تخت یا تختہ

عورتیں جلسوں میں نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ وہ ایسے جھنڈے بھی لے کر آتی ہیں جن کے سروں پر بڑی بڑی میخیں بھی ہوتی ہیں


Abdul Qadir Hassan August 12, 2014
[email protected]

وطن عزیز کے ان دنوں کے انتہائی مخدوش حالات جن کی مثال پہلے سے موجود نہیں ہے' ملک بھر کے گلی کوچوں تک میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم جدید طرز کی جمہوریت چلانے کے اہل نہیں ہیں اور اس کا ایک ثبوت ماضی کا بار بار کا مارشل لاء ہے یعنی غیر سیاسی فوجی حکومت اور دوسرا تازہ ترین ثبوت ہماری موجودہ حکومت ہے جو جمہوریت کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس کا نام تو عوام کی حکومت کا ہے اور عوام نے بھاری اکثریت کے ساتھ آج کے حکمرانوں کو منتخب بھی کیا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے دوسرے معاملات میں مصروف ہو گئے جن میں اور سب کچھ تھا عوام کے لیے کچھ نہیں تھا یعنی ان عوام کے لیے جنہوں نے انھیں حکومت میں بٹھایا تھا۔

آباد شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا، عوام کے لیے مانوس سہولتوں کو بہتر بنانے کے بجائے ان کو ختم کر دیا گیا اور غیر ضروری سہولتوں کو شروع کیا گیا جن کی عوام کو فی الوقت کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں کے مخالفوں نے ان پر مال بنانے کے الزامات لگانے شروع کر دیے کیونکہ تعمیرات کے کاموں میں مال ادھر ادھر کرنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ جن پاکستانیوں نے بڑی خوشی کے ساتھ نئے سویلین حکمرانوں کا استقبال کیا تھا وہ رفتہ رفتہ اس قدر مایوس ہوگئے کہ حکومت کی اپوزیشن میں شامل ہوگئے۔

اس حکومت کی کوئی رسمی قسم کی اپوزیشن نہیں تھی لیکن حکومت کی بدانتظامی اور عوام سے اس کی بے اعتنائی نے اس کی ایک اپوزیشن بنا دی، آج ملک میں ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف اپوزیشن ہے جو امن و امان مہنگائی اور لوڈشیڈنگ وغیرہ سے حد سے زیادہ نالاں ہے۔ معمول کی ان سہولتوں کے فقدان نے عوام کو ایک احتجاجی گروہ میں بدل دیا ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر آج اپوزیشن کے ایوانوں میں بے پناہ رونق ہے اور قادری صاحب تو مارو اور مر جاؤ کے نعرے لگا رہے ہیں۔

کبھی وہ اپنی متوقع شہادت کا مژدہ سناتے ہیں اور کبھی وہ اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کی صورت میں شہید کر دینے کا حکم دیتے ہیں یعنی ان کی سیاست میں قتل و خونریزی یا یوں کہیں کہ شہادت سرفہرست ہے۔ برصغیر کی اور پھر پاکستان کی مروجہ سیاست میں قتل کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ یہ جارحانہ زبان سیاست کی زبان کبھی نہیں رہی۔ یہ زبان تو حملہ آوروں کی زبان بھی نہیں ہوا کرتی تھی۔ کرنے کو کیا نہیں ہوتا تھا لیکن زبان میں شائستگی ہوتی تھی اور سیاسی زبان تو حد سے زیادہ مہذب ہوا کرتی تھی کیونکہ یہ جلسہ عام کی زبان تھی جس میں ہر مزاج کے لوگ موجود ہوا کرتے تھے۔

آج عورتیں ان جلسوں میں نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ وہ ایسے جھنڈے بھی لے کر آتی ہیں جن کے سروں پر بڑی بڑی میخیں بھی ہوتی ہیں وہ جس کے جسم پر پڑتی ہیں تو اسے یقیناً زخمی کر دیتی ہیں۔ یہ ہماری خواتین ہیں جن کو ہمارے جذباتی اور مذہبی سیاستدانوں نے بدل دیا ہے۔ ان لیڈروں نے یہ ہمارا قومی نقصان کیا ہے اور ہماری معروف عائلی زندگی کو بدل دیا ہے۔ جیسے یہ پاکستان کی نہیں سیکولر کینیڈا کی خواتین ہیں جن کی زندگی ہم سے مختلف ہے۔

آپ کی طرح میں نے بھی سیاست کے بہت ہنگامے دیکھے ہیں اور بطور ایک اخباری رپورٹر کے ان ہنگاموں میں یک گونہ شمولیت کی ہے لیکن ایسی جارحانہ زبان کا تصور بھی نہیں ہوتا۔ ایک بار مسجد نیلا گنبد سے نکلنے والے جلوس میں کسی نے کسی کو گالی دے دی 'کتے کے بچے'۔ جلوس کے بعد ایک لیڈر نے اپنے اس کارکن کو بلایا اور کہا کہ جلوس میں شامل ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آپ کے ایک کارکن کو میرے باپ کے نام کا پتہ کیسے چلا ، اس سیاسی کارکن کا برا حال ہوا اور بعد میں اسے میں نے کسی جلوس میں نہیں دیکھا جب کہ وہ ایک زبردست سرگرم کارکن تھا۔

اس طرح سیاست کی سرگرمیوں کی ایک زبان ہوتی تھی جس میں قومی تہذیب کی خوشبو ہوتی تھی۔ خواتین کی سیاسی سرگرمی کی مخالفت نہ تھی لیکن مردوں سے دور وہ اپنے دائرے میں رہ کر سیاسی اظہار کرتی تھیں جب کہ ان کی کئی لیڈر خود سیاستدان ہوتی تھیں اس کی آخری مثال بے نظیر کی تھی اور شروع کی مثال محترمہ فاطمہ جناح۔ جنہوں نے بھائی کے بعد ان کی سیاست کو زندہ رکھا۔ آج جب میں جلسوں میں نوجوان لڑکیوں کو سلاخوں والے ڈنڈوں سے مسلح دیکھتا ہوں تو ایسے لیڈروں سے پناہ مانگتا ہوں۔

ہماری جدید سیاست میں اب جو لوگ بھی جہاں سے آتے ہیں ان کی اصل وجہ ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے کمزور سیاسی حکومت قائم کر کے ان لوگوں کو موقع دیا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران علاوہ ایک کمزور حکومت اور انتظامیہ کے بھارت کے ساتھ ان کی خصوصی رغبت انھیں لے ڈوبے گی۔ ان حکمرانوں کی جراتوں کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے بھارت جیسے دشمن کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتے ہیں جب کہ بھارت کی موجودہ حکومت تو پاکستان ہی نہیں مسلمانوں کے خلاف ہے۔

وہ بھارت میں مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کر رہی اور زبردستی ان کے روزے کھلوا دیتی ہے۔ اگر ہمارا کوئی حکمران بھارت سے تعلقات استوار کرنا چاہے تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے اور وہ یوں کہ اس وقت امریکا کی بذریعہ بھارت یہ پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو اس ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے۔ امریکا اور بھارت دونوں کا مفاد ایک ہے اور وہ ہے پاکستان دشمنی۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس معلومات کے ذریعے ہم سے زیادہ ہیں اور ان کو امریکا اور بھارت کے عوام کا خوب علم ہے۔

بات آج کی سیاست کی ہو رہی تھی۔ اگر میرے ایک ساتھی نے راستے روکنے والے کنٹینروں سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں ان کے نیچے سے گزرنے والے پاکستانیوں کی کھلی توہین پر بین کرتا۔ بوڑھے بچے عورتیں اور مریض ان کنٹینروں کے نیچے سے ذرا سے راستے سے گزر کر نہ جانے کس طرح سمٹ سمٹا کر دوسری طرف آ جاتے ہیں۔ قدرت یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ہم کمزور انسان تو اپنی اس مصیبت بلکہ عذاب کا مداوا نہیں کر سکتے صرف اسے سہہ سکتے ہیں۔

اس وقت ملک میں اپوزیشن کی سیاست جس عروج پر ہے اس میں سو فی صد حکومت کیبری حکومت کا ہاتھ ہے کسی قادری اور عمران کی یہ مجال نہیں تھی کہ ایک قبول عام حکومت کے خلاف بول بھی سکے لیکن اب تو ہر ایرا غیرا اپوزیشن بنا رہا ہے کیونکہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے جو اس کا راستہ روک سکے۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو حکومتوں کی طاقت بنتے ہیں اور حکومت کی کمزوری بھی عوام کی ناراضگی سے ہوتی ہے مگر اب وقت گزر گیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ بس دو چار دنوں کی بات ہے۔ تخت یا تختہ۔

مقبول خبریں