کنگ میکر: خواب سے حقیقت تک

کنگ میکر کے لیے ایک اور مشکل دن اس وقت آیا جب ایف ایس سی کے بعد اْس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینا چاہا


اسلم مراد November 07, 2025

سیالکوٹ کے ایک اسکول میں استاد نے دسویں جماعت کے طلبہ سے سوال کیا کہ وہ اپنی زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں۔ کسی نے ڈاکٹر بننے کی خواہش ظاہر کی، کسی نے انجینئر، کسی کی آنکھوں میں پائلٹ اور آرمی آفیسر بننے کے خواب چمک رہے تھے۔ لیکن جب ایک عام سے طالب علم سے یہی سوال کیا گیا تو اْس نے گہری سانس لے کر پْرعزم لہجے میں جواب دیا:

’’ میں زندگی میں کنگ میکر اور برانڈ میکر بننا چاہتا ہوں۔‘‘اس کے یہ الفاظ سنتے ہی کئی طلبہ کے قہقہے گونج اٹھے۔ وہ ہنسنے لگے کہ ایک ایسا لڑکا جو دن میں سبزیاں بیچ کر اور بھینسوں کا دودھ بیچ کر اپنی فیس ادا کرتا ہے، وہ کنگ میکر بننے کے خواب کیسے دیکھ سکتا ہے؟ مگر اْس لڑکے کے اندر کچھ اور ہی چمک تھی، کچھ ایسا یقین جو حالات کے طوفانوں سے بھی مدھم نہ ہوا۔

کنگ میکر کے لیے ایک اور مشکل دن اس وقت آیا جب ایف ایس سی کے بعد اْس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینا چاہا، مگر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اْسے اپنا خواب قربان کرنا پڑا۔ اس دوران اْس نے اپنے برطانیہ میں مقیم انکل سے درخواست کی کہ وہ اْسے برطانیہ لے جائیں، مگر انکل نے الفاظ کے ہیر پھیر میں ایسی باتیں کیں کہ اْس کی امید ٹوٹنے لگی۔مایوسی اور اْمید کے درمیان جھولتے ہوئے اس نوجوان کا واحد سہارا اس کی والدہ تھیں جو ہمیشہ اسے دعاؤں میں یاد رکھتی تھیں۔ انھی دعاؤں کی برکت تھی کہ آخرکار وہ امریکا پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

امریکی ایئرپورٹ پر جب وہ اْترا تو اس کی جیب میں صرف 23 ڈالر تھے۔ نہ کوئی جاننے والا، نہ مدد کی امید۔ مگر حوصلہ اس کے پاس بے پناہ تھا۔ زندہ رہنے کے لیے کبھی برتن دھوئے، کبھی چھوٹے موٹے کام کیے، لیکن کنگ میکر اور برانڈ میکر بننے کا خواب اْس کے دل سے کبھی نہیں نکلا۔وقت پر لگا کر اْڑ گیا، مگر اس نوجوان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب وہ ریسٹورنٹ کے بزنس میں آیا تو امریکا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس نے ایک کے بعد ایک ریسٹورنٹ کھولا، پھر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں قدم رکھا تو امریکا کی سڑکوں پر اس کے ٹرک دوڑنے لگے۔ وہ عام لڑکا اب ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا۔یہ نوجوان تنویر احمد ہے، وہی تنویر احمد جسے آج پاکستان، جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں پاکستان نژاد امریکی بزنس مین کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اْس نے واقعی کمال کر دکھایا؛ جس مٹی کو چھوتا، وہ سونا بن جاتی۔ امریکا کے بڑے بڑے برانڈز اور بزنس لیجنڈز اْس کے ساتھ شراکت داری کے خواہشمند تھے۔جب کنگ میکر اور برانڈ میکر بننے کا خواب پورا ہوا تو تنویر احمد نے اپنے وطن سے محبت کا قرض اتارنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تعلیم، صحت، اور روزگار کے میدان میں پاکستان کے لوگوں کی مدد کا بیڑا اٹھایا۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے لیے نو ملین ڈالر عطیہ کیے، جس سے چار سو نوجوان اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پچھتر ملین روپے دیے، سیالکوٹ میں جدید ترین ڈائیلیسز سینٹر قائم کیا، اور اپنی انھی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ہلالِ پاکستان جیسے اعلیٰ سول ایوارڈز سے نوازا۔تنویر احمد کو مساجد بنانے کا بھی بے حد شوق ہے۔

وہ اس شوق میں اب تک اربوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔ صرف امریکا میں ہی اْن کی معاونت سے درجنوں مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔تنویر احمد سے ملاقات میں زندگی گزارنے اور کامیابی حاصل کرنے کا وہ نسخہ ملا جو شاید کسی کتاب میں نہ ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’ کوئی بھی کام یا کاروبار شروع کرتے وقت دل سے نہیں، دماغ سے سوچیں۔ کامیابی کے لیے سرمائے سے زیادہ ضروری ہے سخت محنت، بہترین پلاننگ، اور یکسوئی۔ اگر کوئی پاکستانی محنتی ہے تو وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ کامیابی بار بار اْس کے دروازے پر دستک دے گی، بس اْسے اپنی لگن اور پلاننگ سے ان مواقع کو پہچاننا ہوگا۔

اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔‘‘ تنویر احمد کو کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ہیوسٹن میں 86 ایکڑ پر مشتمل ایک شاندار کرکٹ گراؤنڈ تعمیر کیا اور امریکا میں اس کھیل کو اس حد تک فروغ دیا کہ بالآخر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ امریکا میں منعقد ہوا۔ اس سے ایشیا اور امریکا کے درمیان کھیلوں کے فاصلے بھی کم ہوئے۔

تنویر احمد کا ماننا ہے کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ سخت محنت کا کوئی متبادل نہیں۔ تاہم، وہ آج کے نوجوانوں سے قدرے مایوس بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کا نوجوان شارٹ کٹ کے چکر میں ہے، محنت سے گھبراتا ہے، اور یہ سوچتا ہے کہ کسی اچھی پوزیشن یا بڑے بزنس میں جگہ بنانے کے بعد ہی محنت کرے گا۔ بیرونِ ملک جانے کی دوڑ میں نہ ڈگری ہوتی ہے، نہ ہنر، مگر خواب بہت بڑے ہوتے ہیں۔تنویر احمد کی شخصیت، دو گھنٹے کی ملاقات، متعدد ٹیلی فونک گفتگوؤں اور اْن کے لیکچرز سننے کے بعد میں آج کی نوجوان نسل کے لیے چند تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں — جن سے تنویر احمد نے بھی اتفاق کیا: سب سے پہلے، اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد طے کریں۔

اگر نوکری کرنی ہے تو اس شعبے میں اتنی مہارت حاصل کریں کہ لوگ آپ کی محنت اور ویژن کی مثالیں دیں۔ اگر کاروبار کرنا ہے تو اْس کی درست پلاننگ کریں، مارکیٹ کو سمجھیں، اور سوشل میڈیا سے زیادہ کوالٹی کو اپنی پہچان بنائیں۔ادھار کم سے کم دیں، غیر ضروری شراکت داری سے پرہیز کریں، اور اخراجات کو قابو میں رکھیں۔ وقتی فائدے کے لیے اپنی کریڈیبلٹی کو ہرگز قربان نہ کریں۔تنویر احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے سخت محنت، پلاننگ اور مستقل مزاجی کے بل بوتے پر ہر کاروبار میں کامیابی حاصل کی۔

صرف چند سال کی محنت نے انھیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ آج وہ ہزاروں طلبہ کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں اور درجنوں پاکستانیوں کو کاروباری میدان میں آگے بڑھنے میں مدد دے رہے ہیں۔اگر آج کا نوجوان بھی تنویر احمد کے فارمولے … سخت محنت، مستقل مزاجی، اور نو شارٹ کٹ کو اپنا لے تو یقیناً اس ملک میں ہزاروں تنویر احمد پیدا ہو سکتے ہیں۔بس شرط یہ ہے کہ وہ کنگ میکر کی طرح سوچنا اور محنت کرنا سیکھ لیں۔ تنویر احمد کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خواب دیکھنا کافی نہیں، بلکہ اعتماد، منصوبہ بندی، اور مسلسل محنت ہی کسی کو مٹی سے سونے تک پہنچا سکتی ہے۔

مقبول خبریں