سائنس کے مطابق ہمارے دماغ کے چار گیئر ہیں۔ اگر ہم اپنی انگلی کان سے پیچھے کی طرف رکھیں۔یعنی کے سر کے پشت گدی کے تھوڑا اوپر۔اس جگہ پر دماغ کے اندر کی طرف بلیو ڈاٹ موجود ہے ۔ یہ نیلے رنگ کا ہے جہاں پر بہت سے نیورونز اکٹھے ہیں ۔ اس کولاطینی زبان میں بلیو ڈاٹ کہا جاتا ہے ۔ یہ تقریباً کچھ ملی میٹر جتنا حصہ ہے اور اس حصے کا ہمارے دماغ کی کارکردگی سے بہت گہرا تعلق ہے ۔
یہ ہمارے دماغ کا ماسٹر سوئچ ہے ۔ بالکل ایسے جیسے گاڑیوں میں گیئر باکس ہوتا ہے اور گیئر بدل کر ہم گاڑی کی اسپیڈ کو تیز کرتے ہیں یہ بات شہرہ آفاق خاتون سائنسدان نے بتائی جن کا نام ڈاکٹر میتھو ٹورنی ہے ۔ انھوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں ۔ یہ یونیورسٹی آف کیمرج کی نیوروسائنٹسٹ ہیں ۔ یہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کا دماغ صحیح گیئر میں کام کر رہا ہے تو آپ کو کام کرتے وقت خوشگوار احساسات ہونگے ۔ اس میں آپ کا دل لگے گا۔ لیکن اگر آپ اپنے دماغ کو غلط گیئر میں چلارہے ہیں تو آپ سستی کا شکار ہونگے۔دماغ کے اس حصے کے بارے میں بہت ریسرچ ہوتی رہی ہے۔ اس میں میری اینٹو نیٹ کا نام انتہائی اہم ہے جو ایک بہت بڑے فزیشن تھے ۔اٹھارویں صدی میں، ذرا غور فرمائیں آج سے 200سال پہلے ،انھوں نے ڈھائی سال کی ریسرچ کے بعد ہمیں یہ بتایا کہ دماغ کا یہ حصہ 50ہزار نیورونز دماغ کے سیلز سے مل کر بنتا ہے۔
یہ ہمارے دماغ کے اوپر کے حصے کو اور نیچے ریڑھ کی ہڈی کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد بہت سے سائنسدان آئے جنھوں نے ریسرچ کی ۔ بیسویں صدی میں جاپانی سائنسدانوں نے کچھ تجربات بندروں پر کیے انھوں نے بندروں کے اس حصے کو ڈمیج کیا تو بندروں نے اپنا شعور کھو دیا اور انھیں کسی چیز کا ادراک نہیں رہا ۔
انسانوں نے اپنے فائدے کے لیے جانوروں خاص طور پر بندروں اور چوہوں پر بہت سے تجربات کیے اور مسلسل کرتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے بہت سے تجربات چوہوں پر کیے ہیں اور ان کے اثرات کے نتیجے میں چوہے اکثر اندھے ، لنگڑے اور معذور بھی ہوجاتے ہیں ۔ ایک وقت میں، جب میں یورپ میں تھا تو جانوروں پر ان مظالم کے خلاف وہاں کے PHDیونیورسٹی اسٹوڈینٹس نے احتجاج کیا تواس کی روک تھام کے لیے کچھ قوانین وضع کیے گئے ۔
ہمارے دماغ میں بہت سے نیورو ٹرانسمیٹر پیدا ہوتے ہیں ۔ ایسے کیمیکل پیدا ہوتے ہیں جو دماغ کے مختلف کام کرتے ہیں۔ ان کی تعداد پچاس سے سو تک نیورو ٹرانسمیٹر ہے ۔ ان میں ایک ٹرانسمیٹر نیورو ایپی فین ہے ۔یہ ہماری توجہ کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ نیورو ایپی فین پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔ ہمارے سینسز بہت زیادہ ایکٹیو ہوجاتے ہیں ۔نبض تیز ہوجاتی ہے ، ہماری آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں ۔
بلڈ زیادہ پمپ ہوتا ہے ۔ چار گیئر دماغ کے ہوتے ہیں پہلا گیئر ون ہے یہ وہ گیئر ہے جب ہم نیند میں ہوتے ہیں اس وقت ہماری لانگ ٹرم میموریز بن رہی ہوتی ہیں، ہمارے دماغ کا فضلہ ڈرین ہورہا ہوتا ہے ۔ گیئر ٹو میں ہم اس وقت جاتے ہیں جب ہم بیدار ہوتے ہیں یعنی خوابیدہ حالت میں ہوتے ہیں ۔ جب ہم گیئر تھری میں جاتے ہیں تو اس وقت نیورا ایڈلین زیادہ پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ گیئر فور میں دماغ کی حالت اچھی نہیں ہوتی ۔ اس حالت میں توجہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس وقت ہمارا دماغ بہت اچھا کام کر رہا ہوتا ہے اور کام کرنے کا مزہ آتا ہے ۔ صبح آٹھ سے گیارہ اور شام تین سے چار بجے کا وقت تخلیقی کام کے لیے بہترین ہوتا ہے ۔ ہم اگر دوپہر کو صرف آدھا گھنٹہ بھی سوتے ہیں تو جاگنے کے بعد ہماری دماغی کی کارکردگی بہت زیادہ شاندار ہوجاتی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوپہر کو قیلولہ کیوں ضروری ہے ۔ چنانچہ صدیوں پرانے اس فارمولے کی افادیت کو جاننے کے بعد مغربی سوسائٹی نے بھی قیلولہ اپنانا شروع کردیا ہے ۔ کئی سائنسدانوں نے سائنسی فارمولے اور مشکل مسائل نیند کی حالت میں حل کیے ہیں ۔ جب ہم گہری نیند میں ہوتے ہیں تو اس حالت میں ہمارا دماغ طویل المدت یادداشت کو اپنی فائلوں میں رکھنا شروع کردیتا ہے ۔ گہری نیند میں یہ یادداشت بنتی ہے ۔ نیند کی تین اقسام ہوتی ہیں ۔
پہلی کچی نیند اور اس کے بعد گہری نیند کا دورانیہ ۔ اس کے بعد REM نیند کا دورانیہ جب ہم خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جس میں ہماری پلکیں متحرک ہوتی ہیں۔اس طرح نیند کا ہر دورانیہ 90منٹ سے 120منٹ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس طرح ہم نیند کے پانچ دورانیے مکمل کرتے ہیں ۔ گہری نیند میں ہمارے دماغ کی کارکردگی اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس حالت میں ہماری تخلیقی صلاحیت بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔اس لیے نیند کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے ۔ اسی لیے رات کے آخری پہر میں ہمیں خواب زیادہ آتے ہیں ۔سچے خواب ۔اس لیے ہمارے بچوں کے لیے صحیح نیند بہت ضروری ہے تاکہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوں ۔