چار شادیوں کے بارے میں ہم نے پہلی آواز اس وقت سنی تھی جب شوبز سے متعلق ایک پاکستانی سپوتنی گالی وڈ میں جھنڈے گاڑنے اور چار چاند لگانے گئی ہوئی تھی اور اس نے وہاں کہا تھا کہ اگر مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو عورتوں کو بھی چار شوہروں کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس پر کچھ زیادہ لے دے اس لیے نہیں ہوئی کہ اس محترمہ کا تعلق اس طبقے سے تھا جو پاکستان کے کالانعاموں کو ہندو دشمنی پر لگا کر خود وہاں سے ’’رشتے‘‘ استوار رکھتے تھے۔پھر یہ بات میں نے اور لوگوں خاص طور پر ماڈرن خواتین اور آزادی نسواں کے علم برداروں سے سنی، کئی مقامات پر بحث بھی سنی۔اور ایک مرتبہ ایک بڑی خاتون لیڈرہ کے ساتھ تو بڑا لمبا مباحثہ ہوا جو بار بار چارشادیوں کے معاملے کو عورتوں پر ظلم قرار دے رہی تھی۔ہم نے مختصر طور پر سمجھانا چاہا کہ یہ اجازت کسی ایسے ویسے ذریعے نے نہیں بلکہ اس کائنات کے خالق ومالک رب ذوالجلال نے دی ہے۔تو پھر بھی وہ نہیں مانی اور بدستور اسے عورتوں پر ظلم کہنے پر تلی رہی، تو ہم نے اسے کہا کہ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ یہ خدا کا عورتوں پر ظلم نہیں بلکہ ’’احسان عظیم‘‘ ہے تو پھر ؟ بولیں پھر مان لوں گی۔پھر ہم نے اس مسئلے کو پورے سیاق و سباق اور منظر پس منظر سے بیان کیا تو وہ خاتون بنیادی طور پر اچھی اور مثبت سوچ کی مالک مان گئی کہ واقعی یہ عورتوں پر رب جلیل کا بہت بڑا احسان ہے۔
وہ خاتون اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کا نام اب بھی بڑا نام ہے اور احترام سے لیا جاتا ہے کہ خواتین کی فلاح کے لیے انھوں نے بڑا کام کیا تھا۔ لیکن کچھ دنوں سے ہم دیکھ اور سن رہے کہ خواتین کی زیادہ تعداد اس اجازت پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی بلکہ بالواسطہ طور پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں ، اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بے مثل و بے مثال کتاب کے بارے میں کچھ بتایا جائے جس میں یہ اجازت دی گئی۔اس کتاب قرآن عظیم الشان کے بارے میں خود رب العالمین نے فرمایا ہے کہ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ ترجمہ۔اس کتاب کو وہ لوگ’’چھو‘‘ بھی نہیں سکتے جو پاک ترین نہیں۔مطہر کا لفظ صیغہ مبالغہ ہے عام پاکی کے لیے تو ’’ظاہر‘‘ استعمال ہوتاہے لیکن’’مطہر‘‘ کے معنی ہیں اتنا پاک جو اوروں کو بھی پاک کرے جیسے پانی خود بھی پاک ہے لیکن اور چیزوں کو بھی پاک کرتا ہے۔
مطلب یہ کہ اس کے معانی و مفاہیم تک پہنچنا ہے کہ یہ سمجھنے اور اس کے معانی و مفاہیم پر عمل کرنے کے لیے آیا ہے اور اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے’’مطہر‘‘ہونا چھونے اٹھانے ادھر ادھر کرنے کھولنے اور پڑھنے کے لیے’’جسمانی‘‘ طور پر اور سمجھنے کے لیے ’’ذہنی‘‘ طور پر پاک،صاف شفاف اور ’’مطہر‘‘ہونا۔ذہن پر کسی تعصب،مصلحت اور طرف داری جانب داری یا مفاد کا ذرہ بھر بھی میل نہ ہو۔کاغذ جتنا صاف ہوگا اس پر تحریر تصویر اور نقش بھی صاف آئے گا اور میلے کچیلے داغ داغ دھبوں والے کاغذ پر کاپی نقل اور نقش بھی ویسا ہی ہوگا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے اس(قرآن) کے عجائب قیامت تک ختم نہیں ہوں گے گویا یہ ایک ایسا سمندر ہے اور لال وجواہر سے بھرپور ہے۔لیکن اس بخرذخار سے لال وجواہر اور موتی صرف ماہر غواص ہی نکال سکتے ہیں کنارے کنارے اور اوپر اوپر تیرنے والوں کے ہاتھ صرف سیپیاں اور خس وخاشاک لگ سکتا ہے موتی نہیں۔
اس تمہید کی روشنی میں اب ہم ان آیتوں کے معانی ومفہوم سمجھنے کی کوشش کریں گے جن میں یہ چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے یہ سورہ نساء اس وقت نازل ہوئی تھی جب’’جنگ احد‘‘ گزر چکی تھی اور اس میں بہت سے لوگ شہید ہوگئے تھے اور اپنے پیچھے بہت ساری بیوائیں اور یتیم چھوڑ گئے تھے اوراس سورت کا بنیادی موضوع ہی یہی یتیم اور بیوائیں ہیں بات یوں شروع کی گئی ہے۔’’اے انسانو ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان(نفس واحدہ) سے پیدا کیا اور پیدا کیے اسی میں سے جوڑے اور پھیلائے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اس اللہ سے۔کہ سوال کرتے ہو تم ایک دوسرے سے جس کا واسطہ دے کر۔اور ڈرتے رہو رشتوں کی نزاکت سے بھی۔ بے شک اللہ ہے تم پر نگران‘‘۔
یہ پہلی آیت ہے اس سورت کی جو ایک طرح سے تمہید ہے انسانوں کے آپسی رشتوں کی اور اس کے بعد دوسری آیت میں اصل بات یوں شروع کی ہے کہ ’’اور دے دو یتیموں کو ان کے مال اور مت بدلو برے مال کو اچھے مال سے اور مت کھاؤ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر بے شک یہ گناہ ہے اور بہت بڑا گناہ‘‘۔صاف صاف لگ رہا ہے کہ یہ خطاب غیروں سے نہیں بلکہ ان بیواؤں اور یتیموں کے اپنے رشتے داروں اور لواحقین سے ہورہا ہے کیونکہ عام طور پر یتیموں اور بیواؤں والی وارث ان کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں غیروں کو یتیموں اور بیواؤں اور ان کے مال جائداد سے کیا واسطہ۔اور عموما دیکھا جاتا ہے کہ ایسے رشتہ دار بیواوں اور یتیموں کا مال و جائداد ہڑپ کر لیتے ہیں یا ان کو کم یا بُرا دے دیتے ہیں اور خود اچھا اچھا اور زیادہ پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اس کے فوری وہ تیسری آیت ہے جس میں چار یا مزید تین نکاحوں کی اجازت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ تیسری آیت کی شروع’’و ان‘‘ سے ہوئی ہے یعنی اور اگر مطلب کہ بات وہی چل رہی ہے ’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تم یتیموں کے معاملے میں تو نکاح کرو ان سے جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو تین تین چار چار۔پھر بھی اگر خوف ہو کہ تم عدل نہیں کرسکوگے تو بس ایک‘‘۔