خلیل جبران اور می زیادہ

 دو روحوں کی خطوں میں بَسی لازوال محبت



ادب کی تاریخ میں کچھ محبتیں ایسی بھی ملتی ہیں جو جسمانی قرب سے آزاد، مگر روحانی قربت میں امر ہوتی ہیں۔ یہ وہ عشق ہوتے ہیں جو آنکھوں کے نہیں، قلب و روح کے مکالمے سے پروان چڑھتے ہیں۔

ایسی ہی ایک لازوال داستان لبنانی نژاد فلسفی، شاعر اور مصور خلیل جبران اور مصر کی مایہ ناز ادیبہ، شاعرہ اور نقاد می زِیادہ کی ہے۔ یہ وہ محبت تھی جو دو براعظموں کے فاصلے کے باوجود خطوں کی سطور میں سانس لیتی رہی۔ یہ عشق نہ دیدار کا محتاج تھا نہ لمس کا، بلکہ دو ذہین اور حساس روحوں کے درمیان روحانی ہم آہنگی، فکری اشتراک اور انسانی احساسات کا سفر تھا، جو بیسویں صدی کے ادبی رومان کی علامت بن گیا۔

خلیل جبران: ایک فلسفی شاعر کی روحانی تلاش

خلیل جبران 6 جنوری 1883ء کو لبنان کے شمالی قصبے بشریٰ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن غربت اور ناآسودگی میں گزرا۔ ان کی والدہ کمیلہ رحمہ ایک مضبوط ارادے والی خاتون تھیں جنہوں نے بیٹے کی تخلیقی قوتوں کو پہچان لیا۔ 1895ء میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ امریکا کے شہر بوسٹن ہجرت کرگئیں۔ یہی ہجرت جبران کی زندگی کا وہ موڑ ثابت ہوئی جس نے انہیں مشرقی روحانیت اور مغربی فکر کے درمیان ایک پُل بنا دیا۔

امریکا میں رہتے ہوئے انہوں نے ادب، فلسفہ اور مصوری کے میدان میں خود کو منوایا۔ ان کی مشہور کتاب ’’النبی‘‘ 1923ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب روح، محبت، آزادی اور انسان دوستی کا مرقع ہے جس نے جبران کو عالمی ادبیات میں ایک فلسفی شاعر کی حیثیت دی۔

می زِیادہ: مشرق و مغرب کے سنگم پر ایک نسوانی دانش ور

می زِیادہ 11 فروری 1886ء کو فلسطین کے شہر ناصرہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد لبنانی اور والدہ فلسطینی تھیں۔ ابتدائی تعلیم لبنان میں حاصل کی، پھر قاہرہ منتقل ہوئیں، جہاں انہوں نے فرانسیسی، انگریزی، جرمن، اطالوی اور عربی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔

می زیادہ نے قاہرہ کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک روشن چراغ کی حیثیت اختیار کی۔ انہوں نے خواتین کے حقوق، فکری آزادی اور تعلیم کے فروغ کے لیے مضامین لکھے، خطبات دیے، اور ’’صالون می زیادہ‘‘ کے نام سے ادبی نشست کا آغاز کیا جہاں مصر، شام، لبنان اور فلسطین کے ممتاز ادیب و شاعر شریک ہوتے۔ وہ عرب دنیا میں نسوانیت کی اولین آوازوں میں سے تھیں جنہوں نے مشرقی معاشرے میں عورت کے فکری وقار کو تسلیم کروایا۔

پہلی ملاقات: ایک خط، ایک اثر، ایک انقلاب

1912ء میں می زیادہ نے خلیل جبران کی فرانسیسی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’پھوٹے ہوئے پر‘‘ پڑھی۔ یہ کتاب روحانی محبت اور سماجی جبر کے خلاف ایک علامتی احتجاج تھی۔ یہ تحریر می زیادہ کے دل کو چھوگئی۔ انہوں نے جبران کو نیویارک میں ایک تعریفی خط لکھا جس میں ان کی تحریر کے جمالیاتی اور روحانی پہلوؤں کی تعریف کی۔

یہ خط صرف ایک ادبی تبصرہ تھا، مگر وہی لمحہ ان کے درمیان روحانی تعلق کی بنیاد بن گیا۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان بیس برس تک خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک ایسا رشتہ جو الفاظ، خیالات اور احساسات کے ذریعے قائم رہا۔

خطوط کی دنیا: جہاں روحیں بات کرتی تھیں

ان کے خطوط میں رومان، فلسفہ، مذہب، نسائیت اور تنہائی جیسے موضوعات کا امتزاج ملتا ہے۔ یہ خط محض عاشقانہ جذبات کا مظہر نہیں بلکہ دو فکری اور روحانی وجودوں کی گفتگو تھے۔

جبران نے ایک خط میں لکھا:

’’مئی، تم ایک خیال کی مانند ہو جو میرے دل میں رہتا ہے، کبھی غائب نہیں ہوتا، کبھی پوری طرح سمجھ نہیں آتا۔‘‘

می زیادہ نے جواب دیا:

’’تم میری تنہائی کی بازگشت ہو، میری روح کے سفر کے ہم سفر ہو۔‘‘

یہ مکالمہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی قرب کی علامت ہے ایسی قربت جس میں خاموشی بولتی ہے اور فاصلے مٹ جاتے ہیں۔

تصویر اور بالوں کا قصہ: تخیل کی تقدیس

ایک دن جبران نے لکھا:

’’اپنی تصویر مجھے بھیجو، مئی۔ میں وہ چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں جو خاموشی میں مجھ سے بات کرتا ہے۔‘‘

می زیادہ نے جواب دیا:

’’سوچو، تصور کرو، خلیل! جب تم میرا خیال کرتے ہو تو میں کیسی لگتی ہوں؟‘‘

جبران نے لکھا:

’’مجھے لگتا ہے تمہارے بال چھوٹے ہیں، اور جب تم لکھتی ہو تو وہ تمہارے چہرے پر گرتے ہیں۔‘‘

یہ پڑھ کر می زیادہ نے اپنے لمبے بال کاٹ دیے اور تصویر کے ساتھ لکھا:

’’تم نے درست تخیل کیا، میرے خواب دیکھنے والے محبوب۔‘‘

جبران نے جواب دیا:

’’دیکھا، میری بصیرت کبھی خطا نہیں کھاتی۔‘‘

اور می زیادہ نے کہا:

’’نہیں، بصیرت خطا نہیں کھائی، محبت ہم دونوں سے زیادہ سچی تھی۔‘‘

دو براعظم، ایک رشتہ:

جبران نیویارک میں رہتے تھے، می زیادہ قاہرہ میں۔ ان کے درمیان سمندروں کے فاصلے تھے مگر قلم ان کا پُل تھا۔ میزیادہ جبران کے ہر خط کو کئی بار پڑھتیں، اپنی ڈائری میں محفوظ کرتیں، اور جواب دینے میں دنوں کا وقت لیتیں تاکہ ہر لفظ ان کے احساس کی گہرائی سے نکلے۔

ادبی محققین کے مطابق، ان کے درمیان تین سو پچاس سے زیادہ خطوط کا تبادلہ ہوا جو بعد میں ’’محبت اور دوستی کے خطوط‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ یہ خطوط آج بھی عربی ادب میں محبت کے فلسفیانہ مکتوبات کہلائے جاتے ہیں۔

ادبی اثرات اور فکری میراث:

جبران اور می زیادہ دونوں اپنے اپنے خطوں کے فکری انقلاب کے نمائندہ تھے۔ جبران نے نیویارک میں قلمی انجمن قائم کی جس نے عربی ادب کو مذہبی تقلید اور رسمی جمود سے نکال کر انسان دوستی، روحانیت اور تخلیقی آزادی سے جوڑا۔ می زیادہ نے قاہرہ میں ادبی نسوانیت کو ایک تحریک کی شکل دی۔ یوں دونوں نے ادب کے ذریعے نہ صرف عشق کی نئی تعریف کی بلکہ فکر کی نئی سمت متعین کی۔

ملاقات کیوں نہ ہو سکی؟

ادبی دنیا کا سب سے دل کش سوال یہی ہے کہ وہ کبھی ملے کیوں نہیں؟

اس کے تین بنیادی اسباب بیان کیے جاتے ہیں:

 فاصلے اور صحت: جبران نیویارک میں تھے اور آخری برسوں میں ان کی صحت خراب رہتی تھی۔

 سماجی قیود: می زیادہ ایک مشرقی معاشرے میں تنہا خاتون ادیبہ تھیں، جن کے لیے کسی غیر مرد سے ملاقات سماجی تنازع بن سکتی تھی۔

روحانی تقدس: دونوں سمجھتے تھے کہ اگر وہ مل گئے تو وہ روحانی تقدس اور تخیلی جلال جو ان کے تعلق کی بنیاد تھا، شاید مجروح ہوجائے۔

یوں وہ محبت جو فاصلے سے پیدا ہوئی تھی، فاصلے ہی میں امر ہو گئی۔

جبران کی وفات: ایک روح کا ٹوٹ جانا۔

10 اپریل 1931ء کو خلیل جبران نیویارک میں انتقال کر گئے۔ جب یہ خبر می زیادہ تک پہنچی تو انہوں نے لکھا:

’’وہ انسان نہیں تھا؛ وہ ایک ایسی صبح تھی جو کبھی ختم نہ ہوئی۔‘‘

جبران کی موت نے می زیادہ کو اندر سے توڑ دیا۔ انہوں نے کئی سال تنہائی میں گزارے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ وہ ذہنی دباؤ اور افسردگی کے باعث لبنان کے ایک نفسیاتی مرکز میں بھی داخل ہوئیں۔ مگر بعد ازآں عرب ادبی دنیا نے انہیں عزت اور احترام کے ساتھ دوبارہ معاشرتی زندگی میں واپس لایا۔

انہوں نے لکھا:

’’میں ایک ایسی دنیا میں رہ گئی ہوں جو اب وہ موسیقی نہیں سن سکتی جو ہم نے کبھی مل کر سنی تھی۔‘‘

ان کی محبت کا روحانی مفہوم

خلیل جبران اور می زیادہ کی محبت ایک ادبی استعارہ ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت جسمانی وابستگی نہیں بلکہ روحانی رشتہ، فکری ہم آہنگی اور صداقتِ احساس کا نام ہے۔

یہ تعلق تین ابدی سچائیاں بیان کرتا ہے:

 محبت کا مرکز دل نہیں، روح ہے۔

محبت اظہار سے نہیں، احساس سے زندہ رہتی ہے۔

محبت فاصلوں کو مٹا دیتی ہے، اگر نیت پاک ہو۔

خلیل جبران اور می زیادہ کی محبت محض ایک ادبی واقعہ نہیں بلکہ ایک روحانی فلسفہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جب دو روحیں سچائی اور احساس کے رشتے میں بندھ جائیں تو وقت، فاصلہ یا معاشرہ کچھ بھی انہیں جدا نہیں کر سکتا۔

انہوں نے نہ ایک دوسرے کو دیکھا، نہ چھوا، نہ وعدے کیے، مگر ان کے درمیان ایک ایسا نورانی مکالمہ جاری رہا جو آج بھی ادب کی تاریخ کے روشن بابوں میں رقم ہے۔

اگر دنیا کی محبتیں مٹ جاتی ہیں، تو بھی قلم سے لکھی محبتیں کبھی نہیں مرتیں۔

خلیل جبران اور می زیادہ کی محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ روحانی قرب جسمانی وصال سے کہیں زیادہ پائے دار ہوتی ہے۔

(یہ مضمون معتبر تحقیقی و ادبی ماخذات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے، جن میں خلیل جبران کے خطوط، می زیادہ کی ڈائریاں، قلمی انجمن کے محفوظات، می زیادہ کے مکاتیب اور 1954ء میں شائع شدہ خطوطِ محبت و دوستی شامل ہیں۔)

مقبول خبریں