دو دسمبر کو غلامی کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس پر یہ سوال بنتا ہے کہ کیا دنیا سے غلامی ختم ہوگئی ہے؟
موریطانیہ دنیا کا وہ آخری ملک تھا کہ جہاں غلامی کا خاتمہ 1981 میں کیا گیا تھا۔ جہاں عالمی دباؤ کے نتیجے میں پہلی مرتبہ غلامی کے خلاف فوجداری قوانین 2007 میں بنائے گئے تھے اور اس میں مزید سختی 2015 میں کی گئی تھی۔ اس لحاظ سے بظاہر تو دنیا سے غلاموں کی منڈیاں اور تجارت ختم ہوگئی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا سے ظاہری غلامی ختم ہوگئی ہے۔
یہ تو وہ ہے جو نظر آرہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا سے برائی کبھی ختم نہیں ہوتی وہ صرف اپنی شکل بدلتی ہے بالکل اسی طرح غلامی نے بھی صرف شکل بدلی ہے اور دنیا میں غلامی آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
غلامی سے مراد کسی انسان کو دوسرے انسان کی ملکیت قرار دینا ہے کہ جہاں غلام کے اپنے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور اگر کوئی حقوق ہوتے بھی ہیں تو وہ حقوق مالک یا آقا کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر اس پیمانے پر دیکھا جائے تو جبری مشقت آج بھی انسانی معاشرے پر گھناؤنے داغ کے طور پر موجود ہے۔
جاگیردار معاشرے میں جبری مشقت ایک عام سی بات ہے اور ہمارے اپنے پیارے ملک میں ہر تھوڑے دن کے بعد کسی نہ کسی زمیندار کے قبضے سے ایسے مزدور مع اہل و عیال بازیاب کرائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ نہ کبھی ختم ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ یہ جاگیردار اور ساہوکار بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کے حامی اور شریک کار ہوتے ہیں۔
یہ سب تو دیہی معاشرے کے مسائل ہیں۔ شہری معاشرے میں غلامی اپنی دیگر اشکال کی صورت میں موجود ہے۔ عموماً گھروں میں چھوٹے بچے بچیوں کو ملازم کے طور پر رکھا جاتا ہے اور کچھ گھروں میں ان سے جو انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کی روداد ہم کبھی کبھار اخبارات میں پڑھتے اور کبھی ٹیلی ویژن)پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔
حالانکہ بچوں سے مشقت لینے کے حوالے سے تمام تر قوانین موجود ہیں لیکن اس پر عمل کتنا ہوتا ہے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ شہری معاشرے میں انسانی مشقت کی بڑی شکل یہ ماسی کلچر ہے اور یہاں بھی انسانی حقوق کے حساب سے حالات دگرگوں ہی ہے۔ ماسیوں کے بھیس میں کچھ جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہے اسی لیے اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔
آپ لوگوں کو شاید میری بات بہت سخت لگے لیکن آج کی کارپوریٹ دنیا بھی غلامی کی ایک نئی شکل ہے۔ جہاں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو باقاعدگی سے ملنے والی تنخواہ کہ جس نے آپ کو معاشی فراغت تو فراہم کردی ہے لیکن اس کے بدلے آپ کی آزادی، آپ کے خواب، غرضیکہ ہر چیز کو گروی رکھ لیا ہے۔ جہاں نہ سر اٹھانے کی آزادی ہے اور نہ زبان کھولنے کی آزادی ہے، سوچ پر ابھی پہرے لگنے باقی ہے۔ آپ یقین کریں کہ نوکری موجودہ دور میں غلامی کی نئی اور جدید شکل ہے۔ کچھ ادارے جب اپنے یہاں کسی کو نوکری دیتے ہیں تو اس سے باقاعدہ اسٹامپ پیپر پر یہ لکھوایا جاتا ہے کہ وہ دو تا تین سال سے پہلے یہ نوکری نہیں چھوڑ سکتے جبکہ ادارہ جب چاہے انھیں نکال سکتا ہے۔
آج کے اس مادی دور میں کریڈٹ کارڈز اور قرضوں کی تمام اشکال بھی نئے دور کی غلامی ہی ہے تاکہ آپ کو باندھ کر رکھا جاسکے اور آپ کی آزادی کو سلب کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو آزاد ہی پیدا کیا تھا اور دنیا کے وسائل تمام بنی نوع انسان کی بنیادی ضروریات کےلیے کافی ہے لیکن انسانی حرص کے آگے ناکافی ہے اور یہ انسانی حرص ہی ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بناتی ہے۔ آج شاید آپ کو یہ بات ناقابل یقین لگے لیکن ایک وقت میں برطانیہ کے شاہی خاندان کے ذرائع آمدنی میں غلامی سے حاصل رقوم کا قابل قدر حصہ ہوتا تھا۔ جب یہ کاروبار ختم ہوا تھا تو اس وقت واجب الادا رقوم کو ادا کرنے کےلیے قرض لیا گیا تھا اور جس کی آخری ادائیگی ابھی 2015 میں کی گئی تھی۔
دو دسمبر کو غلامی کے خاتمے کا عالمی دن تو ہم ضرور منائیں گے لیکن دنیا سے غلامی ختم ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ فیصلہ میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔