو اللہ کو منظور ہو گا۔ اگر کسی کا ماضی اس کے مستقبل کا گواہ ہے تو عمران کے پاس ایک اچھی گواہی موجود ہے لیکن یہ قوم بعض اوقات بڑے دلچسپ فیصلے کرتی ہے اور پھر روتی ہے جیسے اب چیخیں نکال رہی ہے۔

67 برس پہلے کی پاکستانی قوم اور آج کی پاکستانی قوم جو ایک ہنگامے کا نام بنتی جا رہی ہے پاکستان کی سیاست کا مطالعہ کرنے والوں کو یاد رہے گی کہ وہ کیا سے کیا ہو گئی ہے۔

مقبول خبریں