دنیا ہر سال 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن مناتی ہے۔ مقصد یہ نہیں کہ صرف ایک دن یاد کرلیا جائے کہ ہمارے اردگرد موجود لوگ کن مشکلات سے گزر رہے ہیں، بلکہ یہ سوچا جائے کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ بنا سکے ہیں جو سب کے لیے خوشگوار، محفوظ اور قابلِ رسائی ہو؟
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک بہتر، انصاف پر مبنی اور سب کے لیے قابلِ رسائی معاشرہ تبھی ممکن ہے جب ہم ہر فرد کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس سال کا عالمی موضوع ہے: ’’معذورافراد کی شمولیت… سماجی ترقی کی بنیاد‘‘۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے ہر خطے میں معذور افراد کو وہ چیلنج درپیش ہیں جو عام لوگوں کے لیے نظر بھی نہیں آتے۔ یہ افراد غربت کے زیادہ خطرے میں رہتے ہیں، ملازمت میں کم مواقع ملتے ہیں، تنخواہیں بھی کم ملتی ہیں، اور اکثر انہیں سوشل پروٹیکشن سے وہ سہولتیں نہیں ملتیں جن کے وہ حقیقی طور پر مستحق ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے معاشرے اب بھی معذور افراد کو ’قابلیت‘ نہیں بلکہ ’کمزوری‘ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں… جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
دنیا بھر کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ ترقی کا سفر سب کے ساتھ مل کر ہی ممکن ہے… اور یہی اس سال کے عالمی دن کا پیغام ہے: ایسا معاشرہ بنائیں جو ہر شہری کےلیے کھلا، منصفانہ اور قابلِ رسائی ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کیا ہم حقیقت میں ایسا معاشرہ بن چکے ہیں؟ یا یہ سفر ابھی جاری ہے؟
پاکستان میں معذور افراد
پاکستان میں معذور افراد کی درست تعداد کبھی واضح نہ ہوسکی، لیکن عالمی اندازے بتاتے ہیں کہ ملک کی 10 سے 15 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ یعنی کروڑوں لوگ، جو ہمارے آس پاس ہیں، مگر اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔
اصل مسئلہ معذوری نہیں، اصل رکاوٹیں وہ ہیں جو معاشرہ خود کھڑی کرتا ہے۔ ہماری زیادہ تر عمارتوں، سڑکوں اور سرکاری اداروں میں وہ سہولتیں موجود ہی نہیں جو وہیل چیئر استعمال کرنے والے، نابینا افراد یا سماعت سے محروم شہریوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اسکول، دفاتر اور حتیٰ کہ اسپتال بھی اکثر ’’سب کے لیے‘‘ ڈیزائن نہیں ہوتے۔
تعلیم، سب کے لیے نہیں؟
بہت سے والدین اپنے معذور بچوں کے لیے مناسب اسکول تلاش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں خصوصی سہولیات، تربیت یافتہ اساتذہ اور متعلقہ مواد کی کمی آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
روزگار کی دنیا
قانونی طور پر سرکاری اداروں میں 2 فیصد کوٹہ موجود ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھرتیاں کم، انٹرویوز مشکل، سہولیات ناکافی، اور ماحول غیر دوستانہ ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باصلاحیت نوجوان بھی اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سماجی رویے، سب سے بڑی رکاوٹ
ترس، ہمدردی اور کمزوری کے لیبل نے معذور افراد کو ان کی اصل پہچان سے دور رکھا ہوا ہے۔ دنیا جہاں انہیں ’’قوت اور ہمت‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے، ہم میں سے اکثر آج بھی انہیں محدود سمجھتے ہیں۔
لیکن تصویر مکمل تاریک بھی نہیں۔ پاکستان میں چند برسوں میں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ جیسے اسٹیٹ بینک کے پروگرام میں ہزاروں معذور اور خواتین انٹرپرینیورز کو آسان قرضے، بہتر مالی رسائی اور نئی معاشی راہیں ملیں۔ نادرا کے اسپیشل کارڈ نے بینکنگ اور حکومتی اسکیموں تک رسائی نسبتاً آسان بنائی۔ آن لائن تعلیم، سائن لینگویج کورسز، موبائل ایپس، سیکھنے، جڑنے اور آگے بڑھنے کے نئے دروازے کھول رہے ہیں۔ پاکستانی پیرا ایتھلیٹس نے ثابت کیا کہ موقع ملے تو کامیابی کی کوئی حد مقرر نہیں۔
پاکستان کو کن بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
1۔ حقیقی رسائی
ہر نئی عمارت، سڑک، پارک اور ٹرانسپورٹ میں معذور افراد کے لیے اعلیٰ معیار کی رسائی لازمی ہو۔
2۔ تعلیم میں شمولیت
اساتذہ کی تربیت، بریل کتابیں، سائن لینگویج، خصوصی کلاس رومز پر توجہ دی جائے، کیونکہ یہ سہولت نہیں، ضرورت ہے۔
3۔ معاشی خودمختاری
معذور افراد کےلیے روزگار کے مواقع بڑھانا، کوٹے پر سختی سے عمل اور نجی اداروں کو شمولیت کی طرف لانا بھی اہم ہے۔
4۔ سماجی رویوں کی اصلاح
معذوری کو شرمندگی نہیں، ایک انسانی حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ معاشرے میں معذور افراد کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کرنے سے گریز کیا جائے۔
ہم سب کیا کر سکتے ہیں؟
کسی معذور شخص سے بات کرتے ہوئے احترام کو پہلی ترجیح دیں۔ راستہ بنانا، مدد کرنا، رکاوٹ ہٹانا، یہ چھوٹے قدم بڑی تبدیلی بن سکتے ہیں۔ اسکول اور دفاتر کے ماحول کو زیادہ قابلِ رسائی بنائیں۔ باصلاحیت معذور افراد کی کہانیاں شیئر کریں۔ بچوں کو سکھائیں کہ جسمانی معذوری کا یہ ’فرق‘ دشمن نہیں، طاقت ہے۔
یاد رکھیے کہ معذور افراد اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ اصل حصہ ہیں۔ ان کے بغیر پاکستان مکمل نہیں۔ یہ دن صرف ہمیں احساس نہیں دلاتا بلکہ ہمیں بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور معاشرہ تب بدلتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو ترس نہیں، بلکہ عزت، مواقع اور خودمختاری کے ساتھ دیکھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔